سنہ 1925 میں گیسٹن رامون نے ایک تجربہ شروع کیا جسے انھوں نے خود بھی ’دلچسپ‘ قرار دیا۔
گیسٹن رامون کا تعلق فرانس سے تھا اور وہ جانوروں کے ڈاکٹر تھے۔ کچھ سال قبل جب وہ گھوڑوں پر ڈپتھیریا کی ایک نئے ویکسین کو آزما رہے تھے تو انہیں ایک بات کا انکشاف ہوا۔۔۔ کچھ جانوروں میں ویکسین کے مقام پر بہت ہی برے پھوڑے پھوٹ پڑے، اور ان جانوروں کی بیماری کے خلاف مدافعت زیادہ بڑھی۔ اس دریافت نے انہیں سوچ میں ڈال دیا۔ کیا وہ ویکسین میں اور کچھ ڈال سکتے ہیں جس سے ایسا ہونے کے امکان کو بڑھایا جا سکے؟
اگلے ایک سال میں رامون نے عجیب و غریب اشیا استعمال کیں، بظاہر جو بھی انہیں اپنی کچن کی الماریوں میں ملا، وہ سب۔ ڈپتھیریا ویکسین کے ساتھ ان کے مریضوں کو سابودانا، نشاستہ، ایگار، لیکیتھن ۔ جو کہ تیل سے بنا ایک املشن ہوتا ہے اور عام طور پر چاکلیٹ میں پایا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ بریڈ کرمبز کے انجیکشن بھی دیے گئے۔
یہ تجربات کامیاب رہے۔ جن جانوروں کو ویکسینز کے ساتھ ساتھ رامون کی باولی کھچڑی بھی دی گئی ان میں دوسرے جانورں کے مقابلے میں خاصی زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں، یعنی ان میں ڈپتھیریا کے خلاف زیادہ مدافعت پیدا ہوئی اور وہ اس بیماری سے زیادہ محفوظ ہو گئے۔
اور اس طرح ’ایڈجوونٹز‘ کا شعبہ وجود میں آیا۔ اس کا نام لاطینی لفظ ’ایڈجووئیر‘ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ’مدد کرنا` یا ’امداد‘ ہے۔ یعنی یہ ایسی اشیا ہیں جنہیں ویکسین میں شامل کیا جائے تو ویکسین کا اثر بڑھ جاتا ہے۔ ان کا استعمال آج بھی عام ہے اور آج بھی اس میں اتنی ہی عجیب و غریب چیزیں استعمال ہوتی ہیں جتنی پہلے۔
دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونا والا ایڈجوونٹ ایلومینیم ہے۔ یہ زیادہ تر ویکسینز میں پایا جاتا ہے، جن میں ڈپتھیریا، ٹیٹنس، اور کالی کھانسی کے ساتھ ساتھ ہیپٹائیٹس اے، ہیپٹائیٹس بی، ایچ پی وی اور بھی کئی ویکسین شامل ہیں۔
دیگر ایڈجوونٹس میں سکوالین شامل ہے، جو کہ شارک مچھلی کے جگر سے حاصل کی جانے والی ایک تیل نما شے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کویلاجا پیڑ کی چھال کا نچوڑ۔ جسے جنوبی امریکہ میں رہنے والے اینڈین ماپوچے افراد صابن بنانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ بھی ویکسین میں شامل کیا جاتا ہے۔
اس فہرست میں شامل ہونے والی تازہ ترین اشیا۔ جنہیں اب تک لائیسنس نہیں ملا ہے۔ شاید سب سے زیادہ عجیب ہیں، جیسے کہ جراثیم کی اتری ہوئی دم اور ’بیکٹیرئیل بھوت‘ جو کہ جراثیم کی خالی جلد سے بنے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ویکسینز ہر سال بیس سے تیس لاکھ جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو عمر بھر کی معذوری سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم اب تک کسی نے یہ اندازہ نہیں لگایا ہے کہ اس میں ایڈجوونٹس کا کتنا بڑا کردار ہے۔ لیکن ہمارے جسم میں ویکسین کے خلاف بھر پور ردعمل پیدا کرنے سے یہ ویکسینز کو زیادہ موثر بناتے ہیں اور لوگوں کو زہادہ دیر تک محفوظ رکھتے ہیں۔
کچھ آبادیوں میں تو، جیسے کہ عمر رسیدہ افراد میں، ایڈجوونٹس کے بغیر ویکسین کام ہی نہیں کرتے۔
چین کے شہر ڈالیان میں واقع ڈالیان یونیورسٹی میں بطور کیمیکل انجینئیر کام کرنے والی بنگ بنگ سن کہتے ہیں، ’ایڈجوونٹ کے بغیر اینٹی باڈیز عموما کچھ ہفتوں یا کچھ ماہ میں غائب ہو جاتی ہیں۔ تاہم ان کے ساتھ یہ کچھ سالوں تک موجود رہتی ہیں۔‘
بنگ بنگ سن ہیپٹائیٹس بی کے کچھ ویکسینز کی مثال دیتے ہیں، ’اگر ان میں ایڈجوونٹس شامل نہ ہوں تو بہت ہی کم اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں، اتنی کم کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔‘
ایک صدی سے زیادہ عرصے تک یہ ایک معمہ ہی رہا ہے کہ یہ بظاہر عجیب اشیا ویکسینز کو موثر بنانے کے لیے اتنی اہم کیوں ہیں۔ اب سانئنسدان اس راز کو سمجھنے کی دوڑ میں ہیں۔
ایک تنازع
سب سے پہلے تو یہ کہ ویکسینز میں ملاوٹ کی بات سننے میں خطرناک لگتی ہے لیکن یہ اشیا بہت ہی کم مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں۔ عام طور پر ایک ویکسین میں 0.2 ایم جی ایلومینیم ہوتی ہے جو کہ محذ پوست کے ایک بیج سے بھی کم ہے۔ یعنی اس سے سنجیدہ قسم کے مضر اثرات نہیں ہوتے۔
دراصل حقیقت تو یہ ہے کہ ایڈجوونٹس ابتدائی طور پر حفاظت کی وجہ سے ہی مقبول ہوئے۔
ستر کی دہائی میں بچوں کے ایک نیورولوگسٹ نے رایل سوسائیٹی آف میڈیسن کے سامنے ایک خطاب کیا جس کی وجہ سے ایک دہائی تک چلنے والا ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔
جان ولسن نے دعوی کیا کہ چھتیس بچوں کے دماغ کو نقصان پہنچا تھا، اور انہوں نے غلطی سے اس کا الزام کالی کھانسی کے ویکسین پر لگایا۔
یہ کہانی جلد ہی میڈیا پر آ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اچھا خاصا تنازع کھڑا ہو گیا۔ پرائم ٹائم کووریج اور شہہ سرخیوں کے ساتھ۔ اگلے کچھ سالوں میں برطانیہ میں پرٹوسس کے خلاف ویکسینشن کی شرح آدھی سے بھی کم ہو گئی، جبکہ دیگر کچھ ممالک میں اسے پوری طرح روک دیا گیا۔
حالانکہ اس میں کوئی بھی سچائی نہیں تھی۔ اس ویکسین کو کئی دہائیوں تک بنا کسی مسئلے کے استعمال کیا جا چکا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ اس سے فوری طور پر کچھ مضر اثرات ضرور سامنے آتے تھے، جیسے کہ بخار، جس سے پریشانی ہو سکتی تھی۔
اس تنازع کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد سائنسدانوں نے ویکسین بنانے کے نئے طریقوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
اس سے پہلے ویکسینز میں زندہ جراثیم کو استعمال کیا جاتا تھا جنہیں کسی نہ کسی طرح سے کمزور کیا گیا ہوتا تھا جس سے وہ اتنے خطرناک نہیں رہتے تھے، لیکن انسانی جسم انہیں پہچان سکتا تھا۔ یا پھر جراثیم کو مار کر انہیں ویکسین میں شامل کیا جاتا تھا۔ پرٹوسس کی ویکسین کے لیے، جو کہ ٹیٹنس اور ڈپتھیریا کے ویکسینز کے ساتھ دیا جاتا تھا، بھی یہی کیا جاتا تھا۔
اس طرح کے ویکسینز میں کئی دفعہ کچھ عارضی علامات ظاہر ہوتی تھیں، کیونکہ یہ انفیکشن کی نقل کرتے تھے۔ اور قدرتی انفیکشنز کی ہی طرح مدافعت پیدا کرنے میں بہت موثر تھے۔ اکثر اوقات ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی مدافعت دہائیوں تک برقرار رہتی تھی۔ زندہ جراثیم والے ویکسینز سے کئی دفعہ دیگر انفیکشنز سے بھی تحفظ مل جاتا تھا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے آج تک لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
نیا طریقہ اس سے مختلف تھا۔ کالی کھانسی کے ویکسین کے تنازع کے بعد سائنسدانوں نے پورے جراثیم کی جگہ اس کے کچھ حصے، جیسے کہ ان کی باہری سطح کے کچھ حصے یا وہ ٹاکسن جو وہ پیدا کرتے ہیں، ویکسین میں شامل کرنا شروع کیے۔ یہ نئے ویکسین پرانے ویکسینز کی طرح ہی محفوظ تھے۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ اس طرح ویکسین بنانے کا مطلب تھا کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی مدافعت پرانے ویکسینز جتنی پراثر، اور دیر پا نہیں تھی۔ اس مسئلے کا حل نکلانے کے لیے سانئینسدانون نے ایڈجوونٹس کا سہارا لیا۔
ایلومینیم پیریڈاکس
ایلومینیم سب سے عام ہی نہیں بلکہ سب سے پرانا ایڈجوونٹ بھی ہے۔ رامون کے گھوڑوں پر کیے جانے والے تجربات کے بعد برطانوی الیکزینڈر گلینی نے ایک اور حادثاتی دریافت کی۔ سن 1926 میں ان کی ٹیم ڈپتھیریا کے جراثیم کی طرف سے پیدا کیے جانے والے زہریلے مواد کو پاک کرنے کی کوشش کر رہی تھی، تاکہ وہ آہستہ آہستہ جسم میں گھل جائے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ انجیکشن کے مقام پر زیادہ دیر تک رہے تاکہ اس کی وجہ سے ایک زیادہ پر اثر مدافعتی ردعمل پیدا ہو سکے۔
ایسا کرنے کے لیے گلینی نے ایلومنیم سالٹس کا استعمال کیا، جس ہر مبینہ طور پر ان کے شیلف پر رکھی چیزوں میں سے سب سے پہلے ان کی نظر پڑی۔ اس کے بعد جب انھوں نے گنی پگز کو اس نئے ویکسین کے انجیکشن لگائے تو غیر متوقع طور پر جن جانوروں کو ایلومینیم سالٹز والے ویکسین لگائے گئے تھے ان میں زیادہ مضبوط اور پراثر مدافعت پیدا ہوئی۔ اور اس کی وجہ خود ایلومینیم سالٹس تھے۔
آج تک ویکسینز میں ایلومینیم کو سالٹس کی ہی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں ایلومینیم ہائیڈرو آکسائیڈ (جو عام طور پر اینٹی ایسڈ میں پایا جاتا ہے)، ایلومینیم فاسفیٹ (جس کا استعمال ڈینٹل سیمنٹ میں ہوتا ہے) اور پوٹاسیم ایلومینیم سلفیٹ (جو کئی دفعہ بیکنگ پاوڈر میں پایا جاتا ہے) شامل ہیں۔
خود گلینی کا خیال تھا کہ ایلومینیم سالٹس ویکسین کے مرکزی جز کے ساتھ جڑ کر اسے آہستہ آہستہ انسان کے نظام مدافعت سے متعارف کراتے ہیں۔ جس سے ممکنہ طور پر نظام مدافعت کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے اور ایک بھرپور مدافعتی ردعمل سامنے آتا ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
ایک تھیوری یہ ہے کہ ایلومینیم سالٹس ان کے زہریلے پن کی وجہ سے ہی کام کرتے ہیں۔ ان کے ٹاکسنز کا شکار ہونے والے خلیے یورک ایسڈ بناتے ہیں جس سے کسی بھی طرح کے نقصان سے جڑا ایک قدرتی مدافعتی ردعمل شروع ہو جاتا ہے۔ مدافعتی خلیات اس جگہ پہنچتے ہیں اور اینٹی باڈیز بنانا شروع کرتے ہیں اور ایسے ویکسین پراثر بن جاتا ہے۔
کچھ دیگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دراصل ’نال پی 3‘ نامی ایک ریسیپٹر کا اس عمل میں مرکزی کردار ہے۔ سن 2008 میں ریچرڈ فلیویل کی سربراہی میں امریکہ کی ییل یونیورسیٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں ایسے چوہوں کو ایلومینیم سالٹس والی ویکسین دی گئی جن میں سے جینیاتی انجینئیرنگ کے ذریعے یہ ریسیپٹر نکال دیا گیا تھا۔ ان چوہوں میں ویکسین کے بعد مدافعت نہ ہونے کے برابر پائی گئی۔ تاہم جب انہیں ایک دوسرے ایڈجوونٹ۔ جو کہ منرل تیل سے بنا ایک املشن تھا۔ والا ویکسین دیا گیا تو وہ پراثر ثابت ہوا۔
اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عام چوہوں (اور انسانوں) میں ویکسینز میں موجود ایلومینیم “نال پی 3” کے ذریعے کام کرتا ہے، جس کا کام ایک خطرے کے سووچ کی طرح ہے جو مدافعتی نظام کو خبردار کرتا ہے۔ ایک بار مدافعتی نظام حرکت میں آجائے تو ان کی مدد سے ایک مضبوط ردعمل سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے ویکسین زیادہ پراثر بن جاتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مختلف طرح کے ایڈجوونٹس ہیں اور ان کے کام کرنے کے طریقے بھی مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر ہوتا یہی ہے کہ وہ مدافعتی نظام کی توجہ حاصل کرتے ہیں جس سے ایک مضبوط ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
سکوالین کو ہی لے لیں۔ یہ شارک مچھلی کے جگر سے بنا ایک تیل ہے جو کہ “ایم ایف 59” نامی ایڈجوونٹ کا اہم جز ہے۔ یہ پہلے ہی فلو ویکسین میں استعمال ہوتا ہے اور اب کووڈ 19 کے خلاف بننے والی ویکسینز میں بھی اسے استعمال کیے جانے کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔
کچھ سائینسدانوں کا خیال ہے کہ “ایم ایف 59” پاس کے خلیوں میں کیموکائینز (جو کہ سگنلنگ کیمیکلز ہوتے ہیں) کی پیداوار شروع کر دیتا ہے، جس سے دیگر خلیے بھی کیموکائینز پیدا کرتے ہیں۔ بالآخر اس عمل سے مدافعتی خلیے متوجہ ہوتے ہیں، اور وہ ویکسین کو جزب کر لیتے ہیں جس میں بیماری کے پہچان میں آنے والے حصے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پھر یہ مدافعتی خلیے اس سب کو لمف نوڈز تک پہنچاتے ہیں جو انفیکشن کی نشاندہی میں مدد کرتے ہیں۔
مستقبل کیسا ہوگا؟
بنگ بنگ سن کہتے ہیں، “ویکسین کی صنعت میں کام کرنے والے لوگ انتہائی محتاط ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ جب بھی کسی نئے ویکسین کے لیے ایڈجوونٹ ڈھونڈتے ہیں تو اکثر روایتی ایڈجوونٹس کا ہی استعمال کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتا ہے کہ وہ محفوظ اور پراثر ہیں۔”
تاہم اب سائینسدان یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ کیا وہ انیس سو بیس اور پچاس کی دہائیوں میں حادثاتی طور پر دریافت ہونے والے ان ایڈجوونٹس سے بہتر کچھ بنا سکتے ہیں؟ آخر یہ تب دریافت ہوئے تھے جب نہ ہی ڈی این اے کے بارے ہمارے پاس معلومات تھیں، نہ ہی کمپیوٹرز۔
ایسا کر پانا دراصل بہت اہم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں انفیکشن سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے انہی میں ویکسین کی وجہ سے پیدا ہونے والا مدافعتی ردعمل سب سے کمزور ہوتا ہے۔
سائنسدان اس طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف بننے والے ویکسینس میں بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کووڈ 19 کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کی جان کو کہیں زیادہ خطرہ ہے۔
عالمی سطح پر آبادی کی عمر بڑھتی جا رہی ہے، اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس طرح کے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ اسی لیے اگلی نسل کے ایڈجوونٹس نہایت ہی اہم ہیں جن کے ذریعے جدید ویکسینز کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔
ایسا ہی ایک ایڈجوونٹ فلیجیلن ہے۔ یہ ایک پروٹین ہے جو سالمونیلا جیسے بیکٹیریا میں پایا جاتا ہے۔ سالمونیلا اس کا استعمال اپنی دم میں کرتے ہیں، جسے فلیجیلا کہا جاتا ہے اور جس کا استعمال وہ خود کو ایک سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے کرتے ہیں۔ اسے بنانے کے لیے اکثر جراثیم کی دموں کو الگ کیا جاتا ہے۔ تاہم اب اسے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خلیوں میں اگایا بھی جانے لگا ہے۔
فلیجیلن کو ابھی تک انسانوں کے لیے بنائے جانے والے ویکسینز میں استعمال کا لائیسنس نہیں ملا ہے تاہم تجربوں میں اس کے کافی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
نام نہاد “بیکٹیرئیل بھوت” بھی ممکنہ ایڈجوونٹ ہو سکتے ہیں۔ یہ جراثیم کی خالی جلد سے بنے ہوتےہیں۔ انہیں بنانے کے لیے ای کولائی جیسے جراثیم کے خلیوں کو پھاڑ دیا جاتا ہے، جس کے بعد صرف خلیے کا ممبریں یا جلد بچتی ہے اور کچھ نہیں۔
بنگ بنگ سن کہتے ہیں، “ایڈجوونٹس کو بنانے کا کام بہت ہی سست رفتار اور تھکا دینے والا ہے۔ اس کے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے پراثر ہونے کو بھی یقینی بنانا پڑتا ہے اور اس سب میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایک روایتی ویکسین کے لیے اس عمل میں دس سے بارہ سال لگ جاتے ہیں۔”