ڈاؤن سنڈروم: ’اسقاطِ حمل نہ کروا کر میں نے اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘
دورانِ حمل ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہونے پر 90 فیصد خواتین اسقاطِ حمل کا انتخاب کرتی ہیں، جو پیدائش تک قانونی ہے۔ لیکن اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ متوقع والدین کو فرسودہ مشورے اور اسقاطِ حمل کی ترغیب دی جاتی ہے۔
بی بی سی نے تین ماؤں سے بات کی جو چاہتی ہیں کہ نظام بدلا جائے۔
’مدد صرف اس صورت میں موجود تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی‘
جیکسن بک ماسٹر ایک عام سا چھ سالہ لڑکا ہے۔ جسے تیراکی، کاریں، ڈایناسور، مکی ماؤس اور اپنے میوزیکل تھیٹر گروپ کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرنا پسند ہے۔
پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں’ایک چھوٹا سا مزاح نگار‘ کہا جاتا ہے جس سے مل کر کچھ حد تک ’شرارتی مزاح‘ کا احساس ہوتا ہے۔
جیکسن ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جیکسن میں ایک اضافی کروموزوم موجود ہے اور انھیں سیکھنے میں معذوری کا سامنا ہے۔
ان کی والدہ لورین کا کہنا ہے کہ ’جیکسن کو کسی کام کو مکمل کرنے زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن ہم اس چیز کو بہت زیادہ مناتے ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے یہ ایک کامیابی ہے۔‘
جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہے۔
اسی لیے لیے اب ملٹن کینس میں رہنے والی لورین سمجھ نہیں پا رہیں کہ جب وہ حاملہ تھیں تو دائیاں ان کی حالت کے متعلق اتنا منفی رویہ کیوں رکھتیں تھیں۔
ان کی عمر کی وجہ سے اضافی سکریننگ اور بلڈ ٹیسٹ کروانے پر رضامندی کے بعد انھیں پتہ چلا کہ جیکسن کو ڈاؤن سنڈروم ہوسکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’اس وقت میں 45 سال کی تھی اور میں جانتی تھی کہ خطرہ ہے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دائی نے کہا کہ ہمیں سکرین پر جیکسن کو دیکھنے کے لیے زیادہ وقت چاہیے لہذا ہم نے ایسا ہی کیا۔‘
سونوگرافر نے وضاحت کی کہ اگر بچے نے اس حالت کو ظاہر کیا تو اگلا قدم امونیوسنٹیسیس ہوگا، ایک ایسا ٹیسٹ جس میں اسقاط حمل کا تھوڑا سا امکان ہو سکتا ہے۔
’میں نے کہا نہیں، ہمیں اس میں دلچسپی نہیں ہوگی، کیونکہ ہم نے پچھلے سال ایک بچہ کھو دیا تھا۔ وہ بہت غصے میں تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسی عورتیں مجھے پسند نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتیں تو سکریننگ کرنے کی زحمت کیوں کی؟‘
بعد میں ایک دایہ نے فون کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت افسوس ہے‘ لیکن ان کے پاس ’واقعی بری خبر‘ تھی۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بچے میں ڈاؤن سنڈروم ہونے کا پانچ میں سے ایک امکان موجود ہے۔
لورین اور اس کے شوہر مارک نے مزید جانچ کرانے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے بچے کو دنیا میں لانا چاہتے تھے، چاہے وہ جیسا بھی ہو۔
لورین کا مزید کہنا ہے کہ ’مدد صرف اسی صورت میں میسر تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی، لیکن جب میں نے کہا کہ میں جیکسن کو جنم دینا چاہتی ہوں تو ان کو کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔‘
جیکسن کی پیدائش کے وقت ہی اس میں ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہو گئی تھی اور لورین کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دوسرے بچے جیکسن سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس بات پر آپس میں لڑتے ہیں کہ بڑے ہونے پر ان میں سے جیکسن کی دیکھ بھال کون کرے گا۔
وہ کہتی ہیں ’میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی ہو اور وہ نوکری کرے اور اس کا نارمل مستقبل ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اسے ہمیشہ مدد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں واقعتاً یقین ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے گا۔ وہ ایک شو مین اور ایک بہترین انٹرٹینر ہے اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سٹیج تک پہنچے گا۔‘
’38ویں ہفتے میں مجھے بتایا گیا کہ میں اب بھی اسقاطِ حمل کروا سکتی ہوں‘
پورے نو ماہ کے حمل کے دوران ایما میلر نے اپنی بیٹی جیمی کا اسقاطِ حمل کروانے کا دباؤ محسوس کیا۔ اس وقت 24 سال کی عمر میں ان کا اپنے شوہر سٹیو سے پہلے ہی ایک جوان بیٹا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’پوری ایمانداری کے ساتھ بتاؤں تو ہمیں 15 مرتبہ اسقاطِ حمل کا مشورہ دیا گیا، اگرچہ ہم نے یہ واضح کردیا تھا کہ ہمارے لیے یہ کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن وہ دباؤ ڈالتے رہے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے تھے کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں۔‘
20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہے۔
’اسی لمحے انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں اور ہمیں کہا گیا کہ سوچیں آپ کے بیٹے اور اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘
ان کا بیٹا لوگن اس وقت سرجری کروانے کے لیے منتظر مریضوں کی فہرست میں تھا۔ لوگن دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
ایما کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ اپنے بیٹے کے ٹھیک ہونے کے منتظر تھے، اپنی بیٹی کی دھڑکن کو روکنے کے لیے دل میں انجیکشن لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں (یہ 22 ہفتے ختم ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کا تجویز کردہ طریقہ ہے)۔
’اس چیز نے ہمیں درست فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ ہم نے بچی کو جنم دینے کا سوچا اور اچھے کی امید رکھی۔‘
32ویں ہفتے میں ایک ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ ان کی بیٹی کو ڈاؤن سنڈروم ہے اور ڈاکٹروں نے کئی بار ایما کو یاد دلایا کہ پیدائش تک قانونی طور پر اسقاط حمل کیا جاسکتا ہے۔
’38ویں ہفتے میں ڈاکٹروں نے واضح کر دیا کہ اگر کسی دن صبح اٹھنے پر میرا ارادہ بدل جائے تو میں انھیں بتاؤں کیونکہ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔‘
’مجھے بتایا گیا کہ جب تک میری بچی نے برتھ کینل کی جانب سفر شروع نہیں کیا، تب تک میں اسقاطِ حمل کروا سکتی ہوں۔‘
جب جیمی پیدا ہوئی تو ایما کو بتایا گیا کہ اسے ڈاؤن سنڈروم ہے لیکن باقی وہ ہر طرح سے صحت مند ہے۔
آج پانچ سال بعد جیمی اپنے بھائی کی بہترین دوست ہیں، ایک عام سکول میں جاتی ہیں جہاں وہ دیگر کچھ بچوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
انھیں ڈانس کا شوق ہے۔ انھیں ’ہر بچے کی طرح‘ کچھ مشکلات کا سامنا ہے مگر جب وہ کسی کمرے میں داخل ہوتی ہیں تو اس کی آمد سے کمرہ کھل اٹھتا ہے اور لوگ ان کی کشش کو محسوس کرتے ہیں۔
’جب ہمیں اس مرض کا پتا چلا تو ہمیں اس کے مستقبل کے بارے میں پریشانی ہوئی۔ جیسے جیسے وہ بڑی ہو گی اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر وہ ہر بار یہی ثابت کرتی ہے کہ اسے کم تر نہیں تصور کیا جانا چاہیے۔‘
’جیمی جس چیز کی ٹھان لیتی ہے، کر سکتی ہے۔‘
’میں نے خود سے یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ اگر اسے ڈاؤن سنڈروم ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟‘
سولہ سال قبل نکولا اینوغ کو یقین تھا کہ انھیں ڈاؤن سنڈروم والا بچہ نہیں چاہیے۔ 39 سال کی عمر میں حاملہ ہونے پر انھیں معلوم پڑا کہ ان کے کیس میں اس کا امکان زیادہ ہے۔
مگر آخری موقعے پر انھوں نے اسقاطِ حمل کا ارادہ ترک کر دیا۔ پہلے ہی چار مرتبہ ان کے حمل ضائع ہو چکے تھے۔
ڈاون سنڈروم:
- 700 سے 1000 پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک کو ڈاؤن سنڈروم ہوتا ہے
- ان بچوں میں ایک اضافی کروموزوم ہوتا ہے اور ان میں ذہنی صلاحیت کم ہوتی ہے
- برطانیہ میں تقریباً 40000 افراد میں یہ صورتحال پائی جاتی ہے
- ان میں سے تقریباً نصف کے دل میں مسائل پائے جاتے ہیں مگر تقریباً 10 سے 15 فیصد کو اس حوالے سے طبعی مدد کی ضرورت پڑتی ہے
- ایسے افراد میں 1960 کی دہائی میں اوسط عمر کی توقع 15 سال تک تھی مگر اب یہ بڑھ کر 50 سے 60 ہو گئی ہے
جب ٹام پیدا ہوا تو نکولا انتہائی خوش تھیں۔ مگر اگلے ہی دن ڈاکٹر نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں ان کا بچہ ٹھیک دکھتا ہے؟
ٹام میں ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہوئی اور نکولا کی دنیا جیسے بکھر گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس حوالے سے کوئی مدد نہیں دی گئی۔ میں انتہائی بے بس اور تنہا محسوس کر رہی تھی۔ میرا پیارا بچہ کہیں چلا گیا تھا اور ایک ان جان چیز میرے سامنے تھی۔‘ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ بچہ کبھی ٹریمپولین جیسی چیزوں پر نہیں جا سکے گا۔
نکولا اپنے بچے سے دوری محسوس کرنے لگیں اور انھوں نے سوچا کہ اسے گود لینے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
’مجھے جس پچے کی امید تھی اور جس کی توقع تھی میں اس کے چلے جانے کا غم محسوس کر رہی تھی۔ میں نے یہاں تک سوچا کہ شاید ہم سب کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ ٹام زندہ نہ بچے۔‘
نکولا کا ممتا کا رشتہ کٹ چکا تھا اور انھیں اپنے بچے سے دوبارہ محبت ہونے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔
‘میں نے خود سے یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ اگر اسے ڈاؤن سنڈروم ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟’
آج ٹام سولا سال کا ہے۔ وہ ایک روایتی سکول میں پڑھتا ہے۔ نکولا کہتی ہیں کہ ’اسقاطِ حمل نہ کروا کر میں نے اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘۔
’مجھے خوف آتا ہے کہ میں ایسا سوچ رہی تھی۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ اس کا ہماری زندگی پر منفی اثر پڑے گا۔ مگر یہ ہماری زندگیوں میں بہار لے آیا اور بے شک ہم اس کے ہونے کی وجہ سے بہتر لوگ ہیں۔‘
نکولا اب ایک فلاحی تنظیم چلاتی ہیں جس کا نام اپس اینڈ ڈاؤنز ہے جو کہ 70 فیملیوں کی مدد کرتی ہے اور ان کی ویب سائٹ کا نام ہے پازیٹیو اباؤٹ سنڈروم۔
انھوں نے اس حوالے سے متعدد کتابیں بھی چھاپی ہیں اور این ایچ ایس سٹاف کو تربیت بھی دی ہے۔
والدین کو کیا مشورے دیے جاتے ہیں؟
این ایچ ایس کی ویب سائٹ کا کہنا ہے ڈاؤن سنڈروم والے حمل کو جاری رکھنا ایک مشکل فیصلہ ہے۔
یہاں خواتین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ طبی عملے، خاندان، اپنے دوستوں، سبھی سے اس سلسلے میں بات کریں اور ایسے لوگوں سے مشورہ لیں جو کہ ایسی ہی صورتحال سے دوچار رہے ہیں۔
ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ خواتین کو اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں وقت لگانا چاہیے اور کسی بھی فیصلے کی صورت میں این ایچ ایس ان کی مدد کرے گا۔