کھیل

امپائر علیم ڈار کا ایک اور عالمی ریکارڈ: پولیس افسر کا بیٹا کرکٹ قوانین پر مامور

Share

پاکستانی کرکٹ امپائر علیم ڈار یکم نومبر یعنی آج پاکستان اور زمبابوے کے درمیان راولپنڈی میں دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں امپائرنگ کے لیے میدان میں اترے تو یہ ان کا 210 واں ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ اس طرح انھوں نے جنوبی افریقہ کے روڈی کرٹزن کے209 میچوں کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا ہے۔

دو عالمی ریکارڈز اور تیسرے پر نظر

علیم ڈار سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کا اعزاز پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں۔ ابتک وہ 132 ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کرچکے ہیں۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے اسٹیو بکنر کا تھا جنہوں نے 128 ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کی تھی۔

ان دو عالمی ریکارڈز کے بعد علیم ڈار کی نظریں سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کے عالمی ریکارڈ پر بھی مرکوز ہیں۔

سب سے زیادہ 49 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کا اعزاز اس وقت پاکستان کے احسن رضا کو حاصل ہے جبکہ علیم ڈار ابتک 46 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کرچکے ہیں۔

پاکستان اور زمبابوے کے درمیان ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں علیم ڈار کو پہلے اور تیسرے میچ میں امپائر مقرر کیا گیا ہے اس طرح ان کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی تعداد 48 ہوجائے گی تاہم ان کے اور احسن رضا کے درمیان سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کا دلچسپ مقابلہ جاری رہے گا کیونکہ احسن رضا سیریز کے دو میچوں میں امپائرنگ کریں گے اور وہ علیم ڈار سے آگے ہی رہیں گے۔

احسن رضا کے لیے 8 نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والا سیریز کا دوسرا میچ اس لیے یادگار ہوگا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی نصف سنچری مکمل کرنے والے دنیا کے پہلے امپائر بن جائیں گے۔ سیریز کے اختتام پر احسن رضا کے ٹی ٹوئنٹی میچوں کی تعداد 51 ہوجائے گی۔

علیم ڈار

والد اور بیٹے کی قوانین دوستی

علیم ڈار اور ان کے والد میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں نےقوانین کی پاسداری اور ان پر عمل درآمد کو اپنا مقصد بنایا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ والد پولیس افسر کی حیثیت سے ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بناتے رہے جبکہ علیم ڈار کرکٹ قوانین کی پابندی کرانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔

علیم ڈار کے والد ڈپٹی سپرٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں اپنے بیٹے پر بڑا ناز تھا اور وہ ان کے امپائرنگ کے فیصلوں میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھےاور ان فیصلوں پر دونوں کے درمیان گفتگو بھی ہوتی تھی۔

والد کی دیرینہ خواہش تھی کہ علیم ڈار آئی سی سی کے بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کریں اور وہ ہر سال یہ امید لگائے ہوتے تھے کہ اس بار یہ ایوارڈ علیم ڈار کو ملے گا لیکن اسی انتظار میں تین سال گزرگئے اور جب علیم ڈار نے سنہ 2009 میں پہلی بار بہترین امپائر کا آئی سی سی ایوارڈ جیتا تو ان کے والد اس دنیا میں موجود نہ تھے۔

علیم ڈار کے لیے وہ لمحہ بہت کٹھن تھا جب وہ آئی سی سی ایوارڈ ملنے کے بعد ایئر پورٹ سے سیدھے اپنے والد کی قبر پر گئے اور اس پر ایوارڈ کی ٹرافی رکھ دی اور کافی دیر تک روتے رہے۔

فیصلوں کے اعتبار سے بہترین ٹیسٹ

علیم ڈار کے بین الاقوامی کریئر میں یوں تو کئی اہم میچز ہیں جن میں ان کے درست فیصلوں کو یاد رکھا جاتا ہے لیکن 2009ء کی ایشیز سیریز کا کارڈف ٹیسٹ علیم ڈار کے لیے یادگار رہا تھا جس میں ان کے درست فیصلوں کو سب نے سراہا تھا۔ یہ وہی ٹیسٹ میچ ہے جس میں جیمز اینڈرسن اور مونٹی پنیسر نے گیارہ اعشاریہ تین اوورز کھیل کر انگلینڈ کو شکست سے بچالیا تھا۔ اس میچ کے آخری لمحات علیم ڈار کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہ تھے جس میں وہ سرخرو رہے تھے۔

علیم ڈار کے درست فیصلوں کی لمبی فہرست میں سچن تندولکر کو مونٹی پنیسر کی گیند پر ایل بی ڈبلیو دیے جانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ مونٹی پنیسر کی اپنے پہلے ٹیسٹ میں پہلی وکٹ بھی تھی۔

علیم ڈار کی درست فیصلے دینے کی صلاحیت کا ایک ثبوت 2011 کا عالمی کپ بھی ہے جس میں ان کے 15 فیصلوں پر ریویو لیے گئے تھے اور ٹیکنالوجی نے تمام کے تمام 15 فیصلے درست ثابت کیے تھے۔ اس ورلڈ کپ میں وہ واحد امپائر تھے جن کا کوئی بھی فیصلہ ڈی آر ایس میں غلط ثابت نہ ہوا۔

علیم ڈار کو متعدد مرتبہ اپنے فیصلوں پر کپتانوں کے جارحانہ رویوں کا بھی سامنا رہا جیسا کہ 2010 کی ایشیز سیریز کے میلبرن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ ان کے ساتھ نامناسب انداز اختیار کیے ہوئے تھے لیکن بعد میں انہیں اپنے رویے پر معافی مانگنی پڑی تھی اور یہ کہنا پڑا تھا کہ وہ علیم ڈار کا احترام کرتے ہیں اور ان کی بحث علیم ڈار سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے تھی۔

علیم ڈار
،تصویر کا کیپشنعلیم ڈار کئی مرتبہ بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں

ایک کامیاب کرکٹر کی طرح کامیاب امپائر کے لیے بھی یہی پیمانہ مقرر ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کتنا مضبوط ہے اور اس کی نگاہ درست فیصلہ کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے علیم ڈار اپنے پورے کریئر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔

ان کے ساتھی امپائرز ان کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے ساتھ میدان میں موجود کرکٹرز بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ علیم ڈار کے فیصلوں کو سوچ سمجھ کر ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے بہت کم فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں اور وہ امپائرنگ کا ایک خاص معیار مقرر کرچکے ہیں۔

علیم ڈار نے اپنی امپائرنگ کے بارے میں بہت ہی سادہ اصول اپنا رکھا ہے کہ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے لیکن اگر کوئی فیصلہ تبدیل ہو جائے تو اسے اپنے ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے آپ کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور آپ ایک اور غلطی سرزد کربیٹھتے ہیں۔