آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی پولیس کا کہنا ہے کہ شہر میں مختلف مقامات پر مسلح افراد کی فائرنگ کے واقعات میں تین افراد کی ہلاکت کے بعد کم از کم ایک حملہ آور کی تلاش کا عمل جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ رائفلوں سے لیس متعدد حملہ آوروں نے شہر کے وسطی علاقے میں چھ مقامات پر حملہ کیا۔
ویانا کے میئر مائیکل لدویگ کے مطابق ایک شہری کی ہلاکت فائرنگ کے مقام کے قریب ہوئی جبکہ ایک خاتون سمیت دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہلاک ہوئے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق پیر کی شام پیش آنے والے فائرنگ کے ان واقعات میں ایک درجن سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے جبکہ پولیس نے ایک حملہ آور کو ہلاک بھی کیا ہے۔
آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے اس حملے کو ’قابلِ مذمت‘ قرار دیا ہے جبکہ وزیرِ داخلہ کارل نیہامر کا کہنا ہے کہ جس حملہ آور کو پولیس نے ہلاک کیا وہ ’اسلام پسند دہشت گرد‘ تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہم اپنی جمہوریہ میں مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں۔ ہماری پولیس اس قابلِ مذمت دہشتگرد حملے کے منصوبہ سازوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کرے گی۔’
انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ہم کبھی بھی دہشتگردی سے گھبرائیں گے نہیں، اور اس حملے کا اپنے تمام وسائل سے مقابلہ کریں گے۔’
واقعے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کے وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ہلاک کیا جانے والا حملہ آور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا حامی تھا جس کی رہائش گاہ کی تلاشی کے دوران ویڈیو مواد قبضے میں لیا گیا ہے۔
اس سے قبل وزیرِ داخلہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک ’مسلح اور خطرناک‘ حملہ آور مفرور ہے۔ انھوں نے ویانا کے شہریوں سے شہر کے وسطی علاقے میں نہ جانے اور والدین سے منگل کو بچوں کو سکول نہ بھیجنے کی اپیل بھی کی تھی۔
ہم اب تک اس حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
یہ واقعہ شہر کے مرکزی شویڈینپلاٹس سکوائر کے قریب پیش آیا ہے۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس علاقے سے دور رہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال نہ کریں۔
فائرنگ کا یہ واقعہ ایک یہودی عبادت گاہ کے قریب پیش آیا ہے۔
یہودی برادری کے مقامی رہنما نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ حملے کا نشانہ عبادت گاہ تھی۔ حملے کے وقت عبادت گاہ بند تھی۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق عبادت گاہ کی حفاظت پر مامور سکیورٹی گارڈ اس حملے میں زخمی ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ بھاگ رہے ہیں جبکہ پس منظر میں مبینہ طور پر گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک عینی شاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے او آر ایف کو بتایا کہ ‘ہمیں لگا کہ یہ پٹاخے ہیں مگر بعد میں احساس ہوا کہ یہ گولیاں ہیں۔’
پڑوسی ملک جمہوریہ چیک نے کہا کہ وہ احتیاطی اقدام کے طور پر دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر مسافروں اور گاڑیوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔
اب تک اس حملے پر کیا ردِ عمل آیا ہے؟
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یورپ کو حملوں سے ‘ہمت نہیں ہارنی’ چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم فرانسیسی لوگ آسٹریائی لوگوں کے صدمے اور دکھ میں شریک ہیں جنھیں ان کے دارالحکومت ویانا کے دل میں اس شام ہونے والے حملے سے دھچکا لگا ہے۔ فرانس کے بعد ہمارے ایک دوست پر حملہ ہوا ہے۔ یہ یورپ ہے۔ ہمارے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کا سامنا کس سے ہے۔’
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے فرانس کے شہر نیس کے ایک گرجا گھر میں چاقو کے حملے میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ویانا کے لوگوں کے لیے ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ویانا میں آج ہونے والے حملوں سے نہایت صدمے’ کے شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ برطانیہ آسٹریا کے لوگوں کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف متحد ہے۔
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے اسے بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جان اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔
یہ ابتدائی خبر ہے اور اسے مزید مصدقہ اطلاعات موصول ہونے پر اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔