زیادہ پرانی بات نہیں، بس اسی سال اپریل میں ہی ایک دن خبر آئی تھی کہ فردوس عاشق اعوان کو پاکستانی وزیرِ اعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
اب اپنے ہٹائے جانے کی خبر فردوس عاشق اعوان کو پہلے سے معلوم تھی یا نہیں، لیکن اس پر انھوں نے بڑے نپے تلے انداز میں ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو وزیرِ اعظم عمران خان کی صوابدید ہے کہ ‘کس کھلاڑی کو کونسے بیٹنگ آرڈر یا کونسی فیلڈ پوزیشن پر کھلانا ہے۔’
اب کئی ماہ تک سیاسی منظرنامے سے غائب رہنے کے بعد فردوس عاشق اعوان کی حکومت میں واپسی ہوئی ہے، اس مرتبہ وفاق میں نہیں بلکہ پنجاب میں۔ اور ان کے لیے جگہ بنائی گئی وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر۔
پیر کو حکومتِ پنجاب نے فردوس عاشق اعوان کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جس کے مطابق انھیں محکمہ اطلاعات کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے ہٹائے جانے پر فیاض الحسن چوہان ویسا ردِعمل نہیں دے سکے جتنا کہ فردوس عاشق اعوان کا اپنے ہٹائے جانے پر تھا۔
پیر کی شام جب صحافیوں نے اُن سے پوچھا کہ اُنھیں ہٹائے جانے کی خبریں گرم ہیں اور وہ اس پر کیا تبصرہ کرنا چاہیں گے، تو اُن کا کہنا تھا کہ انھیں تو اس بارے میں معلوم ہی کچھ نہیں۔
اور اس موقع پر وہ کافی حیران دکھائی دیے۔
صحافی عنبر رحیم شمسی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ ‘بزدار’ نے چوہان پر شب خون مارا۔
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پنجاب کی کابینہ میں تازہ ترین تبدیلی پر طرح طرح کے تبصرے ہوتے رہے۔
صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے کہا کہ جب فردوس عاشق اعوان کو وزیرِ اعظم کی مشیر برائے اطلاعات کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا تو حکومت نے اُن کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کیے تھے، اس کے بعد کچھ نہیں ہوا اور اب وہ پنجاب میں ایک طاقتور عہدے پر واپس آ گئی ہیں۔
کئی صارفین کو فیاض الحسن چوہان کے ہٹائے جانے سے زیادہ فردوس عاشق اعوان کے واپس آنے پر زیادہ حیرانی ہوئی۔
ایک صارف عمر فاروق نے لکھا کہ ایک وقفے کے بعد فردوس عاشق اعوان دوبارہ حکومت میں واپس آ گئی ہیں، کیا بولر کی یہ ڈیلیوری قانونی ہے؟ انھوں نے مزید لکھا کہ قلمدانوں کی تبدیلی کے اس کھیل کے بعد حکومت کے پاس غریب عوام کے لیے کیا ریلیف ہے؟
ایک صارف نے فیاض الحسن چوہان کی جانب سے اپنی برطرفی کی خبر پر حیرانی کے اظہار کو میر تقی میر کے الفاظ میں بیان کیا کہ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔
صحافی ضرار کھوڑو نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کم از کم بندے کو برطرف کرتے ہوئے بتا ہی دیا جاتا ہے۔
صارف عنایہ خان نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اُن کی جماعت نے رواں سال کے آغاز میں ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے تھے اور رواں سال انھیں پنجاب میں وزیرِ اطلاعات تعینات کر دیا گیا ہے۔
اور ان تمام تبصروں اور قیاس آرائیوں کے دوران فردوس عاشق اعوان نے اسی نپے تلے انداز میں اپنی نئی تعیناتی پر ٹویٹ کی جس طرح انھوں نے تقریباً نصف سال پہلے اپنے ہٹائے جانے پر کی تھی۔
فردوس عاشق اعوان نے لکھا کہ وہ نہایت عاجزی کے ساتھ اس انتہائی بڑی ذمہ داری کو قبول کرتی ہیں۔ ‘اگر خدا نے چاہا تو میں حکومتِ پنجاب میں اطلاعات کا منظرنامہ تبدیل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔’
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان پہلے وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات تھیں۔ حکومت نے ان کی جگہ شبلی فراز کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جبکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا تھا۔
سابق جنرل نے بعد میں نجی مصروفیات کو وجہ بتا کر استعفیٰ دے دیا تھا۔
بی بی سی کو حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ ایک سال کے عرصے تک اس عہدے پر رہنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کا نظریاتی دھڑا فردوس عاشق اعوان کی بطور حکومتی ترجمان تعیناتی پر خوش نہیں تھا جس کا اظہار اُنھوں نے متعدد بار وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی کیا تھا۔
عہدے سے ہٹائے جانے کے نتیجے میں چلنے والی خبروں پر انھوں نے کہا تھا کہ ‘وزارت سے ہٹائے جانے کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی من گھڑت خبروں میں لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہوں۔ سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرا نصب العین ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح ہے جو وزیراعظم کی قیادت میں جاری رکھا جائے گا۔’