امریکہ میں خانہ جنگی جیسے بحران کا امکان؟
1986ء میں ایشیاء ،افریقہ اور لاطینی امریکہ سے ایک طویل عمل کے ذریعے چنے چند صحافیوں کے ہمراہ امریکہ میں چھ ماہ گزارے تھے۔ امریکی اخبارات کے مدیروں کی تنظیم نے ہمارے لئے ایک پروگرام کا اہتمام کیا۔مشہور زمانہ فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی کی نگہبانی میں تیار ہوئے اس پروگرام کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ دُنیا امریکہ کے بارے میں کیا جانتی اور محسوس کرتی ہے اور امریکی دیگر ممالک کے بارے میں کتنے باخبر ہیں۔
بہت محنت اور مہارت سے تیار ہوئے اس پروگرام کی بدولت میں اس زعم میں مبتلا ہوگیا کہ امریکی سیاست،طرزحکومت اور عالمی امور کی بابت واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں مجھ سے بہتر ’’ماہر‘‘ کم از کم پاکستان میں موجود نہیں۔ 2016کے صدارتی انتخاب کے لئے چلائی مہم نے مگر اس ضمن میں ’’کوتاہی فن‘‘ عیاں کردی۔ 2016کے ا نتخاب کے نتائج آنے سے چند دن قبل مگر تھوڑا اعتماد بحال ہوگیا۔ ڈھٹائی سے میں یہ اعلان کرناشروع ہوگیا کہ ’’اپنا لہوری‘‘ دِکھتا ٹرمپ انتخاب جیت کر امریکہ ہی نہیں دُنیا بھرمیں اس ملک کے بارے میں ’’ماہر‘‘ کہلاتے افراد کو حیران کردے گا۔ نومبر 2020کے پہلے منگل کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے لیکن میں یہ طے کرنے کی سکت سے قطعاََ محروم ہوں کہ ٹرمپ یا بائیڈن میں سے کون کامیاب رہے گا۔ رائے عامہ کے سروے اگرچہ ٹرمپ کی شکست کو یقینی دکھارہے ہیں۔دیگر معاملات کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے فقط کرونا کی وجہ سے امریکہ پر نازل ہوئی ویرانی اور بے بسی کو ذہن میں رکھا جائے تو رائے عامہ کے سروے درست محسوس ہوتے ہیں۔دُنیا کی واحد سپرطاقت ہونے کا دعوے دار ملک کرونا وائرس کے ہاتھوں یقینا ڈھیر ہوگیا ہے۔یہ وباء چین میں نمودار ہوئی تھی۔اس سے نبردآزما ہونے کے لئے چین نے جوحکمت عملی اختیار کی اسے ’’شہری آزادیوں‘‘ کے مامے بنے امریکہ اور یورپی ممالک نے ’’سفاکانہ‘‘ قرار دیا۔اس کی بدولت چین کونسل پرستانہ رعونت وتضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ یہ وباء مگر امریکہ پہنچی تو وہاں کا نظام اس کا ہرگز مقابلہ نہ کرپایا۔صحت عامہ کو یقینی بنانے والا امریکی انتظام بلکہ دنیا کے پسماندہ ممالک کے مقابلے میں بھی ناکارہ ثابت ہوا۔ کرونانے ا میر اور غریب کے مابین تقسیم کوناقابلِ برداشت سفاکی سمیت بے نقاب کردیا۔ٹرمپ کا ذاتی رویہ بھی اس تناظر میں قطعاََ غیرذمہ دارانہ رہا۔ بذاتِ خودکرونا کی زد میں آنے کے باوجود وہ اسے ’’عام فلو‘‘ ہی شمار کرتا رہا۔ وباء سے محفوظ رہنے کی خاطر ماسک کے استعمال اور سماجی دوری کی اہمیت کا بھی وہ بے دریغ انداز میں مذاق اُڑاتا رہا۔امریکی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت مصر ہے کہ نومبر2020کا انتخاب یک نکاتی سوال پر ریفرنڈم کی مانند ہوگا۔اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے امریکی یہ فیصلہ کریں گے کہ ٹرمپ انتظامیہ کرونا کا کماحقہ مقابلہ کرنے میں کامیاب رہی یا ناکام۔ اندھی نفرت وعقید ت میں پریشان کن حد تک تقسیم ہوئے امریکہ میں تاہم کئی حوالوں سے ’’فطری اور بنیادی‘‘ محسوس ہوتے سوالات اب اٹھائے ہی نہیں جاتے۔تعصبات کی شدت نے ’’معروضی حقائق‘‘ دیکھنے کی قوت چھین لی ہے۔یہ حقیقت بھی اگرچہ تسلیم کرنا ہوگی کہ صاحبِ دل افراد کی بے پناہ تعداد نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ بہت خلوص اور لگن سے ٹرمپ کی بدولت آشکار ہوئے تعصبات سے مقابلے کے لئے Counter Narrativeمرتب ہوا ہے۔اسے عوام تک پہنچانے کے لئے حقیقی معنوں میں Grassrootsسیاسی عمل اختیار ہوا۔اس عمل کی بدولت ہی رائے دہندگان کی ایک ریکارڈ ساز تعداد نے 2نومبر سے قبل ہی اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والی سہولت کو متاثر کن انداز میں استعمال کیا ہے۔ٹرمپ کے مخالفین کو گماں ہے کہ مقررہ وقت سے قبل ڈالے ووٹوں کی ریکارڈ ساز تعداد عندیہ دے رہی ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت اس سے نجات کی خواہاں ہے۔مقررہ دن سے قبل ووٹ ڈال کر اس امر کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ اس کی شکست کے بارے میں کسی مغالطے کی گنجائش نہ رہے۔ وہ ’’دھاندلی‘‘ کی کہانی نہ بن سکے۔ ووٹوں کی گنتی کا اعلان ہوتے ہی اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرلے۔امریکی معاشرے پر مسلط ہوئی اندھی نفرت وعقیدت کی حدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس سوچ کو تسلیم کرنے سے گھبرارہا ہوں۔ٹرمپ محض ایک فرد نہیں ہے۔ 2016میں اس کی کامیابی کا بنیادی سبب یہ رہا کہ اس نے سفید فام اکثریت کے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کو ڈھٹائی سے اپنا لیا تھا۔ امریکی اشرافیہ کو اس نے ’’منافق‘‘ پکارا۔اس امر کی دہائی مچائی کہ امریکی عوام کی بنیادی ضرورتوں اور ترجیحات کو رعونت سے نظرانداز کرتے واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز ’’عالمی (Global)‘‘ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں نئے کاروبار متعارف کروانے کے بجائے چین جیسے ممالک کی ’’سستی لیبر‘‘ پر انحصار کی جانب راغب کیا۔چین اس کی بدولت معاشی اعتبار سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اس کا توڑسوچنے کے بجائے واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی سازوں نے افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں اپنی ترجیحات کا نظام لاگو کرنے میں اربوںڈالر جھونک دئیے۔ ’’لاحاصل جنگوں‘‘ میں بے پناہ وسائل ضائع کرنے کے بجائے امریکی اشرافیہ کواب America Firstکی سوچ اختیار کرنا ہوگی۔ٹرمپ نے 2020کا صدارتی انتخاب بھی جیت لیا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ کوئی ’’وکھری‘‘ نوعیت کا محض ایک فرد نہیں۔اس کی سوچ اور رویہ Aberrationیا اچانک نمودار ہوا ’’حادثہ‘‘ نہیں بلکہ امریکی سفید فام کی اکثریت کی سوچ اور رویے کا حقیقی نمائندہ ہے۔ دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ اس سوچ اور رویے کی مزید ڈھٹائی سے عمل پیرائی کو یقینی بنائے گا۔امریکی آئین کے مطابق وائٹ ہائو س میں یہ اس کی آخری ٹرم ہوگی۔ اس ٹرم کے دوران وہ نام نہاد رائے عامہ کو یکسر نظرانداز کرنے میں تھوڑی جھجھک بھی نہیں برتے گا۔ٹرمپ کی جیت دنیا کو یہ پیغام بھی دے گی کہ نام نہاد جمہوری نظام دورِ حاضر کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے قابل نہیں رہا۔ عوامی مسائل حل کرنے اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے غالباََ چین میں جاری یک جماعتی نظام ’’آمرانہ‘‘رویوں کے باوجود اس سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہورہا ہے۔ مودی کی اختیار کردہ ہندوانتہاپسندی کو اس کی بدولت ٹھوس جوازفراہم ہوجائے گا۔خلافتِ عثمانیہ کی عظمت کو بحال کرنے کے خواب دکھاتا سلطان اردوان بھی مزید طاقت ور ہوجائے گا۔ٹرمپ کی جیت یہ پیغام بھی دے گی کہ امریکہ اب دنیا میں جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کرنے والا ’’ہیڈماسٹر‘‘ نہیں رہا۔پاکستان جیسے ممالک میں اگرچہ یہ ملک ہمیشہ فوجی آمروں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ ایران اور چلی میں بھی امریکہ ہی نے جمہوری روایات کو پنپنے نہیں دیا تھا۔ ان حقائق کے باوجود مگر یہ ’’بھرم‘‘ اب تک قائم ہے کہ امریکہ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کے تحفظ اور فروغ پر مامور ہے۔کئی ممالک میں جمہوری نظام محض اس کے خوف سے کسی نہ کسی حد تک برقرار ہے۔نومبر2020کے صدارتی انتخاب میں ہار یا جیت کا واضح انداز میں فیصلہ نہ ہوا تو امریکہ میں خانہ جنگی جیسا بحران ہر صورت نمودار ہوگا۔ اپنے ملک میں ابھرے بحران کے روبرو بے بس ہوئی امریکی اشرافیہ عالمی معیشت کی نگہبانی کے قابل بھی نہیں رہے گی۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں خلفشار وانتشار کی ہزاروں صورتیں نمودارہوںگی۔آپا دھاپی کا یہ ماحول علاقائی جنگوں کو بھی یقینی بنائے گا۔ افغانستان اور بھارت کے ہمسائے میں موجود پاکستان کو ایسے امکانات کے حوالے سے بھرپورانداز میں چوکنا رہنا ہوگا۔