جسٹس عیسیٰ کو ‘سیکیورٹی خطرے‘ کے طور پر کیوں دیکھا جاتا ہے، سرینا عیسیٰ کا صدر سے سوال
اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیسے ایک جج کو سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاسکتا ہے یہاں تک کہ وہ ‘اپنے ذاتی تحفظ سے متعلق خدشات کو بھی ایک طرف رکھ کردہشت گردی کے خلاف پرعزم رہتا ہے’۔
رپورٹ کے مطابق 3 صفحات پر مشتمل خط میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیوں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ سال ہوئے قتل عام پر 2017 کے کوئٹہ کمیشن رپورٹ کی تجاویز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے لکھا کہ اس روز 70 سے زائد لوگوں جن میں زیادہ تر وکلا تھے انہیں قتل کردیا گیا لیکن یہ جرم اس وقت تک غیر حل شدہ رہا جب تک سپریم کورٹ کے جج نے اس پر کمیشن نہیں بنایا۔
انہوں نے کراچی میں 12 مئی 2017 کے واقعہ کو بھی یاد کیا جس میں ایک سیاسی جماعت نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ایئرپورٹ سے نکلنے سے روکنے کی کوشش کی تھی اور کراچی میں تباہی ہوئی تھی جس میں 50 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
سرینا عیسیٰ نے لکھا کہ ‘نومبر 2017 میں ایک شدت پسند گروپ نے فیض آباد کے مقابپر دھرنا دے کر راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے سڑک کو بند کیا اور پولیس اہلکاروں کو مارا پیٹا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا’۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں ان کے شوہر جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے دی گئی تجاویز پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا گیا جبکہ ‘غیر ملکی حکومتوں کے احکامات بغیر کسی سرسراہٹ کے قبول کرلیے جاتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ہمارے مفاد میں نہیں کہ اپنی حفاظت کے لیے ہم اس سے زیادہ کریں جو دوسروں نے ہمیں کرنے کا کہا ہے، کیا صدر ایمانداری سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد ہوتا تو پشاور میں مارے گئے بچے زندہ نہ ہوتے؟۔
خط میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ‘کیا ہمیشہ کے لیے ایک صدمے سے دوچار رہنے والے بچ جانے والے (لوگ) صرف تصویر کے مواقع کے لیے اچھے ہیں’۔
انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) بھیجنے سے پہلے ان کے شوہر کو دکھایا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ’میرے شوہر نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے کہا تھا جائیدادیں ان کی نہیں ہیں اور اس سے ان کا لینا دینا نہیں’۔
اس وقت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرو کیا تھا کہ ‘کیسے اس ریفرنس کو برقرار رکھا جا سکتا ہے’۔
تاہم سرینا عیسیٰ نے لکھا کہ پھر اس کے بعد ‘کچھ بدلا’ اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مبینہ طور پر جسٹس فائز عیسیٰ کو اعتماد میں لیے بغیر سپریم جوڈیشنل کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔
مزید یہ کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو بار بار بھیجا تھا، جنہوں نے ریفرنس فائل کرنے کے بعد مبینہ طور پر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر سے گزشتہ سال یکم جون کو سرینا عیسیٰ کے ٹیکس ریٹنز انہیں فراہم کا کہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعت کے کارکنان نے ہاتھ ملا لیے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لندن میں موجود جائیدادوں کے ذرائع آمدن اور منی ٹریل مانگ کر ان پر احسان کردیا تھا‘۔
سرینا عیسیٰ نے خط میں الزام لگایا کہ اسی طرح ایک اور سابق جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنی ریٹائرمنٹ سے 6 کاروباری دن قبل جسٹس عیسیٰ کے خلاف ایک اور ریفرنس کی سماعت کی تھی اور وہ پرامید تھے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل اسے کی سماعت مکمل کرلیں گے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جسٹس عیسیٰ نے 3 بار صدر عارف علوی کو خط لکھا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا اور ان کے شوہر کا کوئی مسلح انداز نہیں تھا لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ جو ’پراکسیز کے ذریعے اور چپکے‘ سے کام کرتے ہیں انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ‘اگر ہمیں نقصان پہنچا تو آپ کے نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، انٹرپول اور اقوام متحدہ میں بھیج دیے جائیں گے۔
انہوں نے خط کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ‘طاقت نے انہیں یہ بھلا دیا ہے کہ انہیں آخریت میں جواب دہ ہونا ہے’۔
سرینا عیسیٰ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ان کے جائیداد کے جائزے کے خلاف دائر اپیل کے بارے میں یاد دلایا اور انہوں نے وہ درخواست بھی منسلک کی جو انہوں نے ‘ان افراد کے ٹیکس ریکارڈ کے حوالے سے دی تھی جنہوں نے ’غیرقانونی طور پر ان کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی’، ان افراد میں وزیر اعظم، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق اٹارنی جنرل انور منصور، مرزا شہزاد اکبر، محمد اشفاق احمد اور صحافی عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ‘میں اب بھی کاغذات کا انتظار کررہی ہوں’۔