سلطنت برطا نیہ کے زیر تسلط رقبہ جب اس قدر وسیع و عریض تھا کہ اس میں کبھی سو رج غروب نہیں ہو تا تھا، نو آبا دیا تی عہد کے عروج کے اس دور میں بھی انگریز کبھی بر اعظم جنو بی امریکہ میں داخل نہیں ہوا تھا۔شا ید سپین اور پر تگا ل کے سا تھ اس کا یہ خا مو ش معا ہدہ تھا کہ ”ادھر ہم، ادھر تم“اسی وجہ سے وہ شما لی امریکہ کی طر ف اپنی سلطنت کو تو سیع دیتا رہا۔ جنو بی امریکہ کے بحر الکا ہل کے سا تھ سا حل پر نظر دو ڑ ائیں تو نقشے میں چلی کی حدود میں واقع پیرو اور بو لیو یا کی سر حد کے قریب، ایک شہر کا انگریزی نام پڑھ کر آدمی ٹھٹک جا تا ہے، ”ہمبرسٹو ن“خا لص انگریزی نام ہے۔ ورنہ پو رے براعظم میں شہرو ں کے ہسپا نو ی یاپر تگیزی نام ہی ہیں، یا پھر مقا می قبا ئلی قدیم نا مو ں کے سا تھ سا تھ کہیں ولندیزی اور بہت ہوا تو کو ئی اطا لو ی نام نظر آجا تا ہے۔ مگر انگریز اور اس کی زبا ن انگریزی کا ادھر سے گزر نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو کی جا نب سے اس شہر کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ شا ید یہ نا م کی کشش تھی جو مجھے اس شہر میں لے گئی۔ کہنے کو تو اس شہر کو بھوت نگر یا اجڑا دیا ر بھی کہا جا سکتا ہے مگر آثا ر قدیمہ کہتے ہو ئے جھجک رہا ہوں کیو نکہ یہ جدید طرز کا شہر ہے اور اب پور ے شہر کو عظیم الشان میو زیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
یو ں کہنا زیا دہ مو زو ں ہے کہ ہمبر سٹو ن اب کو ئی آبا د بستی نہیں بلکہ آثا ر قدیمہ کا بہت بڑا میو زیم ہے۔ اس دیا ر کا فقط نام ہی انگریزی نہیں، تما م طر ز تعمیر بھی برطا نو ی ہے، اگر کسی نے جنوبی امریکہ میں انگریزی طرز کی جھلک دیکھنا ہو تو اس کے لیے ہمبر سٹو ن سے بہتر جگہ کو ئی نہیں ہو سکتی۔ اس شہر کے بسنے اور اجڑ نے کی کہا نی بہت دلچسپ ہے۔ یہ کہا نی زمین کی زر خیزی کے لیے استعمال ہو نے والی کھا د سو ڈیم نا ئیٹریٹ کے ارتقا ء سے جڑی ہو ئی ہے۔ ہمبر سٹون بنیا دی طور پر اس کھا د فیکٹری کا نام تھا۔ جو یہا ں سو ڈیم نا ئٹریٹ بنا تی تھی۔ جسے سا ئنسی زبا ن اور عرف عام میں اب بھی چلی کی نسبت سے چلی سا لٹ پیٹر کہا جا تا ہے۔ اس مقام کا اگر یو ں تعا رف کروایا جا ئے اور سمجھنے میں آسا نی ہو گی کہ ٹھیک ایک صدی پہلے پو ری دنیا میں استعمال ہو نے والی زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کا با عث نا ئیٹریٹ کھا د کا 65%حصہ اس فیکٹری میں تیا ر کیاجاتاتھا،یہ کوئی مبالغہ نہیں،اعدادوشمارکے علاوہ آثاربتاتے ہیں کہ واقعی 65فیصد اس فیکٹری میں تیارہوتاہوگا۔ فصلوں کی پیدوار بڑھا نے کے لیے لا طینی امریکہ کے مقا ی با شندے طویل عرصے سے سو ڈیم نا ئیٹریٹ کا استعما ل کر تے آرہے تھے، یو رپ میں اس کی ڈیما نڈ تب بڑھی جب بم بنانے کے لیے،دھماکہ خیز مواد کے طور پر سا لٹ پیٹر کا استعمال اور طلب بڑھ گئی۔صدیو ں سے ریڈ انڈین جسے زمین کی زرخیزی کا ٹو ٹکہ کہہ کر استعمال کر تے آرہے تھے اسے 1830 ء میں سا ئنسدانوں نے تجر با ت کے بعد تسلیم کیا اور مہر تصدیق ثبت کر دی کہ یہ سو ڈیم نائیٹریٹ زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے واقعی کار گر ہے، اس سے نا ئیٹریٹ کی صنعت نے مزید رفتار پکڑلی۔
اس کھا د فیکٹری کا رہا ئشی علا قہ قا بل دید ہے، سا ڑھے تین ہزار نفو س پر مشتمل یہ ایک جد ید شہر کا نمو نہ تھا ۔ ٹینس،با سکٹ با ل، بیڈ منٹن کے علاوہ وہ فٹ با ل کا وسیع و عریض میدان، اتنے سا رے کھیلو ں کا اہتمام کہ گنوانا مشکل ہے، اسپتا ل، سینما، تھیٹر، پیزا ہا ل، مختصر یہ کہ ایک جدید شہر میں جو سہو لیا ت آپ سو چ سکتے ہیں وہ تمام یہا ں پر مہیا کی گئی تھیں۔ جنگل میں منگل کی عملی تصویر نظر آتا ہے یہ علا قہ۔ انگریزی طر زتعمیر کے اس رہا ئشی علا قے میں داخل ہو تو لگتا ہے جیسے پا ک وہ ہند کے کسی قدیم روایتی ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو رہے ہیں، برصغیر کا ریلوے نظام بھی چو نکہ انگریز کا تعمیر کر دہ ہے اس لیے مما ثلت قا بل فہم ہے۔ یہا ں ہمبر سٹون نامی بر طا نو ی شہری اور سا ئنسدان کا بھی تذکرہ کر تا چلو ں۔ جس نے یہ فیکٹری قا ئم کی پھر اس کی دیکھا دیکھی چند اور فیکٹریا ں بھی بن گئیں۔ مگر پھر بھی اس مقام کو نا ئیٹریٹ کی پیداوار کے لیے سا ئنسی بنیا دوں پر چننے کا سہر ہ اسی کے سر پر بندھتا ہے،جس نے صحراؤ ں کی خا ک چھا ن کر یہ جگہ تلا ش کی تھی اور کھا د فیکٹر ی اس بیا بان میں قا ئم کی۔
اس کھا د پلا ٹ کے قریب ترین بندر گا ہ ستر کلو میٹر کی دوری پر اقیقیٰ شہر کی تھی۔ اقیقیٰ کی بندرگاہ اس وقت تک بس مچھلیا ں وغیرہ پکڑ نے والی کشتیو ں تک محدود تھی مگر ہمبر سٹو ن سے پیدا ہو نے والی کھا د کی برآمد کے سبب یہ پو رٹ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر نے لگی۔ اس بندرگا ہ کا تمام تر انحصا ر اسی سا لٹ پیٹر یر تھا۔
یہا ں یہ ذکر کر تا چلو ں کہ اس وقت یہ کھا د کا پلا نٹ اور شہر اقیقیٰ پیروکا حصہ تھے، چلی اور پیرو کے درمیان ہو نے والی جنگ جس کے نتیجے میں یہ شہر اور سینکڑوں میل کا
علا قے چلی کے قبضے میں چلا گیا، اس جنگ کے اسبا ب میں ایک بنیا د ی محرک یہ اور اس سے ملحقہ کھا د پلا نٹ تھے جو ہمبر سٹو ن میں واقع تھے۔ بحرالکا ہل کی جنگ سے تار یخ میں یا د کی جا نے والی اس لڑائی میں بر طا نیہ نے چلی کی حمایت کی تھی اور چلی نے بر طا نیہ کو یقین دلا یا تھا کہ اگر وہ اس کی جنگ میں مدد کر ے تو اس فیکٹری
کو قو میا یانہیں جا ئے گا،یہ وعدہ وفا بھی ہوا مگر جنگ کے نتیجے میں بو لیو یا سمندر سے محروم ہو گیا اور پیرو اپنے سینکڑوں مر بع میل رقبے سے ہاتھ دھوبیٹھا۔
عروج کے زما نے میں تشہیر کے لیے بنا ئے گئے اشتہا ر دیکھ کر خو شگوار حیرت مجھے اس وقت ہو ئی جب دہلی کے ڈسٹی بیو ٹر کی جا نب سے جا ری کر دہ اشتہا ر میں ایک پنجا بی کسا ن نا ئیٹریٹ کے استعمال کے سبب کپا س اور مکئی کی بھر پور فصل اٹھا کر ما لا ما ل اور دو سری تصویر میں کسا ن نا ئیٹریٹ استعمال نہ کر کے بد حال، پریشا ن و پشیما ن دکھا یا گیا ہے۔ چین و عر ب سے لیکر ہندو ستا ن اور برا زیل تک ملکو ں ملکو ں چلی کی قدر تی کھا د سو ڈیم نا ئیٹر یٹ کے اشتہا ر ات اور ہر زبا ن میں تعریف، تو ثیق عظمت رفتہ کی یا د لا تی ہے۔
زوال کی داستا ن بھی کما ل دلچسپ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے ہنگا م بر طا نیہ کی خو اہش اور ایما ء پر جر منی کو سو ڈیم نا ئیٹریٹ کی برآمد چلی نے بند کر دی، اس کے دو اسبا ب تھے۔ ایک تو چلی سا لٹ پیٹر دھما کہ خیز مواد خصو صیا ت کے با وصف بم سا زی میں استعمال ہو تی تھی، اور دوسری وجہ زمین کی زرخیزی اور فصلو ں کی پیداوار
بڑھا نے کے لیے یہ کھا د معا ون تھی۔ ہر دو صو رتو ں میں یہ صو ر تحا ل انگلستا ن کے لیے قا بل قبول نہ تھی۔ جیسا کہ پہلے عر ض کیا بحر الکا ہل کی جنگ میں پیرو اور بولیویا کے خلا ف بر طا نیہ عظمیٰ نے چلی کا سا تھ دیا تھا جس کے نتیجے میں نہ صر ف یہ پلا نٹ، شہر بلکہ ہزاروں مر بع میل کا علا قہ فتح کر نے میں وہ کا میا ب ہو سکا۔ اسی لیے وہ
بر طا نیہ کا پہلی جنگ عظیم میں سا تھی اور حلیف تھا۔ عا لمی سچا ئی پر مبنی ایک مقو لہ ہے جو دنیا کی ہر زبا ن میں الفا ظ کے تھو ڑے بہت ردّو بدل کے سا تھ مو جو د ہے کہ ضرورت ایجا د کی ما ں ہو تی ہے۔
جرمنی کو نا ئیٹریٹ کی فراہمی پر مکمل پا بند ی اور بندش کا نتیجہ نئی ایجاد کی صور ت میں سا منے آیا، وہ تھی جر منی کی جا نب سے لیبا رٹری میں تیا ر کر دہ مصنو عی سو ڈیم نا ئیٹریٹ۔ اس مصنو عی سا لٹ پیٹرکی ایجاد نے چلی کے شما لی علا قے میں واقع کھا د کی پیداوار کی اس صنعت کی بر با دی کی بنیا د رکھ دی تھی۔ اندازہ لگا لیں کہ 1910 میں دنیا بھر میں استعمال کی جا نے والی سو دیم نا یٹریٹ کا دو تہا ئی حصہ اس شہر میں پیدا ہو نا تھا، اگلے بیس بر س میں وہ کم ہو کر فقط دس فیصد تک رہ گیا ۔جب 1950آیاتوپیداوار کایہ تناسب عالمی پیداوارکافقط تین فیصد حصہ رہ گیاتھا۔جیمز تھا مس ہمبر سٹون کا بسایا ہوا یہ شہر 1960 ء تک مکمل طور پر اجڑچکا تھا۔ سلو ادور آنیدے کی سو شلسٹ حکومت نے اسے 1970 میں قومی ورثہ قرار دے دیا۔ 2005 ء میں اس نگر کو عوام النا س اور سیا حو ں کے لیے دو با رہ کھو لا گیا، اب یہ میو زیم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اسی سال اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو کی جا نب سے اسے عا لمی ثقا فتی ورثہ قرار دے دیا گیا۔ کھا د فیکٹری کی مینار نما سو میٹر اونچی چمنی سے اب دھواں نہیں اٹھتا۔ مگر سڑک پر سفر کرنے والے مسا فروں کو یہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ گزرے ہو ئے عہد کا اعلا ن اور تعا رف دو سے ہی یہ آہنی چمنی کروا دیتی ہے۔