منتخب تحریریں

جائے استاد خالی است!

Share

ایمانداری کی بات ہے کہ کم از کم مجھے تو اب تک پاکستانی سیاست کا بھی پورا سر پیر سمجھ نہیں آ سکا کیونکہ اس کے عوامل عقلی، منطقی، قانونی، آئینی یا اخلاقی سے زیادہ نادیدہ ہیں اور بھلا نادیدہ کے بارے میں یقین سے کیا کہا جا سکتا ہے؟ صرف تُکّے لگائے جا سکتے ہیں یا خواہش کو خبر بنایا جا سکتا ہے‘ سو سب یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ دعویٰ کرنا کہ اس عاجز کو امریکی سیاست کی کافی جانکاری ہے بالکل بھی مناسب بات نہیں۔ اس لیے میں امریکی سیاست اور خاص طور پر صدارتی الیکشن کے معاملے میں سو فیصد شفیق کی معلومات پر بھروسہ کرتا ہوں۔ میری اس سلسلے میں معلومات کا دار و مدار شفیق کے حساب کتاب اور تجزیوں پر ہوتا ہے کہ اس کا یہی کام ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے وہ حالیہ امریکی الیکشن کے سلسلے میں سٹیٹ ٹو سٹیٹ متوقع نتائج کے نقشے بنا رہا ہے اور الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کرنے میں مشغول ہے۔ شفیق میرے چھوٹے بھائی جیسا ہے لیکن امریکی سیاست میں میرے لیے استاد کا درجہ رکھتا ہے۔
امریکہ کے صدارتی الیکشن کا سسٹم شاید دنیا بھر میں سب سے انوکھا اور مختلف ہے۔ امریکہ کے شہری صدارتی الیکشن میں براہ راست صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ ویسے تو نائب صدر بھی یہ الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے مگر اسے بس آپ صدر کا آئینی دم چھلا ہی کہہ سکتے ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کے دن ہوتے ہیں‘ یعنی اگر منگل یکم نومبر کو آئے تو اس روز الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ پہلے سوموار کا نومبر میں آنا ضروری ہے اور اس کے اگلے دن الیکشن ہوں گے۔ اس طرح امریکی الیکشن دو نومبر سے آٹھ نومبر کے دوران کسی روز بھی ہو سکتے ہیں۔ اس بار یہ منگل تین نومبر کو آیا ہے۔ دوسری بات اس کا الیکٹورل سسٹم ہے جس میں بسا اوقات زیادہ ووٹ لینے والا یعنی زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار الیکٹورل سسٹم کے ہاتھوں شکست کھا سکتا ہے۔ امریکہ کی پچاس ریاستیں اور فیڈرل دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اس الیکٹورل کالج کا حصہ ہیں۔ کل الیکٹورل ووٹوں کی تعداد پانچ سو اڑتیس ہے اور ان میں سے دو سو ستر یا اس سے زائد ووٹ لینے والا صدر منتخب ہو جاتا ہے۔ کم از کم الیکٹورل ووٹ کی حامل ریاستوں کی تعداد سات ہے۔ یہ ریاستیں ڈیلاوئر، ورمانٹ، نارتھ ڈکوٹا، سائوتھ ڈکوٹا، مونٹانا، وائی یومنگ اور الاسکا ہیں۔ اس کے علاوہ واشنگٹن ڈی سی کے بھی تین ووٹ ہیں۔ اس کے برعکس کیلی فورنیا کے پچپن ووٹ ہیں۔ ٹیکساس کے اڑتیس، نیو یارک اور فلوریڈا کے انتیس انتیس ووٹ ہیں اور ایلینوائے اور پنسلوانیا کے بیس بیس ووٹ ہیں دیگر ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ ان کے درمیان ہیں۔ اس انتخابی نظام میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار گنتی میں تو ووٹ زیادہ لے لے‘ لیکن الیکٹورل ووٹوں کے حساب سے شکست کھا جائے۔ اس طرح وہ ہار جائے گا اور کم ووٹ لینے والا زیادہ الیکٹورل ووٹوں کی بنیاد پر امریکہ کا صدر منتخب ہو جائے گا۔
میں گزشتہ دو ہفتوں سے ہر دوسرے دن شفیق کو فون کر کے اس سے تازہ ترین صورتحال سے آگاہی لیتا رہا ہوں۔ شفیق گو کہ خود بھی موجودہ امریکی انتخابی صورت حال سے خاصا کنفیوژ ہے لیکن تمام تر حساب کتاب لگانے کے بعد اور سٹیٹ ٹو سٹیٹ الیکٹورل ووٹوں کو شمار کرنے کے بعد اس کا خیال ہے کہ تمام تر پیش گوئیوں، جائزوں اور سروے کے نتائج کے برعکس اس بار بھی ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات جو بائیڈن کی نسبت زیادہ ہیں۔ 2016ء کے امریکی انتخابات میں بھی جب دنیا بھر کے سروے کرنے والے تقریباً تمام ادارے اور سارا میڈیا ہلیری کلنٹن کے جیتنے کی پیش گوئیاں کر رہا تھا تب شفیق پورے شد و مد کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے واضح امکانات کی بات کر رہا تھا۔ تب بھی وہ اپنے تمام تر حسابی اعداد و شمار کے حوالے سے اپنی بات پر ڈٹا رہا اور انتخابی نتائج نے اس کے اندازوں کو درست ثابت کر دیا۔ وہ اب بھی تمام تر تحفظات کے باوجود بہر حال ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات کو جو بائیڈن پر ترجیح دے رہا ہے؛ تاہم اس کا یہ کہنا ہے کہ مقابلہ کانٹے دار ہے اور دونوں امیدواروں کے درمیان الیکٹورل ووٹوں کا فرق ممکن ہے بہت زیادہ نہ ہو لیکن ٹرمپ بہر حال جیت جائے گا۔
میں نے شفیق سے پوچھا کہ وہ یہ اندازے کن بنیادوں پر لگا رہا ہے؟ شفیق کہنے لگا ”اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ گزشتہ چار سال کے دوران اپنی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے ٹرمپ نے جو وعدے کیے تھے ان میں سے بیشتر پر وہ پورا اترا ہے اور عام امریکی کو اس کی معاشی پالیسیوں کے طفیل روزگار کے بہتر مواقع میسر آئے ہیں۔ بے روزگاری کم ہوئی ہے۔ امریکی صنعت کو سہارا ملا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے اور امریکیوں کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا ہوا کہ چین وغیرہ سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کو اپنے پیٹ اور جیب سے غرض ہے اور وہ دونوں پہلے کی نسبت زیادہ بھرے ہوئے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ گزشتہ الیکشن میں بھی سروے جہاں جہاں ہلیری کی برتری پانچ فیصد تک دکھا رہے تھے وہاں ہلیری کو شکست ہوئی تھی اور جہاں یہ برتری پانچ فیصد سے زیادہ تھی صرف وہیں ہلیری کو کامیابی ہوئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں ڈیموکریٹ ووٹر کا ٹرن آئوٹ کئے جانے والے سروے کے مقابلے میں پانچ فیصد کم تھا جبکہ ری پبلکنز کا حقیقی ٹرن آؤٹ سروے کے نتائج سے زیادہ تھا۔ اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ سرویز میں جہاں جو بائیڈن کی برتری پانچ فیصد یا اس سے کم ہے وہاں ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ قوم پرست گورا بہر حال ٹرمپ کو ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے گا اور یہی بات ٹرمپ کے حق میں جاتی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت کے آخری دنوں میں بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عمل نے اسے یہودیوں میں کافی مقبول کر دیا ہے اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں یہودی لابی اس معاملے میں خاصا فیصلہ کن کردار کی حامل ہے‘‘۔
یہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ مجھے شفیق کے تجزیے سے اختلاف ہے۔ ممکن ہے اس میں میری خواہش کا زیادہ عمل دخل ہو مگر میرے پاس بھی اس کے تینوں دلائل کا جواب موجود ہے۔ پہلا یہ کہ فی الوقت امریکیوں کو ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی سے زیادہ اس کی کورونا کے خلاف ناکام پالیسی سے غرض ہے کہ امریکی اس وقت معیشت سے زیادہ صحت اور زندگی کے بارے میں فکر مند ہیں اور ‘جان ہے تو جہان ہے‘ کو معیشت پر ترجیح دے رہے ہیں‘ دوسری یہ کہ یہ امریکی تاریخ کا شاید واحد الیکشن ہے جو دو امیدواروں کے بجائے ایک امیدوار کی بنیاد پر لڑا جا رہا ہے۔ لوگ ٹرمپ مخالف اور ٹرمپ کی حمایت میں یعنی اینٹی ٹرمپ اور پرو ٹرمپ کی بنیاد پر ووٹ ڈال رہے ہیں‘ اور باوجود اس کے کہ جو بائیڈن ایک کمزور امیدوار ہے اسے ٹرمپ سے نفرت اور مخالفت کی بنیاد پر ووٹ پڑیں گے۔ مزید یہ کہ جتنے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوں گے وہ جو بائیڈن کے حق میں جائیں گے اور اس بار ریکارڈ سوا دس کروڑ ووٹ تو تین نومبر سے قبل کاسٹ ہو چکے ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ ہو سکتا ہے کہ یہودیوں کی جانب سے ٹرمپ کی حمایت مسلم ووٹ جو بائیڈن کے پلڑے میں ڈال دے۔ ممکن ہے‘ میرے سارے دلائل میری خواہش کے تابع ہوں لیکن کیا پتا اس بار میرا تجزیہ میرے امریکی سیاسی استاد کے مقابلے میں درست ثابت ہو جائے گا؛ تاہم استاد پھر بھی استاد ہی رہے گا۔ جائے استاد خالی است!