پاکستان کے سابق ہاکی اولمپئین عبدالرشید جونیئر 73 سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے ہیں۔ وہ کافی عرصہ سےعلیل تھے اور انھیں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
پاکستان کے سابق گول کیپر سلیم شیروانی اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ترجمان نے رشید جونیئر کے خاندانی ذرائع سے ان کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں ان کے آبائی شہر بنوں میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔
’شارپ شوٹر‘
رشید جونیئر کا شمار بین الاقوامی ہاکی کے صفِ اول کے سینٹر فارورڈز میں ہوتا تھا۔
ستر کی دہائی میں وہ حریف ٹیموں کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ اگرچہ ہاکی کے کھیل نے حسن سردار جیسا سٹائلش سینٹر فارورڈ بھی دیکھا ہے لیکن رشید جونیئر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ساتھی کھلاڑیوں کی طرف سے ملنے والے پاس پر یا خود حریف ڈیفینڈرز کو چکمہ دے کر وہ گیند کو پلک جھپکتے ہی گول میں پہنچا دیتے تھے۔
اسی خوبی کی وجہ سے وہ ’شارپ شوٹر‘ اور ’کنگ آف دی ڈی‘ کے نام سے مشہور تھے۔
رشید جونیئر نے 89 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 96 گول کیے۔
انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا جنوری 1968 میں لاہور فیسٹیول میں سری لنکا کے خلاف میچ میں رائٹ ان کی حیثیت سے کی تھی لیکن بریگیڈئر عاطف نے منیجر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد رشید جونیئر کے کھیل کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ انھیں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھلانا بہتر ہو گا۔
رشید جونیئر کے کیریئر کا نقطہ عروج سنہ 1968 میں میکسیکو میں ہونے والے اولمپکس تھے جن میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیتا۔ اس جیت میں رشید جونیئر کا کردار بہت اہم رہا تھا۔ سات گول کے ساتھ وہ ان مقابلوں کے مشترکہ ٹاپ سکورر رہے تھے۔
سنہ 1970 میں جب پاکستان نے بنکاک میں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تو رشید جونیئر کا کھیل عروج پر تھا خاص کر انڈیا کے خلاف فائنل میں انھی کے گول کی بدولت پاکستان نے کامیابی حاصل کی تھی۔
اس ٹورنامنٹ میں انھوں نے مجموعی طور پر آٹھ گول کیے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کے منیجر رشید جونیئر کے بڑے بھائی بریگیڈئیر حمیدی بھی شامل تھے۔
اسی سال حکومت پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔
رشید جونیئر 1971 میں پہلا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ اس طرح وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے ہاکی گرینڈ سلام مکمل کیا تھا۔ اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کے خلاف ان کے گول کی بدولت پاکستان نے مقابلہ برابر کیا تھا جس کے بعد منورالزماں نے فیصلہ کن گول کر کے پاکستان کو فائنل میں پہنچایا تھا۔
سنہ 1972 کے میونخ اولمپکس میں رشید جونیئر نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ پانچ گول کیے لیکن جرمنی کے خلاف فائنل میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی وجہ سے وہ بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ پابندی کی زد میں آ گئے تھے جس کی وجہ سے وہ سنہ 1973 کے عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی سے محروم رہے تھے۔
سنہ 1974 میں تہران میں ہونے والے ایشین گیمز میں ان کی قیادت میں پاکستان نے فائنل میں انڈیا کو ہرا کر اپنے ایشیائی اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں وہ مجموعی طور پر 13 گول کر کے چھائے رہے۔
بھائی کی طرح اولمپک گولڈ میڈلسٹ
رشید جونیئر کو ہاکی کا شوق اپنے بڑے بھائی عبدالحمید کو دیکھ کر ہوا جو بریگیڈیئر حمیدی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور جن کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار سنہ 1960 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا۔
اپنے بڑے بھائی کی طرح رشید جونیئر کو بھی اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ سنہ 1976 میں مانٹریال اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رشید جونیئر دنیا کے ان تین کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اولمپکس میں طلائی، چاندی اور کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہ اعزاز انڈیا کے پرتھی پال سنگھ اور وکٹر جان پیٹر کو حاصل ہے۔
رشید جونیئر کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے کھلاڑی اور منیجر دونوں حیثیت میں ورلڈ کپ جیتا ہے۔ وہ 1994 میں عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے منیجر تھے۔ اسی سال ان کی منیجر شپ میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی تھی۔
رشید جونیئر کو ورلڈ کلاس کھلاڑی ہونے کے باوجود جونیئر پکارے جانے کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ جب وہ انٹرنیشنل ہاکی میں آئے تھے تو ان سے قبل ایک اور عبدالرشید پاکستانی ٹیم میں موجود تھے لہذا انھیں رشید جونیئر پکارا جانے لگا لیکن وہ صرف نام کے جونیئر تھے ان کا کھیل ان کی سنیارٹی ثابت کر دیتا تھا۔