بھارت کی فلم انڈسٹری کے ایک نامور ولن نے کئی عشرے قبل انٹرویو میں ایک بہت دلچسپ بات کہی تھی، انہوں نے کہا کہ پرانی فلموں میں کسی بے رحم ڈاکو، لالچی مہاجن، ظالم غنڈے اور عورت کی عزت لوٹنے والے کو دیکھ کر فلم بینوں کے دل میں برائی سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا مگر آج میری فلموں میں سب برے کام ہیرو کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری فلم میں توڑ پھوڑ اور قتل و غارت گری کے باوجود فلم بین اسے اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔
پران کی یہ بات سن کر مجھے ایسے لگا تھا جیسے موصوف خاصی پرانی وضع کے آدمی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اپنے یہ بھائی صاحب خاصے ری ایکشنری آدمی تھے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جس زمانے میں بے رحم ڈاکو، لالچی مہاجن، ظالم غنڈے اور عورت کی عزت لوٹنے والے کو دیکھ کر فلم بینوں کے دلوں میں ان برائیوں سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا وہ زمانہ اور تھا اور آج جبکہ یہ سارے برے کام ہیرو کرتا ہے اور اس کے باوجود وہ ولن نہیں ہیرو ہی رہتا ہے تو یہ زمانہ اور ہے۔ میرے ایک دوست ہیں علامہ قنوطی صاحب وہ بھی پران کی طرح ہر نئی چیز پر کڑھتے رہتے ہیں اور اس میں سے اچھے پہلو تلاش کرنے کے بجائے اس میں سے کیڑے نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر ؎
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
سنایا مگر انہوں نے اپنی سوچ اس شعر کے مطابق تو خیر کیا ڈھالنی ہے وہ اس شعر کے پہلے دو لفظوں ہی سے بدک جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے آئین نہیں چاہئے۔ انہی علامہ قنوطی صاحب کو میں نے انہی دنوں، پران کا متذکرہ بیان پڑھ کر سنایا تو یہ بیان سن کر پہلے وہ ہنسے اور پھر روئے۔ میں نے پوچھا کہ علامہ صاحب آپ ہنسے کیوں، کہنے لگے ہنسا اس لئے ہوں کہ اس دور میں بھی پرانی قدروں کو عزیز رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ میں نے کہا کہ علامہ صاحب آپ روئے کیوں، بولے رویا اس لئے ہوں کہ عزیزی پران نے اپنی بات کو فلم تک ہی محدود کر کے بات کا مزا کرکرا کر دیا۔ میں نے کہا کیا مطلب؟ بولے پران نے جس چیز کا فلم کے حوالے سے رونا رویا ہے وہی چیز ہمارے ہر شعبے میں بھی موجود ہے۔ میں یہ سن کر حیران ہوا تو علامہ قنوطی نے فرمایا میرے عزیز اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں، جہاں فلموں میں آج کل ہر برائی کا ارتکاب ہیرو کرتا ہے اور اس کے باوجود عوام کی نظروں میں ہیرو ہی رہتا ہے اسی طرح میرے صاحبان اقتدار بھی قتل و غارت گری اور لوٹ مار میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے باوجود عوام انہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ صاحب تاریخ کی پوتھی کھول کر بیٹھ گئے اور ایسے کتنے ہی آمروں کے کرتوت بیان کرنا شروع کر دیے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی مگر عوام آج بھی سیاستدانوں ہی کو ولن سمجھتے ہیں۔
میں نے علامہ صاحب کی یہ ساری کتھا بڑے تحمل سے سنی۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکے تو میں نے کہا علامہ صاحب یہ تو ماضی کی باتیں ہیں کچھ باتیں آج کے حوالے سے بھی بتائیں۔ کہنے لگے آج کی باتیں آج نہیں کل بتائی جاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا آپ علامہ ہیں اخبار نویس تو نہیں ہیں کہ آج کی باتیں کل بتائیں گے۔ بولے عطاء اللہ شاہ بخاری کو جانتے ہو، میں نے کہا کہ میں تو ان کے پرستاروں میں سے ہوں، کہنے لگے شاہ صاحب جب تقریر کرتے تھے تو لوگ کہتے تھے واہ شاہ صاحب اور اس تقریر کے نتیجے میں جب وہ جیل جاتے تو لوگ صرف اتنا کہتے ’’آہ شاہ صاحب‘‘۔ ظاہر ہے مجھے علامہ صاحب کی یہ بات سمجھ میں آ گئی چنانچہ اس کے بعد میں نے اصرار نہیں کیا کہ وہ ماضی اور حال کا موازنہ بھی کر کے دکھائیں۔ اور اب آخر میں میں اپنے قارئین کو ایک حکایت سناتا ہوں جو محض جگہ بھرنے کے لئے ہے کیونکہ کالم چھوٹا رہ گیا ہے۔ ایک بادشاہ کے زمانے میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا، اس بوڑھے آدمی نے اس بادشاہ کے والد اور دادا کا زمانہ بھی دیکھا ہوا تھا، ایک دن بادشاہ نے اس بوڑھے آدمی کو اپنے دربار میں بلایا اور کہا بزرگو! آپ نے میرا زمانہ بھی دیکھا ہے، میرے والد کا زمانہ بھی دیکھا اور میرے دادا کا زمانہ بھی دیکھا، آپ کو ان تینوں میں کیا فرق نظر آیا ہے؟ بزرگ نے کہا حضور آپ کے دادا کے زمانے میں ایک روز میں جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ میں نے ایک ڈاکو دیکھا جو ایک دلہن کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، میرا وہ جوانی کا زمانہ تھا میں نے ڈاکو کا مقابلہ کیا اور اسے زیر کر کے بے ہوش دلہن کو اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ دلہن نے بڑا بیش قیمت زیور پہنا ہوا تھا مگر میں نے زیورات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ میں نے دلہن کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور جب وہ ہوش میں آئی تو اسے اس کے گھر چھوڑ آیا، تو حضور یہ تو آپ کے دادا کا زمانہ تھا، جب آپ کے والد بادشاہ بنے تو یہ واقعہ یاد آنے پر بجائے خوشی کے مجھے افسوس ہوتا تھا کہ میں نے اس عورت کی جان بچائی، یہی کافی تھا۔ میں اگر اس کے کچھ زیور اتار لیتا تو اسے کون سا پتہ چلنا تھا اپنی باقی عمر آرام سے کٹ جاتی تو حضور یہ آپ کے والد کا زمانہ تھا اور بادشاہ سلامت جب سے آپ اقتدار میں آئے ہیں، جب کبھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے تو اس عورت کی خوبصورتی اور اپنی بے وقوفی کا سوچ کر سخت غصہ آتا ہے کہ عمدہ موقع تھا جو میں نے ہاتھ سے گنوا دیا!