Site icon DUNYA PAKISTAN

امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: کیا نئے صدر کا تعین عدالتیں کریں گی؟

Share

ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن بظاہر انتخابات میں کامیابی کی راہ پر ہیں لیکن ان کے حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ چار ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی میں بے ضابطگیوں کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کیا ہو سکتا ہے؟

صدر ٹرمپ کی انتحابی مہم کا بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ ہے کہ فراڈ ہو رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پینسلوینیا، وسکونسن، جارجیا اور مشیگن میں ووٹوں کی گنتی روک دی جائے۔

ہم نے قانونی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اگر انتخاب کا نتیجہ آنے میں دیر ہوتی ہے تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟

کیا ابھی تک نتائج آ جانے چاہیے تھے؟

اس کا جواب ہاں اور ناں دونوں میں ہے۔ انتخاب کے فوراً بعد ہمیں جو نتائج ملتے ہیں وہ دراصل ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے ہوتے ہیں۔ جب ذرائع ابلاغ کے اداروں کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک امیدوار کی برتری اتنی زیادہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا تو وہ اسے فاتح قرار دے دیتے ہیں لیکن وہ سرکاری یا حتمی نتیجہ نہیں ہوتا۔

سرکاری اور حتمی نتیجہ ہمیشہ ہی دیر سے آتا ہے۔

لیکن اس بار ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا لہٰذا ابھی ان ووٹوں کی گنتی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

جب ووٹرز پولنگ سٹیشن میں جا کر ووٹ ڈالتے ہیں تو ان کے ووٹوں کی گنتی اس روز ہو جاتی ہے لیکن ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی میں زیادہ وقت لگتا ہے کیونکہ ان کے اصلی ہونے کی تصدیق کرنے میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔

بائی پارٹیسن پالیسی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر میتھیو ویل کہتے ہیں کہ جب مقابلہ بہت کانٹے دار ہو اور کوئی امیدوار اپنی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو تو ووٹوں کی گنتی کا جاری رہنا معمول کی بات ہے۔

ووٹ ڈالنے میں رکاوٹیں

پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی قانونی جھگڑوں کا آغاز ہو چکا تھا اور منگل کو جب پولنگ شروع ہوئی تو 44 ریاستوں میں پوسٹل بیلٹ کے حوالے سے 300 مقدمات دائر ہو چکے تھے۔

ان مقدمات میں پوسٹل بیلٹ کو روانہ اور موصول کرنے کی ڈیڈلائن اور ان پر گواہ کے دستخط کے حوالے سے نکات اٹھائے گئے ہیں۔ کچھ مقدمات میں ان لفافوں پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جن میں بیلٹ پوسٹ کیے گئے ہیں۔

ایسی ریاستیں جہاں رپبلکن پارٹی کی حکومت ہے، ان کا کہنا تھا کہ ووٹوں میں ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنا ضروری تھا جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا مؤقف ہے کہ لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو کس چیز پر اعتراض ہے؟

وسکونسن

صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے وسکونسن میں ’بے ضابطگیوں‘ کے الزام میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کب شروع ہو گی۔ عام طور پر دوبارہ گنتی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک کاؤنٹی حکام ووٹوں کا جائزہ نہ لیں۔ وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی ڈیڈلائن 17 نومبر ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی لا سکول کے پروفیسر رچرڈ بریفالٹ کے مطابق 2016 میں بھی وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوئی تھی اور تقریباً ایک سو ووٹوں کا فرق سامنے آیا تھا۔

پروفیسر رچرڈ بریفالٹ کے مطابق دوبارہ گنتی کا مطالبہ ووٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ گنتی صحیح ہوئی ہے۔

مشیگن

صدر ٹرمپ نے 2016 میں مشیگن میں 10 ہزار ووٹوں کی برتری سے اس ریاست کو جیت لیا تھا۔

چار نومبر کو صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔ الیکشن کے حکام 96 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل کر چکے ہیں۔.

ایسے حلقوں میں جہاں تاریخی طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کی برتری رہتی ہے وہاں اب بھی ہزاروں ووٹوں کی گنتی ہونی باقی ہے۔ بی بی سی اور کئی امریکی اداروں کے اندازوں کے مطابق وہاں سے جو بائیڈن کی جیت کا امکان ہے۔

پینسلوینیا

یہاں جھگڑا ایسے پوسٹل بیلٹس کی گنتی پر ہے جنھیں پولنگ کے دن ڈاک کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ تین دن بعد تک انتخابی حکام تک پہنچیں گے۔ رپبلکن پارٹی اس کے خلاف اپیل دائر کر رہی ہے۔

میتھو ویل اس بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے امریکی سپریم کورٹ میں یہ معاملہ پہلے بھی زیر غور رہا ہے اور عدالت اس معاملے پر منقسم تھی اور اب رپبلکن پارٹی کی طرف سے نئی جج جسٹس ایمی کونی باریٹ کی تعیناتی کے بعد یہ معاملہ دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔

’میرے خیال میں اس بات کا خطرہ موجود ہے جو بیلٹ پولنگ کے روز ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ہیں اور وہ جمعے تک موصول نہیں ہوئے ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے۔ میرے خیال میں یہ غلط نتیجہ ہو گا لیکن قانونی طور پر یہ ہی ممکنہ فیصلہ ہے۔

میتھو ویل کے مطابق ریاستی حکام نے پولنگ کے روز سے ایک دن پہلے ووٹروں کو پیغامات بھیجے تھے کہ وہ اپنا پوسٹل بیلٹ ڈاک کے ذریعے بھیجنے کے بجائے پولنگ سٹیشن میں ڈیلیور کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ووٹوں کی بہت بڑی تعداد نہیں ہو گی۔

پروفیسر بریفالٹ کا کہنا ہے کہ ایسے پوسٹل بیلٹ جو دیر سے موصول ہو رہے ہیں ان کی گنتی علیحدہ سے ہو رہی ہے اور اگر جو بائیڈن ان ووٹوں کے بغیر بھی جیت رہے ہیں تو انھیں کسی قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہو گی۔

لیکن صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اس وقت اپنی کامیابی کا اعلان کر رہی ہے جب ابھی لاکھوں ووٹوں کی گنتی ہونی باقی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے کسی بھی ادارے نے ابھی تک پینسلوینیا میں کسی ایک امیدوار کو کامیاب قرار نہیں دیا ہے۔

جارجیا

ریاست کی رپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے چیٹھم کاؤنٹی کے علاقے میں ووٹوں کی گنتی کو رکوانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔

جارجیا میں ریپبلکن پارٹی کے چیئرمین ڈیوڈ شیفرڈ نے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ان کے پارٹی نگرانوں نے ایک عورت کو 50 غیر حاضر ووٹوں کو ان گنے ووٹوں کے ڈھیر میں شامل کرتے دیکھا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی ہے۔

کیا کوئی معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ سکتا ہے؟

صدر ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے بدھ کے روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ ووٹوں میں ہیرا پھیری ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام ووٹوں کی گنتی کو روک دیا جائے اور وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔

پولنگ کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور اب صرف دیر سے موصول ہونے والے پوسٹل بیلٹ کا جھگڑا ہے۔

میتھو ویل کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس ایسا کوئی خصوصی اختیار موجود نہیں ہے کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے قانونی عمل کو روک دے۔

پروفیسر بریفالٹ کا کہنا ہے کہ حریف جماعتوں کا کچھ ریاستوں میں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن معاملے کو سپریم کورٹ تک لے جانے کے لیے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ کس نوعیت کے انتخابی تنازعے کو سپریم کورٹ میں لے جایا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں، اس بارے میں کوئی حتمی طریقہ کار موجود نہیں ہے لیکن اگر معاملہ بہت غیر معمولی اور اہم ہے تو پھر شاید سپریم کورٹ اس کو دیکھنے پر تیار ہو جائے۔

کسی انتخابی نتیجے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے پہلے ریاستی عدالتوں کے پاس جانا ہوگا اور پھر ریاستی عدالت کے فیصلے کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

کئی جہگوں پر اگر مقابلہ بہت کانٹے کا ہے، تو وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی خود بخود ہی عمل میں آ جاتی ہے۔ سنہ 2000 میں جارج بش اور ایلگور کا معاملہ تو آپ کو یاد ہو گا جب فلوریڈا کے نتائج پر جھگڑا سپریم کورٹ تک جا پہنچا تھا۔

یہ معاملہ کتنی طوالت پکڑ سکتا ہے؟

چونکہ یہ صدارتی انتخاب ہے اس لیے اسے مکمل کرنے کے لیے کئی وفاقی اور آئینی ڈیڈلائنز موجود ہیں۔

تمام ریاستوں کے لیے لازم ہے کہ وہ پانچ ہفتوں میں واضح کریں کہ ان کی ریاست سے کون سا صدارتی امیدوار جیتا۔ پانچ ہفتوں کی میعاد تین نومبر سے شروع ہوتی ہے اور آٹھ دسمبر کو ختم ہوتی ہے۔

اگر ریاست پانچ ہفتوں میں الیکٹورل ووٹ کا معاملہ نہیں سلجھا سکتی تو پھر کانگریس اس ریاست کے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کو حتمی گنتی سے خارج کر سکتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکی صدر کا انتخاب ووٹوں کی اکثریت سے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں سے ہوتا ہے۔

الیکٹورل کالج کے تمام ممبران کو 14 دسمبر کو اپنی اپنی ریاستوں میں اکٹھے ہو کر صدر کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر یہ معاملہ چھ جنوری تک بھی حل نہیں ہوتا تو پھر کانگریس اس کا عبوری فیصلہ کرے گی۔ ایوان نمائندگان صدر کا فیصلہ کرے گا جبکہ سینیٹ نائب صدر کا فیصلہ کرے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دو مختلف جماعتوں سے صدر اور نائب صدر دیکھ سکتے ہیں، صدر جو بائیڈن اور نائب صدر مائیک پینس۔ لیکن اتنی جلدی نہ کریں۔

ایوان نمائندگان میں ہر ریاست کو ایک ووٹ ملے گا اور جس شخص کو 26 ووٹ مل جائیں وہ صدر منتخب ہو جائے گا۔

لیکن میتھیو ویل کا کہنا ہے کہ صورتحال اس سطح پر تب ہی پہنچ سکتی ہے جب ہر چیز خراب ہو جائے اور امیدواروں میں مقابلہ بہت قریب کا ہو۔

اگر ریاست ہی کامیاب امیدوار کا فیصلہ نہ کر پائے تو؟

اگر ریاست یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ریاست کے الیکٹورل ووٹ کس جماعت کو جائیں گے تو پھر کیا ہو گا۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ ایک جماعت یہ کہے کہ ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی ہوئی ہے۔

اس وقت نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا، مشیگن اور وسکونسن میں مختلف حکومتیں موجود ہیں یعنی ڈیموکریٹ پارٹی کا گورنر اور ریاستی اسمبلی میں رپبلکن پارٹی کی اکثریت۔

ایسی صورتحال میں ریاستی قانون ساز اسمبلی گورنر سے مختلف راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی الیکٹورل لسٹ مہیا کر سکتی ہے۔ امریکی تاریخ میں 1876 میں ایسا ہو چکا ہے۔

پھر کانگریس فیصلہ کرے گی کہ اسے کس کی، ریاستی اسمبلی یا گورنر کی الیکٹورل لسٹ کو صحیح ماننا ہے۔

اگر کانگریس کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں اتفاق ہو جاتا ہے تو جھگڑا ختم۔ لیکن اگر کانگریس بھی منقسم ہے تو پھر کیا ہوگا اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں وفاقی قانون گورنر کی الیکٹورل لسٹ کے حق میں ہے۔

آخری ڈیڈلائن

کچھ بھی ہو جائے، آئین کے مطابق 20 جنوری کو نئی صدارتی مدت کا آغاز ہونا ہے۔ اس روز دوپہر تک کسی شخص کو بطور صدر حلف لینا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تسلسل کے منصوبے پر عمل ہوگا یعنی ایوان نمائندگان صدر کا اور سینیٹ نائب صدر کا عبوری انتخاب کرے گی۔

لیکن یہاں بھی ایک موڑ ہے۔ اگر ایوان نمائندگان صدر کا انتخاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور ایوان میں تعطل برقرار ہے لیکن سینیٹ نائب صدر کا انتخاب کر لیتی ہے، تو پھر نائب صدر ہی صدر بن جائے گی یا جائے گا۔

اگر ایوان نمائندگان کی طرح سینیٹ میں بھی تعطل ہے تو پھر ایوان نمائندگان کی سپیکر (یعنی نینسی پلوسی) صدر بن جائیں گی۔

کیا پہلے کبھی ایسا ڈرامہ دیکھا گیا؟

ابھی تک سن 2000 میں جب جارج بش اور ایلگور کے مابین جھگڑا پڑا تو سپریم کورٹ نے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا، جسے ایلگور نے مان لیا اور جارج بش وائٹ ہاؤس پہنچ گئے۔

ایلگور اور جارج بش کے مابین سخت مقابلہ تھا۔ ایلگور نے مجموعی طور پر جارج بش سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن الیکٹورل کالج میں مقابلہ بہت قریب کا تھا۔ معاملہ فلوریڈا میں پھنس گیا کہ اس کے 25 الیکٹورل ووٹ کس کے حق میں جاتے ہیں۔

دونوں امیدواروں کے ووٹوں میں فرق اتنا کم تھا کہ دوبارہ گنتی کا عمل خود بخود شروع ہو گیا۔ ایلگور کی ٹیم نے چار کاؤنٹی میں ہاتھ سے ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا جسے بش کی ٹیم نے چیلنج کیا۔

کچھ ہفتوں بعد امریکہ کی سپریم کورٹ نے پانچ چار کی اکثریت سے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے ان ججوں نے صدر بش کے حق میں فیصلہ دیا تھا جنھیں رپبلکن پارٹی کے دور میں جج بنایا گیا اور چار ججوں نے ایلگور کے حق میں فیصلہ دیا جنھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے دور میں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنصدر ٹرمپ کے حامی مشیگن میں مظاہرے کر رہے ہیں

اس کے علاوہ دو اور مثالیں بھی موجود ہیں۔

1876 کا واقعہ

1876 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیموئیل ٹلڈن اور رپبلکن پارٹی کے رتھرفورڈ ہیز کے مابین مقابلہ تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو جیت کے لیے صرف ایک اور الیکٹورل ووٹ کی ضرورت تھی۔

قانون سازوں نے صدر کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن نے ایک سمجھوتے کے تحت صدر کا انتخاب کیا۔ اس سمجھوتے کے تحت رپبلکن پارٹی کے امیدوار رتھرفورڈ ہیز جنوبی ریاستوں کے ڈیموکریٹ الیکٹورلز کی مدد سے ایک ووٹ کی اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے اور یہ معاملہ صدر کے حلف برداری کی تقریب سے صرف دو روز پہلے حل ہوا۔

1824 کا واقعہ

1824 میں جس شخص نے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ اور سب سے زیادہ الیکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کیے وہ صدر نہ بن سکا۔

اینڈریو جیکسن نے اپنے حریف جان کوئنسی ایڈم کو بظاہر تھوڑے سے مارجن سے ہرا دیا لیکن چونکہ کوئی امیدوار بھی مطلوبہ الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکا تو معاملہ کانگریس کے پاس پہنچ گیا۔

اس وقت کے سپیکر ہنری کلے اینڈریو جیکسن کو پسند نہیں کرتے تھے، تو انھوں ایک سودے بازی کے ذریعے جان کوئنسی ایڈم کو صدر منختب کروایا۔ اس معاہدے کو تاریخ میں ’کرپٹ بارگین‘ یعنی بدعنوان سودے بازی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔

سپیکر ہنری ایڈم نے جان کوئنسی ایڈم کو صدر بنوانے کے لیے ایک ڈیل کی تھی اور اس ڈیل کے تحت وہ امریکہ کے وزیر خارجہ بنے۔

Exit mobile version