لاہور میں بدھ کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی کے بعد ایک کسان کی ہلاکت کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ لاہور میں کسان اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ مظاہرہ کسان اتحاد کی کال پر منعقد کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ملک اشفاق لنگڑیال بدھ کو لاہور میں مظاہرے کے دوران زخمی ہوئے تھے اور جمعرات کی شام دم توڑ گئے۔
پنجاب حکومت کے ترجمان کے مطابق میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے جو ان کی موت سے متعلق وجوہات کا تعین کرے گا کہ آیا موت تشدد سے واقع ہوئی یا اس کی طبعی وجوہات تھیں۔
کسانوں کے مطابق ان کے متعدد ساتھی ابھی بھی زخمی، گرفتار یا لاپتہ ہیں۔
ہلاک ہونے والے کسان ملک اشفاق لنگڑیال کے چھوٹے بھائی ملک امتیاز لنگڑیال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’غریب کسانوں کے لیے بات کرنا اتنا بڑا جرم تو نہیں تھا جس میں میرے بھائی کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا ہے‘۔
ملک امتیاز کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی ملک اشفاق اپنے آبائی علاقے وہاڑی سے بڑا جلوس لے کر لاہور گئے تھے۔
لاہور میں خطاب کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے کسان ملک اشفاق لنگڑیال کے یہ الفاظ تھے کہ ’بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اب ہم جیسے چھوٹے درجے کے کسانوں کا گزارا نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے میں غریب کسان کیا کر رہے ہوں گے؟ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے سب زمینداروں اور کسانوں کو میدان میں آنا چاہیے۔‘
ہلاک ہونے والے کسان ملک اشفاق لنگڑیال کے بھائی کے مطابق ان کی لاش تو انھیں مل گئی ہے مگر اب بھی ان کے کئی عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔
کسان اتحاد کے جنرل سیکرٹری ملک ذوالفقار اعوان نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے کسانوں پر بے رحمانہ تشدد کیا تھا۔ ’اس موقع پر کسانوں پر کیمیکل ملا ہوا پانی پھینکا گیا تھا، جس سے کئی کسان انتہائی زخمی ہوئے ہیں‘۔
ہلاک ہونے والے ملک اشفاق لنگڑیال کون تھے؟
ملک اشفاق لنگڑیال کا تعلق ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے ہے۔ ان کا ایک بڑے زمیندار خاندان سے تعلق تھا۔ لنگڑیال برادری آباؤ اجداد کے زمانے سے ہی اپنے علاقے میں زمینداری کے پیشے سے منسلک ہیں۔
ملک اشفاق لنگڑیال کسان اتحاد وہاڑی کے فنانس سیکریٹری تھے۔ وہ کئی دہائیوں سے کسانوں کے حقوق کے لیے سر گرم اور فعال کردار ادا کر رہے تھے۔
انھوں نے سوگواروں میں بیوہ اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ بیٹی دسویں کلاس کی طالبہ ہے۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
کسان اتحاد کے جنرل سیکرٹری ملک ذوالفقار اعوان کا کہنا تھا کہ ملک اشفاق لنگڑیال نے مظاہرین سے تین چار مرتبہ خطاب کیا تھا۔
جب مظاہرین اور پولیس کے درمیاں ہنگامے شروع ہوئے تو ملک ذوالفقار اعوان اس وقت موقعے پر موجود تھے اور سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
انھوں نے آنکھوں دیکھا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے ’پولیس نے لاٹھی چارج کے ساتھ شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی مگر جب کسان ڈٹے رہے تو پانی کی توپ سے پانی کی انتہائی تیز دھار پھینکی گئی‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پانی اتنا تیز تھا کہ لوگ اس کے ساتھ بہہ رہے تھے‘۔
ان کے مطابق ’میں نے خود دیکھا کہ پانی پھینکے جانے سے ملک اشفاق لنگڑیال گر چکے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موقعے پر بھگڈر مچی ہوئی تھی۔
’اس بھگڈر میں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کون کہاں ہے۔ جب سارا ہنگامہ تھما تو اس وقت ملک اشفاق لنگڑیال کئی لوگوں کی طرح لاپتہ ہوچکے تھے‘۔
ان کے مطابق وہ جمعرات کی صبح بے ہوشی کی حالت میں جھاڑیوں سے ملے اور اسی حالت میں دم توڑ گئے تھے۔
بیٹی سے تحائف لانے کا وعدہ کیا تھا، لاش ملی تو گھر میں کہرام مچ گیا
ملک امتیاز لنگڑیال نے بتایا کہ وہ چار بھائی تھے جس میں ملک اشفاق لنگڑیال سب سے بڑے تھے اور ’زمینداری اور خاندان کے تمام معاملات وہ خود ہی دیکھتے تھے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک اشفاق لنگڑیال کی صرف ایک ہی بیٹی ہے جس سے ’وہ بے انتہا پیار کرتے تھے‘۔
ملک امتیاز لنگڑیال نے بتایا کہ وہ جب مظاہرے کے لیے لاہور جا رہے تھے تو اس وقت انھوں نے بیٹی کے علاوہ اپنے بھتیجیوں اور بھتیجوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے لیے لاہور سے تحائف لائیں گے۔ ان کے مطابق جب ان کے ’بھائی کی لاش ملی تو گھر میں جیسے کہرام مچ گیا‘۔
’اب ان کی بیٹی بار بار مجھ سے اپنے والد کا پوچھ رہی ہے اور میرے پاس کوئی بھی جواب نہیں ہے۔‘
وہاڑی سے صحافی حافظ عبدالمالک نے بتایا کہ ملک اشفاق لنگڑیال کسان اتحاد کے رہنما تھے۔ وہ سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اکثر و بیشتر کسان تحریکوں اور مظاہروں میں فعال رہتے تھے جس میں واپڈا کی جانب سے بلوں کے خلاف بھرپور احتجاج بھی شامل تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس وقت پورے ضلع وہاڑی میں شدید اضطراب اور غم پایا جارہا ہے۔
’لوگ اشتعال میں ہیں، میت کا انتظار ہورہا ہے۔ ان کے آبائی علاقے بورے والا میں درجنوں لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں‘۔
ملک اشفاق لنگڑیال کی ہلاکت پر حکومت کا ردعمل
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وجوہات کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں کل (بدھ کو) نہیں بلکہ آج (جمعرات) دوپہر کو دل کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تھا۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
کسان رابطہ کمیٹی کے رہنما فاروق طارق نے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں تحریک شروع کر رکھی ہے۔
اِس وقت حکومت نے کسانوں سے گندم کی خریداری کی قیمت 1400 روپے مقرر کر رکھی ہے۔
ان کے مطابق یہ ہی گندم مارکیٹ میں 2300 سے 2500 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت گندم کی کم از کم قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر کرے۔
اسی طرح گنا کی قیمت خرید دو سو روپے فی من مقرر ہے۔
کسان مطالبہ کر رہے ہیں کہ گنے کی قیمت خرید دو سو بیس روپے فی من مقرر کی جائے۔
فاروق طارق کا کہنا تھا کہ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسان جو فصل اگاتے ہیں اس کو فروخت کر کے ان کے اس فصل کے اخراجات پورے نہیں ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا موجودہ حکومت سے لے کر ہر دور کی حکومت نے ’کسانوں سے مناسب قیمت خرید مقرر کرنے کے وعدے کررکھے ہیں مگر کسی نے بھی اپنے وعدے پر عملدر آمد نہیں کیا تھا‘۔
وہ کہتے ہیں ’اب کسان اپنی جیب سے خرچ کر کے تو فصل نہیں لگا سکتے‘۔
ان کے مطابق یہ کسانوں کا ایک جائز مطالبہ تھا جو پورا ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ ’کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہو گا مگر یہاں پر تو صورتحال یہ بن چکی ہے کہ کسان کی رگوں سے خون نچوڑا جارہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پر مظاہرہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر اس مظاہرے پر تشدد اور پھر قیمتی انسانی جان کا ضائع ہونا اور کئی لوگوں کا زخمی، گرفتار اور لاپتہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔
’اس پورے ملک کے کسان خاموش نہیں رہیں گے اور پورے ملک میں احتجاج کی کال دی جائے گی۔‘
کسانوں کے مطالبات پر حکومت کا ردعمل
پنجاب کے صوبائی وزیر قانون و سوشل ویلفیئر راجہ بشارت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اہم فیصلوں میں کسانوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور ان کی سفارشات کو پنجاب کی زرعی پالیسی میں بھی شامل کیا جائے گا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو کسان بورڈ پاکستان کے نمائندوں سے ڈی سی آفس میں مذاکرات کرتے ہوئے کیا۔
سیکریٹری زراعت وقاص محمود احمد اور ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض بھی اس موقع پر موجود تھے۔ کسان بورڈ نے مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی پر احتجاج کا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے۔
راجہ بشارت نے مزید کہا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار خود بھی ایک کسان ہیں، ان سے بہتر اپنے کسان بھائیوں کے مسائل کو کون سمجھ سکتا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت کسانوں کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’کسان بھائی حکومت پر اعتماد کریں اور احتجاج کے ذریعے عوام کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں‘۔
انھوں نے یقین دلایا کہ کسانوں کے تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔‘