دبئی میں جہاں راتوں راتوں بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دی جاتی ہیں وہاں لوگ اب ان عمارتوں پر نگاہ تک نہیں ڈالتے۔
لیکن یہاں ایک ایسا زیرِ تعمیر منصوبہ بھی ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ ہے میوزیم آف دی فیوچر یا مستقبل کا عجائب گھر، جو ستونوں کے اوپر ڈرائیور کے بغیر چلنے والی میٹرو کے لیے بنائے گئے ٹریک پر بنایا جا رہا اور یہ شہر کے مالیاتی مرکز کے قریب ہے۔
عجائب گھر کا ڈھانچہ 2400 ترچھے ایک دوسرے سے جڑے سٹیل کے ستونوں سے بنایا گیا جو نومبر 2018 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اب اس کے بیرونی حصے کے پینلز کو جوڑا جا رہا ہے۔ دبئی میں 20 اکتوبر 2020 میں ’ورلڈ ایکسپو‘ یا عالمی نمائش کے انعقاد کے موقع پر اس عجائب گھر کا افتتاح کر دیا جائے گا۔
تعمیراتی ماہرین اس عجائب گھر کی جدید طرز پر مبنی ہیئت کو ’ٹورس‘ کہتے ہیں۔ ٹورس کسی ڈونٹ کی طرح ایک پھولا ہوا دائرہ ہوتا ہے جو بیچ میں سے خالی ہوتا ہے، لیکن اس کو اگر ’ہولا ہوپ‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
مستقبل کے اس عجائب گھر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لیتھ کارلسن اسے آنکھ کے ڈیزائن جیسا قرار دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’جن لوگوں نے اس عمارت کو نہیں دیکھا، ہمارے لیے انھیں اس کا ڈیزائن سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی چیز نہیں جس سے اس کی مشابہت ہو۔‘
ایک مقامی تعمیراتی کمپنی کی ایک مقامی کمپنی کِلا ڈیزائن نے سنہ 2015 میں اس عجائب گھر کی عمارت کے نقشے کی منظوری کے لیے کروائے گئے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کمپنی کے مطابق اس عمارت کا ٹھوس حصہ جدید دور کے علوم کا مظہر ہے اور اس کے اندر کا خلاء اس سب کی عکاسی کرتا ہے جو ہم اب تک نہیں جانتے، یعنی مستقبل۔
اس عمارت کی صرف غیر معمولی ہیئت ہی اس کو متحدہ عرب امارات میں بنائی گئی سینکڑوں دیگر عمارتوں سے ممتاز نہیں کرتی۔ 78 میٹر اونچے اس فولادی ڈھانچے کے بیرونی سطح پر لگائے جانے والے پینلز پر عربی زبان میں خطاطی کی گئی ہے جو پینلز لگائے جانے پر ساتھ ساتھ پڑھی جانے لگی ہے۔
عجائب گھر کے ڈائریکٹرز نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ تحریر کس بارے میں ہے، لیکن یہ بات عام ہے کہ یہ متحدہ عرب امارات کے حکمران نائب صدر اور وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم جو کے ایک شاعر بھی ہیں، ان کے اشعار ہیں۔
یہ عربی خطاطی عمارت کے لیے کھڑکیوں کا کام بھی کرے گی جن سے گزر کر دن کے وقت سورج کی روشنی اس کے ستونوں کے بغیر بنائے گئے اندرونی حصوں کو منور کرے گی اور رات کے وقت عمارت میں لگائی جانے والی ایل ای ڈی لائٹس جن کی مجموعی لمبائی 14 کلومیٹر بنتی ہے، باہر سے دیکھنے والوں کے لیے ایک سحر انگیز منظر پیش کریں گی۔
اس عمارت کے غیر روایتی ڈھانچے اور اس کی بیرونی سطح پر خطاطی نے اسے دنیا کے پیچیدہ ترین تعمیراتی منصوبوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
اس تعمیراتی منصوبے کی کنسلٹنٹ فرم بوروہیپولڈ انجینئرنگ کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل پیرامیٹرک ڈیزائن اور بلڈنگ انفارمیش ماڈلنگ یا بی آئی ایم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پیرامیٹرک ڈیزائن الگورتھم کی سوچ پر قائم ہے جس میں مخصوص عوامل میں ردوبدل کر کے نتیجے کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ تعمیراتی ماہرین کے لیے ایک سہ جہتی تعمیراتی ٹیکنالوجی ہے جو جس کے ذریعے تعیمراتی ماہرین ڈیزائننگ میں اشتراک کر سکتے ہیں اور منصوبوں کو دستاویزی صورت دے سکتے ہیں۔
ویسے تو بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ ایک طویل عرصے سے موجود ہے لیکن تعمیراتی صنعت نے اس کو اپنانے میں بہت وقت لیا ہے۔
اس میوزیم کے لیے بوروہیپولڈ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ٹوبیاس بولے کا کہنا ہے ’ہم جانتے تھے کہ ہمیں سب کچھ ڈیجیٹل طریقے سے کرنا ہوگا کیونکہ آپ ہر چیز جیومیٹری کے ذریعے بیان نہیں کر سکتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس نے کچھ اور ہی بن جانا تھا، صورت اتنی خوش نما نہ رہتی اور اسے تعمیر کرنا کہیں زیادہ مشکل ہوتا۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی اس عمارت کا ڈھانچہ بنانا ممکن ہوا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پراجیکٹ پر کام کرنے والی پوری ٹیم جو کہ روایتی ’ٹو ڈی‘ نقشوں پر کام کرنے کی عادی تھی، کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں اور جدید تکینک اور علم سے اپنے آپ کو آشنا کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہر ایک کو بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ ٹیکنالوجی سیکھنی پڑی اور اپنے روز مرہ کے کام کے انداز کو بدلنا پڑا۔‘
کمپیوٹیشن یعنی حساب کا پہلا کام اس عمارت کی تصوراتی شکل میں باریک تبدیلیاں کرنا تھا تاکہ اس کے پیچیدہ خم جہاں تک ممکن ہو، دور کیے جا سکیں۔
ملی میٹرز جتنی باریک ان چیزوں کو دور کرنے میں بہت وقت لگا اور انھیں بظاہر انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن ان کی وجہ سے بعد میں پیدا ہونے والی بیشتر پیچیدگیوں کو پہلے ہی دور کر لیا گیا۔
اس کے بعد مرحلہ سامنے کے حصے اور فولادی ڈھانچے کے ڈیزائن کا آیا جن کو ترچھی اور باہم ایک دوسرے میں پیوست سریوں کی وجہ سے ’ڈایاگرڈ‘ کہا جاتا ہے۔ اس پیچیدہ ڈھانچے اور غیر معمولی شکل کا عملی حل ڈایاگرڈ ہی تھا جسے سٹیل اور سیمنٹ کے اوپر ترجیح دی گئی۔
ڈایاگرڈ کی لاتعداد ممکنہ ترتیبوں میں سے بہترین ترتیب پر پہنچنے کے لیے بوروہیپولڈ نے اپنا خود کا الگورتھم تیار کیا۔
پیرامیٹرک ترتیب کی سکرپٹ لکھنا ایک طویل مرحلہ تھا لیکن اس کی وجہ سے بوروہیپولڈ کے لیے نتائج پر اثرانداز ہونا آسان ہوگیا، مثلاً جیسا کہ سٹیل کے ستونوں کا قطر یکساں ہونا اور ان کا مارکیٹ سے قابلِ خریداری ہونا۔ بولے کہتے ہیں کہ ’یہ سب ہمارے لیے بہت نیا تھا۔‘
اس سارے عمل کا نتیجہ ایسے مؤثر ڈایاگرڈ کی صورت میں نکلا جس میں جوڑوں کی تعداد، سٹیل کے سریوں کا قطر اور استعمال ہونے والے سٹیل کا کل وزن، سب کچھ کم سے کم مگر مؤثر رکھا گیا۔
بوروہیپولڈ کے مطابق اس سب سے کلائنٹ، ٹھیکیدار، اور تعمیراتی کمپنی، سبھی کے وقت اور پیسے کی بچت ہوئی۔
ٹھیکیدار فرم ’بیم ہِگز اینڈ ہِلز‘ اور تعمیرات کے لیے فولادی ڈھانچے بنانے والی کمپنی ’ایورسندائی انجینئرنگ‘ نے پھر تعمیراتی کام شروع کرنے سے پہلے کنسٹرکشن سیکوئنسنگ اینالیسس یعنی تعمیراتی مرحلے کی ترتیب اور عمارت کے ڈھانچے کو جوڑنے کے عمل کا جائزہ لیا، جس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ مختلف اجزا کو جوڑنے کے دوران وزن اور دباؤ کن حصوں پر زیادہ آئے گا اور کس طرح تبدیل ہوتا رہے گا۔
ٹوبیاس بولے کے مطابق ’کنسٹرکشن سیکوئنسنگ اینالیسس ہمیشہ ہی پراجیکٹ کے لیے بڑا رسک ہوتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آپ کو بہت سی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن اس منصوبے پر تعمیراتی کام کے شروع ہونے سے پہلے ڈایاگرڈ کی مؤثر ماڈلنگ کی وجہ سے تعمیر کے دوران کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ماضی میں تعمیراتی منصوبوں سے سیکھے گئے سبق اور نئی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے درپیش مشکلات کو حل کرنے کے نئے طریقے نکالے تاکہ ان مشکلات کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
انھوں نے کہا کہ ڈایاگرڈ کو سہارا دینے والے کنکریٹ کے گول بیم اور ٹاور کو تعمیر کرنے کے بعد سٹیل کے ڈھانچے کو مکمل کرنے میں 14 ماہ کا عرصہ لگا۔
اس سارے عمل کے دوران لیزر کے ذریعے سکیننگ کی جاتی رہی تاکہ اس کا موازنہ تھری ڈی ماڈل سے کیا جاتا رہے۔
مفصل تھری ڈی ماڈلنگ کی بدولت ان تمام روایتی مشکلات کو بھی دور کر لینے میں بہت مدد ملی جو مکینیکل، الیکٹریکل، پلمبنگ (ایم ای پی) اور دیگر سہولیات لگانے کے وقت پیش آتی ہیں۔
ٹوبیاس بولے نے کہا کہ ’ایم ای پی تعمیر کے آخری مراحل میں اکثر منصوبے کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔ ہمیں لگا تھا کہ یہ منصوبہ مکمل کرنے کے کام میں سب سے بڑا خطرہ ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور سب کچھ بہت آسانی سے ہوگیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیجیٹل ماڈلنگ کے مرحلے میں آپ کے دل کو جو بھی صدمے برداشت کرنے تھے، آپ نے کر لیے۔ تو اگر آپ اپنے ڈیزائن پر سختی سے کار بند رہتے ہیں تو آپ کو وہی نتیجہ ملتا ہے جو ماڈل میں آپ نے بنایا ہے۔‘
ٹو ڈی سے تھری ڈی ماڈلنگ پر چلے جانے سے جو اصل تبدیلی آئی ہے وہ یہ کہ ایم ای پی کا کام منصوبے میں بہت پہلے ہی شروع ہوگیا تھا چنانچہ منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہونے سے قبل کافی سارے مسئلے حل کر لیے گئے تھے، اسی طرح بی آئی ایم ماڈلز کی لیزر کے ذریعے عکاسی نے بھی کافی مدد کی۔
میوزیم کے بیرونی حصے پر 60 سے 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ عمارت کے باہر صرف چند ہی مزدور نظر آ رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد سے بیرونی حصے پر لگائے جانے والے ہر پینل کی تیاری کے لیے درکار انجینیئرنگ کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
اس سات منزلہ عمارت کی پیچیدہ جیومیٹری، اور اس پر کی جانے والی خطاطی کی وجہ سے عمارت پر لگایا جانے والا ہر فائبر گلاس کا پینل دوسرے پینل سے مختلف ہے۔
1024 پینلوں میں سے ہر ایک پینل کو علیحدہ سانچے میں ڈھالا اور تیار کیا جاتا ہے جس کے بعد ان پر سٹین لیس سٹیل کی فنشنگ اور پالش کی جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ بہت زیادہ محنت طلب کام تھا، یہاں تک کہ ایک دن میں صرف چھ سے سات پینل ہی بنتے تھے۔ بولے نے کہا کہ پینل سپلائی کرنے والی کمپنی عفان نے ایک سال تک مختلف تجربات کیے، تب جا کر پینلوں کی تیاری ممکن ہو سکی جس میں کمپیوٹر کے ذریعے مشین ٹولنگ استعمال کی گئی۔
پینلوں کے لگانے میں بھی ڈیجیٹل ماڈلنگ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہر پینل کی شکل دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کو اس انداز میں جوڑنا تھا کہ خطاطی کا بہاؤ یا ربط برقرار رہے۔
خطاطی کے الفاظ کی پوزیشن اور ان کے سائز کے تعین کے لیے پیرامیٹرک سکرپٹنگ استعمال کی گئی تاکہ عمارت کے اندر داخل ہونے والی قدرتی روشنی، سورج کی حدت سے عمارت کی گرمائش میں اضافے، ایئر کنڈیشننگ کے لوڈ اور خوبصورتی کے درمیان بہترین توازن حاصل کیا جاسکے، اور اس کے ساتھ ساتھ ماحول دوست عمارتوں کی سب سے بلند ریٹنگ لیڈ پلاٹینم حاصل کی جا سکے۔
کیونکہ عمارت کے ڈیزائن کا ہر ایک پہلو دوسرے سے مربوط تھا اس لیے اگر خططی میں کوئی ردوبدل کرنی پڑ جاتی تو اس کا ڈایاگرڈ اور ایم ای پی پر بھی اثر پڑنا تھا۔
بولے کہتے ہیں کہ ’یہ ڈایاگرڈ کے کام سے بھی زیادہ مشکل تھا کیونکہ ہم بیک وقت چار سے پانچ مساوات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تمام ٹکڑوں میں مسلسل ہم آہنگی رکھنی تھی۔ چند ایک پینلوں کو لگانے میں ان کی پیچیدہ صورت کی وجہ سے تین سے چار دن کو وقت لگا۔‘
انھوں نے کہا کہ جب پہلی سطح کے پینلوں کو لگانے کا کام مکمل ہوا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ ایم ای پی کی طرح اس مرحلے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی اور ہر کام خوش اسلوبی سے مکمل کر لیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا پینل نہیں تھا جو اپنی جگہ درستگی سے نہ بیٹھا ہو یا اس پر لکھے گئے لفظ کی ہجے غلط ہوئی ہو۔‘
شروع سے ہی یہ عزم مصمم کیا گیا تھا کہ اس عمارت کو ’لیڈ پلاٹینم‘ ریٹنگ ملے۔ اس عمارت میں جدید بلڈنگ کنٹرول سسٹم، باتھ رومز سے نکلنے والے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے سسٹم، اور کم توانائی استعمال کرنے والی لفٹس لگائی جائیں گی جبکہ اس کی توانائی کی ضروریات کو عمارت سے دور نصب شمسی پینلز کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
لوگ یہ میوزیم گھومتے ہوئے اپنی الیکٹرک گاڑیاں چارج کر سکیں گے جبکہ اس میں پارکنگ کی محدود جگہ رکھی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔
عجائب گھر میں ہونے والی نمائشوں میں پائیدار مستقبل پر زور دیا جائے گا۔ چند منزلیں صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے اور خلا، صحت عامہ اور نشونما کے لیے وقف ہوں گی۔ اس عجائب گھر میں عالمی حدت کے نازک ماحولیاتی نظام پر پڑنے والے اثرات اور ان سے بچنے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
اس عجائب گھر میں ان موضوعات کا احاطہ بھی کیا جائے گا کہ خلا میں شمسی توانائی حاصل کرنے، شہاب ثاقبوں کی کان کنی سے کس طرح انسانیت کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے جبکہ اس کا ایک حصہ روحانیت کے موضوع کے لیے مختص کیا جائے گا۔
کارلسن کا کہنا ہے کہ ’اس میں صرف مشینیں اور آلات ہی نہیں بلکہ مستقبل کی طرف انسانی سفر کی کہانی بھی توجہ دی جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ انسانیت کو درپیش بڑے مسائل اور ان کے حل کے ممکنہ طریقوں جو اپنائے جا سکتے ہیں ان پر بھی توجہ رکھیں گے۔‘
جدید ٹیکنالوجیز جن میں ’ورچوئل ریئلٹی‘ اور ’اگامینٹڈ ریئلٹی‘ کا استعمال کر کے عجائب گھر میں آنے والوں کو مستقبل میں جھانکنے کا موقع ملے گا جس طرح کا تجربہ انھیں کسی بہت بڑے تھیٹر میں ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ روایتی عجائب گھروں جیسا نہیں ہو گا جہاں آپ شیشے کے بکسوں اور الماریوں میں سجی قدیم تہذیبوں کی قیمتی اشیاء یا نوادارت دیکھتے ہیں۔ ’زیادہ تر گیلریوں میں کوئی لیبلز نہیں ہوں گے۔ یہ ایسا تجربہ ہوگا جس میں دیکھنے والا ڈوب جائے گا، اور وہ اسے کسی اور کے کام کے طور پر دیکھنے کے بجائے خود کو اس میں معاون سمجھے گا۔‘
انھیں امید ہے کہ یہ مستقبل کا ایک پرامید نکتہ نظر پیش کرے گا، بجائے اس تاریک مستقبل کے جس کی پیشگوئی ان کے مطابق انٹرٹینمنٹ کی صنعت کرتی رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ لوگ کس طرح اپنے سامنے موجود چیلنجز سے تخلیقی انداز میں نمٹ سکتے ہیں اور اسی دوران اپنے سامنے آنے والے چیلنجز کے بارے میں حقیقت پسند ہوسکتے ہیں۔’
اس میوزیم کی ایک منزل مستقبل قریب میں متوقع آلات کی نمائش کرے گی مگر بنیادی توجہ اس ٹیکنالوجی پر ہوگی جوکہ انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو، پھر چاہے یہ غذائی یا پانی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دے کر ہو یا ٹرانسپورٹ کو مزید ماحول دوست بنا کر۔
مستقبل کے اس عجائب گھر میں ہر سال 10 لاکھ لوگوں کی آمد کی توقع کی جا رہی ہے جن میں نصف سے زیادہ غیر ملکی سیاح ہوں گے۔
تعمیر کا ابھی بہت سا کام باقی ہے اس سے پہلے کہ اس سال کے آخر تک اس کے اندر کی تزئین و آرائش اور نمائش کی اشیاء اور طریقوں پر توجہ دی جائے۔
مگر ٹیم کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یہاں ہونے والی نمائشیں بھی اگر اس عمارت سے زیادہ اثرانگیز نہیں تو کم از کم اتنی ہی اثر انگیز ضرور ہونی چاہییں۔
مگر اس کے باوجود بولے کو امید ہے کہ یہ میوزیم اس بات کی مثال ہوگا کہ ایک جدید عمارت کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس کی غیر روایتی شکل کا مطلب ہے کہ ہر چیز کی ماڈلنگ، تجزیہ اور اس میں باریک تر تبدیلیاں پہلے سے ہی کر لی گئی ہیں پھر چاہے یہ آگ کی صورت میں انخلا ہو، عمارت سے دھوئیں کا اخراج، یا پھر بیرونی حصے کی صفائی۔
عمارت میں لوگ کس طرح چلیں پھریں گے، اس کے لیے پیرامیٹرک ماڈلنگ استعمال کی گئی تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ قطاروں میں لگنے والا وقت کیسے کم کیا جا سکتا ہے، راہداریوں کو کتنا چوڑا رکھنا ہے، یہاں لفٹس کی تعداد کتنی رکھنی ہے، یہاں باتھ رومز کا ڈیزائن کیا ہوگا اور ٹکٹس ہال کا لے آؤٹ کیا ہوگا۔
اور ڈیزائن اور تعمیراتی مرحلوں کا تمام ڈیٹا میوزیم کے منتظمین کو جائے گا تاکہ اسے مؤثر انداز میں چلایا جا سکے۔
بولے کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اگلے منصوبے کے لیے کئی سبق سیکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر ہم نے سالوں تک بات کی ہے، یعنی ایم ای پی، پائیداری، ہم آہنگ ڈھانچہ، اور مؤثر حل۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ کلائنٹ کے پیسے بچائے جائیں، بلکہ اس لیے بپی ہے کہ لوگوں کی صحت، بہبود اور ان کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس واحد پراجیکٹ کے دوران وہ ساری چیزیں تبدیل ہوگئی ہیں جو ہم تعمیرات کے بارے میں جانتے تھے، کیونکہ اس منصوبے کی ضرورت ہی یہی (جدت) تھی۔ ورنہ ہم اس کی ہیئت کی وجہ سے اٹھنے والے چیلنجز سے نمٹ نہ پاتے۔ اس نے ہمارے کام کرنے کے انداز کو بدل دیا ہے اور یہ صنعت کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔’
اپنے افتتاح سے قبل ہی لگ رہا ہے کہ دبئی کا میوزیم آف دی فیوچر مستقبل کی تعمیراتی ٹیکنالوجی کا مظہر بن چکا ہے۔