آل پارٹیز کانفرنس سے کم و بیش 10روز پہلے اسلام آباد کے جڑواں شہر میں ایک اہم اجلاس جاری تھا۔ لمبی سی میز پر بیٹھے معمول کی سرکاری گفتگو کرتے افسران میں سے ایک نے اچانک عمران خان حکومت کی نااہلیوں کا تذکرہ شروع کردیا۔
دیکھا دیکھی دوسرا، تیسرا اور چوتھا سرکاری افسر بھی حکومت پر تنقید کرتے میدان میں آ گیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ اِس سطح کے سرکاری اجلاس میں حکومت کی نااہلیوں کا سرعام تذکرہ ہوا۔
اجلاس کی صدارت کرتے منصب دار نے سب کچھ سنا اور کچھ دیر میں اجلاس ختم ہو گیا۔
دس روز بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں اسلام آباد کی آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر گجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے جلسے منعقد ہوئے۔
کراچی کے علاوہ باقی تمام فورمز پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر کے چرچے زبان زدِ عام ہوگئے۔ اِن تقاریرکو کراچی میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے اغوا نے تقویت بخشی۔
میاں نواز شریف جو موقف اپنائے ہوئے ہیں وہ اُن کی جماعت کا کوئی بھی اور رہنما عوامی طور پر اپنانے سے گریزاں ہے لیکن مہنگائی اور حکومت کی نااہلیوں سے تنگ آئے لوگوں میں سابق وزیراعظم کابیانیہ آئے روز مقبول ہورہا ہے۔
اپوزیشن کی طرف سے ملک میں جلسوں کی صورت میں مچائی گئی ہلچل کے دوران چپکے سے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے دستخطوں سے سابق صدر آصف علی زرداری کی جعلی اکائونٹس کیس میں دوبارہ گرفتاری کا ایک پروانہ جاری کروایا گیا اور ساتھ ہی سابق صدر کو خاموشی سے اطلاع بھی بھجوادی گئی کہ اُنہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
زرداری بیمار تو پہلے ہی تھے لیکن شاید احتیاطی طور پر بارہ اکتوبر کو اسپتال بھی منتقل ہو گئے۔ ظاہر ہے اُنہیں گرفتار نہ کیا گیا اور پندرہ اکتوبر کو اُن کی ضمانت کی درخواست پر سماعت پانچ نومبر تک موخرٔ کردی گئی۔
یہ التوائی کارروائی اب بھی جاری ہے۔ میں نے اِس ساری کارروائی میں ملوث ایک حکومتی کردار سے پوچھا کہ وارنٹ کا اجرا اور پھر گرفتاری میں التوا، یہ آخر کیا ماجرا ہے؟ جواب آیا اپوزیشن اتحاد ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو جنوری میں توڑنے کے لئے ایک پیشگی حکمتِ عملی ہے اور کیا؟‘‘۔
واضح طور پر دکھ رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے پیپلز پارٹی کو نکالنے کے لئے آصف زرداری کی گرفتاری کے لئے جاری کیا گیا پروانہ وقت آنے پر بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
اِس کھیل کے پاکستان میں موجود سب سے اہم کردار مولانا فضل الرحمٰن سے بھی بات چیت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ پس پردہ مولانا کو سینیٹ انتخابات کے دوران مناسب شیئر دینا اور ساتھ ہی اُن کے اور انکے بھائی کیخلاف نیب میں کیسز پر تالا لگانے کے پیغامات دیے جارہے ہیں۔
ادھر برطانیہ میں بیٹھے نواز شریف سینیٹ انتخابات سے پہلے اسمبلیوں سے استعفوں کی صورت میں ایسی شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں عام انتخابات ناگزیر ہو جائیں۔
یہ بات اصل حکمرانوں کے علم میں بھی ہے اسی لئے خاموشی سے اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں ہیں۔
پس پردہ بھائو تائو کرنے اور مذاکرات کی پیشکشیں کرنے والوں کے رابطوں کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو کے رویوں میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے، ایسا نہیں کہ کسی نے کوئی ڈیل کرلی ہے بلکہ سب سوچ بچار میں مشغول ہیں۔
اسی لئے اپوزیشن کی تنقید اسٹیبلشمنٹ سے سکڑ کر عمران حکومت تک محدود ہو گئی ہے مگر اسٹیبلشمنٹ پریشان ہے کیونکہ تنقید میں نرمی اُس وقت تک پُراثر نہیں جب تک اپوزیشن کی سب سے بڑی آواز میاں نواز شریف براہِ راست بڑے افسران پر تنقید سے گریز نہیں کرتے۔ اِس مقصد کے لئے نواز شریف سے بات چیت کرنا ہوگی۔
میری اطلاع ہے کہ بالواسطہ روابط کے ایک سلسلے کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ اقتدار کے کھیل میں ہر کردار کے پاس سینیٹ انتخابات سے قبل کی ڈیڈ لائن ہے۔ ملک میں معاشی بحران کے باعث نئے انتخابات کا انعقاد فی الحال ممکن ہے، نہ مارشل لا کا نفاذ۔ بہت سی وجوہات کی بنا پر مارشل لا کے فوری امکانات موجود نہیں۔ کم از کم موجودہ فوجی قیادت کے دور میں ماورائے آئین ایسا کوئی اقدام ممکن نہیں۔
اگر ملک میں نئے انتخابات منعقد نہیں ہورہے اور مارشل لا کا بھی امکان نہیں تو باقی جو کچھ ہونا ہے وہ اِن دو لکیروں کے درمیان رہ کرہی کیا جائے گا۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام مہنگائی اور گورننس میں ناکامی سے جڑا ہوا ہے اور ان مسائل کو فوری حل کرنا بہرحال حکومت اور اسکے سرپرستوں کے بس کی بات نہیں۔
29اکتوبر کو پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھا قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھ رہا تھا۔ کارروائی معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ ملک میں حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتوں میں بیش بہا اضافے کا معاملہ زیر بحث آ گیا۔
اس پر وفاقی وزیر علی محمد خان حکومت کے دفاع میں میدان میں اترے۔ میرا خیال تھا کہ اس معاملے پر اپوزیشن بھرپورکردارادا کرے گی۔
اپوزیشن نے بات آگے بڑھائی بھی مگر توقع کے برعکس تین حکومتی ارکان قومی اسمبلی خواجہ شیراز، نورعالم خان اور ریاض فتیانہ نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور ایوان کے اندر کھڑے ہوکر اپنی ہی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
حکومتی ارکان شاز ہی حکومت پر سرعام تنقید کرتے ہیں۔ممکن ہے سینیٹ انتخابات تک اپوزیشن کو توڑنے کا بندوبست کرلیا جائے لیکن جب تک مہنگائی کا بندوبست نہیں ہوگا تب تک بحران گہرا ہوتا جائے گا اور لوگ اپوزیشن میں اس فرد یا جماعت کی طرف راغب ہوتے رہیں گے جو سرکاری بیانیے کو مسلسل ایمانداری سے آنکھیں دکھا رہا ہوگا۔
اپوزیشن کے پاس فوری بڑا وار کرنے کی ڈیڈ لائن تو سینٹ انتخابات سے ایک روز پہلے تک ہے مگر حکومت کے پاس حالات کنٹرول کرنے کی ڈیڈ لائن اس سے زیادہ مختصر ہے۔