پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری کو انڈیا کی صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولے اس سے پہلے کہ آر ایس ایس مسلمانوں کا ایسا قتل عام شروع کر دے، جس کے سامنے ماضی کے سب قتل عام چھوٹے لگیں گے۔
عمران خان نے یہ بات جمعرات کو ایک سوشل میڈیا صارف سترا وجین کی ٹویٹ کے رد عمل میں کی جس میں انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ارکان کو اس ٹویٹ کے مطابق انڈیا کی ریاست تلنگانا میں مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے پیغام میں لکھا کہ جب بھی کسی دوسری کمیونٹی سے نفرت کی بنیاد پر ہٹلر کی براؤن شرٹس اور آر ایس ایس جیسی ملیشیا وجود میں آتی ہیں تو انجام قتل عام ہوتا ہے۔‘
وزیراعظم کے اس بیان پر جہاں ان کی حمایت کی جا رہی ہے وہیں کچھ ٹوئٹر صارفین ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے آر ایس ایس کے خلاف پہلی بار آواز نہیں اٹھائی گئی۔
وزیراعظم کے اس بیان پر جہاں ان کی حمایت کی جا رہی ہے وہیں کچھ ٹوئٹر صارفین ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے آر ایس ایس کے خلاف پہلی بار آواز نہیں اٹھائی گئی۔
وہ جب بھی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی بات کرتے ہیں تو وہ آر ایس ایس کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔
رواں برس عمران خان نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ کشمیر کے عوام کے پیغام رساں کی حیثیت سے میں بین الاقوامی برادری کو فاشسٹ مودی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کرتا رہوں گا۔ مغربی دنیا نہیں جانتی کہ آر ایس ایس کا ایجنڈا جرمن نازیوں سے متاثر ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ’انڈیا میں آج کی حکومتی جماعت ہٹلر کی نازی پارٹی سے متاثر ہو کر بنی تھی۔ ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ یا تو مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیں یا پھر ان کو دوسرے درجے کے شہری کے حیثیت کے طور پر دیکھا جائے۔ جس کی مثال آج انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے ظلم سے صاف ظاہر ہے۔‘
عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی آر ایس ایس پر تنقید کی۔
آر ایس ایس کیا ہے؟
سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم ابتدا سے ہی ہندوتوا کی جانب مائل جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہی ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جیسی متعدد تنظیمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الک الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیموں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔
ان میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں اب اپنے ارکان کو لڑائی اور مسلح ٹکراؤ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی نوعیت ملیشیا جیسی ہے جن کا کردار انتخابات میں سماجی ٹکراؤ اور سیاسی مفاد کے حصول کے لیے دنگے فساد میں اکثر نظر آتا ہے۔
ان میں سے بعض تنظیموں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمراں جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ’گؤ رکشا‘ سمیتیوں اور ‘اینٹی رومیو’ سکواڈ جیسے پرتشدد گروپوں میں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کے ارکان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد اب لاکھوں میں ہے جو تنظیم کے سربراہ کی ایک آواز پر منظم طریقے سے فوجی ڈسپلن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔