ہمارے شاہ جی…
نوجوان رپورٹر نیا نیاپروفیشن میں آیا تھا۔ دوسرے تیسرے دن کوئی ایکسکلوسیو سٹوری نکال لاتا۔ اس روز بھی اس کی سٹوری صفحہ اوّل کا باکس آئیٹم تھی کہ ایڈیٹر نے بلالیا۔ ”یہ آج تم نے کیا خبر دیدی؟‘‘ جناب‘ خبر میں نے ہمیشہ کی طرح پوری چھان پھٹک اور جانچ پرکھ کے بعد دی ہے اور میرے خیال میں سوفیصد درست ہے‘ نوجوان رپورٹر بولا۔ایڈیٹر کو خبر کی صحت پر اعتراض نہیں تھا‘ ان کا کہنا تھا کہ جن کے بارے میں یہ خبر ہے‘ وہ ان کا دوست ہے۔ ”تو جناب! پھر آپ یوں کریں کہ اپنے دوستوں کی ایک فہرست رپورٹرز کو اور نیوز روم والوں کو مہیا کر دیں کہ ان کے خلاف خبر نہیں جائے گی۔ ایڈیٹر صاحب کو نوجوان رپورٹر کی یہ پیشہ ورانہ ادا اچھی لگی۔ وہ ایڈیٹر کی گڈبکس میں خاصا اوپر آگیا تھا۔
یہ نوجوان رپورٹر سید سعود ساحر تھا‘ قدرے بزرگ ہوا تو ”شاہ جی‘‘ ہوگیا۔ پنڈی اسلام آباد میں شاہ جی سے مراد سعود ساحر ہی ہوتے(لاہور میں سید عباس اطہر ”شاہ جی‘‘ تھے)صحافت میں شاہ جی کے معرکوں کی داستان‘ ایک کالم کا نہیں‘ کتاب کا موضوع ہے۔ یوں بھی ہوا کہ اس میں شاہ جی کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا پڑی۔ اس میں23مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کی جلسے کی چشم دید رپورٹنگ بھی تھی۔یہ سردار عطا اللہ مینگل کی سربراہی میں نیب اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت کی بر طرفی کے خلاف احتجاجی جلسہ تھا( بلوچستان حکومت کے خلاف اس اقدام پر صوبہ سرحد میں وزیر اعلیٰ مفتی محمود اور ان کی مخلوط کابینہ احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے)اس جلسے میں بڑی تعداد صوبہ سرحد سے آنے والے پٹھانوں کی تھی۔ غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے۔ جلسہ آغاز ہی میں اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آگیا۔ ان میں پولیس والے بھی تھے اور ”جیالے‘‘ بھی۔ ادھرصوبہ سرحد سے آنے والی بسیں نذرِ آتش کی جارہی تھیں۔ سجاد میر کو قیامت کی وہ گھڑیاں یاد ہیں اور یہ بھی کہ سعود ساحر کس طرح آخر تک وہاں موجود رہے‘ کبھی دیوار کے ساتھ چپک کر اور کبھی کسی درخت کی اوٹ میں۔ یوڈی ایف نے آئندہ لائحہ عمل کی تیاری کے لیے اگلے روز سربراہی اجلاس رکھ لیا تھا۔ولی خان نے یہ کہہ کر اجازت چاہی کہ وہ خود ان لاشوں کے ساتھ پشاور جائیں گے کہ وہاں شرپسندوں کو اس سانحہ کو پنجاب کے خلاف استعمال کرنے کا موقع نہ ملے۔ کوئی درجن بھر لاشوں کے ساتھ پشاور پہنچ کر ولی خان کا کہنا تھا : یہ لاشیں پنجاب سے ضرور آئی ہیں لیکن ان کے قاتل پنجابی نہیں۔
اُس دور میں شاہ جی نے کیا کیا رپورٹیں لکھیں؟ دلائی کیمپ کی رپورٹ ان میں شاہکار تھی۔ دلائی کیمپ‘ بھٹو صاحب کا گوانتا نامو تھا۔ کھر نے بغاوت کی‘ تو لاہور کے افتخار تاری سمیت نصف درجن سے زائد افراد گھروں سے اٹھالئے گئے۔ یہ مہینوں”مسنگ‘‘ رہے یہاں تک کہ شاہ جی نے آزاد کشمیر کے ایک دور دراز علاقے میں ”دلائی کیمپ‘‘ ڈھونڈنکالا۔ 5جولائی کے ٹیک اوور کے چھٹے روز جی ایچ کیو کے آڈیٹوریم میں جنرل ضیاالحق کی پہلی پریس کانفرنس میں‘ شاہ جی کی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے مڈبھیڑ ایک یاد گار واقعہ تھا۔ جنرل صاحب کے دائیں بائیں سینئر سول بیوروکریٹ بھی موجود تھے‘۔شاہ جی نے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا: یہ وہ صاحب ہیں جو بھٹو دور میں ہمیں کسی ٹریفک حادثے میں مروانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ماحول کشیدہ ہو گیا تھا۔ جنرل صاحب نے پریس کانفرنس سمیٹی اور مہمانوں کو چائے کے میز کی طرف چلنے کی دعوت دی۔ شامی صاحب شاہ جی کو اپنی ”حفاظتی تحویل‘‘ میں لے کر جنرل صاحب والی میز پرآگئے۔انہوں نے شامی صاحب سے کہا‘کیسے پاگل لوگ آپ کی ٹیم میںشامل ہیں۔شامی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: جناب! بھٹو صاحب کے ساتھ جنگ انہی پاگلوں کے ساتھ لڑی جاسکتی تھی۔ وہ کوئی عقل مندوں کا کام تھوڑی تھا۔ جنرل صاحب کے جوابی قہقہے نے ماحول کو خوشگوار بنادیا تھا۔
اگر مگر‘اور چونکہ چنانچہ کے الفاظ دبنگ اور اکل کھرے شاہ جی کی لغت میں نہیں تھے۔ جو بات دل میں ہوتی زبان پر لے آتے۔ دوستوں کے دوست‘اور دوستی نبھانے میں وہ کسی نفع وضرر کو خاطر میں نہ لاتے۔ مخالفین کے ساتھ مقابلے میں بھی ”فیئر پلے‘‘ میں یقین رکھتے۔
شاہ جی صحافتی ٹریڈیونین کا بھی بڑا نام تھے۔ رائٹ اور لیفٹ کی دھڑے بندی میں‘ وہ رائیٹسٹوں کے سرخیل تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان اصلاحات کا مفہوم بدل گیا تھا۔ اب لیفٹ سے مراد پیپلز پارٹی کے حامی تھے‘اس کے مخالف رائٹسٹ کہلاتے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں راولپنڈی پریس کلب میں برسوں انتخابات نہ ہوئے۔ تب گورڈن کالج کے سامنے (اور لیاقت باغ کے عقب میں) پنڈی‘ اسلام آباد کے جرنلسٹوں کا یہی ایک پریس کلب ہوتا تھا۔ 1988ء میںبے نظیر صاحبہ کی (پہلی) وزارتِ عظمیٰ میں راولپنڈی پریس کلب میں برسوں بعد انتخابات کا احیا ہورہاتھا۔شاہ جی صدارت کے لیے رائٹ کے امیدوار تھے (نواز رضا ان کے پینل میں جنرل سیکرٹری تھے) لیفٹ نے ہمایوں فرکو میدان میں اتارا۔ پیپلز پارٹی (اور اس کی وفاقی حکومت) نے اس الیکشن کو ناک کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اس کے باوجود سعود ساحرجیت گئے۔ اگلے دس سال‘ گیارہ سال بھی نواز رضا کی صدارت میں سعود ساحر کا پینل ہی جیتتا رہا۔ اس دوران کلب کے نام میں پنڈی کے ساتھ اسلام آباد کااضافہ ہوگیا۔ اب یہ اسلام آبا دمیں نیشنل پریس کلب ہے۔
شاہ جی نے جرأت اور جسارت کے یہ اوصاف ورثے میں پائے تھے۔والد صاحب سید دائود احمد نے انگریز کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کی مجلسِ احرار الاسلام سے وابستگی اختیار کی۔ 1939ء میں دہلی میں احرار کے اجتماع پر گولی چلی تو سید دائود بھی زد میں آگئے۔ جان بچ گئی لیکن بسترکے ہوکر رہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد اگلے جہاں سدھار گئے۔ پاکستان بنا تو والدہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ سہارنپور سے ہجرت کی۔راولپنڈی ان کا نیا مسکن تھا۔ تب سعود نو‘ دس سال کا تھا۔ ان سے اڑھائی تین سال بڑا محمود احمد تھا‘سب سے چھوٹا آصف محمود۔محمود احمد نے حکمت کوپیشہ بنایا‘ لیکن ان کے لیے یہ پیسہ کمانے کا نہیں‘ خدمتِ خلق کے ذریعے خالق کی رضا کے حصول کا ذریعہ تھا۔ سیاست کے لیے سید مودودی کی جماعت اسلامی ان کا انتخاب تھی۔ شعر وادب سے بھی گہرا شغف تھا‘ اس میں”سروسہارنپوری‘‘ کے نا م سے شہرت پائی۔ سعود کا شعری وادبی ذوق بھی خوب تھا۔ جس کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہوتی۔ موڈ میں ہوتے تو خود بھی طبع آزمائی کرلیتے۔
ہم وفا کے اسی موڑ پر/چاک داماں کھڑے ہیں کہ جب/اپنے احباب گزریں ادھر سے کبھی/آئینہ دیکھ لیں
سات سال قبل مثانے میں سرطان کی شکایت ہوئی‘ تو ڈاکٹروں نے تھیلی لگا دی اورشاہ جی دوبارہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں شریک ہوگئے۔ مارچ میں کورونا نے سراٹھا یا تو کرنل(ر) احمد سعود نے اماں‘ ابا کو میڈیا ٹائون سے (جہاں وہ چھوٹے صاحبزادے عمر فاروق کے ساتھ مقیم تھے) اٹھایا اور اپنے پاس ڈی ایچ اے لے آئے کہ ان کے خیال میں کورونا ایس اوپیز کی پابندی کے لیے والد صاحب کو ”فوجی ڈسپلن‘‘ میں رکھنا ضروری تھا‘ دوماہ قبل سرطان نے پھر سراٹھایا تو سی ایم ایچ میں داخل ہوگئے‘ جہاں سوموار اور منگل کی شب فرشتۂ اجل آن پہنچا۔ ڈی ایچ اےIIکی مسجد نور کادامن تنگ پڑ گیا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ ایک دنیا شاہ جی کو الوداع کہنے چلی آئی ہو۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد نے تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا تھا۔ یہ صحافتی قبیلے کی طرف سے اپنے سردار کو خراج ِتحسین تھا۔