بیانیہ بھاری ہے!
منیر نیازی کے کچھ اشعار تو امر ہو کر رہ گئے ہیں جیسے ’’کج شہر دے لوک وی ظالم سن /کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔ اب شعر کو دیکھیں اور پھر بڑے میاں صاحب کے بیانیے کو دیکھیں، نہ صرف شعر بلکہ میاں صاحب کا بیانیہ اور پھر اس کا ردعمل بھی سمجھ آ جائے گا۔
میاں صاحب کا مزاحمتی بیانیہ تنگ آمد بجنگ آمد تھا یا پھر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لئے تھا یا پھر یہ بیانیہ کسی آس امید پر اپنایا گیا تھا؟ جو بھی ہے، یہ بیانیہ بھاری ہے، یہ پی ڈی ایم پر بھاری پڑا اور تو اور بلاول بول پڑے ہیں کہ یہ بیانیہ اُن کے لئے ’’دھچکا‘‘ تھا۔
یہی حال مسلم لیگ ن کا بھی ہے۔ پارلیمانی مشاورتی کے پانچ چھ بڑے اِس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے، وہ پارٹی کے سینئر ترین رہنما ہیں، اولڈ گارڈ ہیں، وہ سرعام یا پریس میں اِس بیانیے کو رد نہیں کرنا چاہتے کہ اِس سے اُن کے پارٹی سے برسوں پرانے تعلق کو فرق پڑے گا لیکن وہ پارٹی کی اندرونی میٹنگز میں اِس بیانیے سے اختلاف کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف، خرم دستگیر خان، رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق جارحانہ بیانیے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔
اُن کے خیال میں حالیہ مزاحمتی بیانیے سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی میاں نواز شریف کو اِس بیانیے کو روک کر نیا راستہ اپنانے کا مشورہ دے۔
مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ پارٹی کے اندر بیانیوں پر تضاد کی وجہ سے کوئی بڑا لیڈر بھی میاں صاحب کے سامنے دوسرا موقف رکھنے کی جرأت نہیں کر پا رہا کہ ایک تو اِس سے پارٹی کے اندر اختلافات بڑھیں گے، اُن کی برسوں کی محنت ضائع ہوگی اور پھر شاید اُنہیں یہ بھی یقین ہے کہ بڑے میاں صاحب بیانیے کے معاملے میں اِس قدر آگے جا چکے ہیں کہ وہ کسی کے مشورے کو سنیں گے بھی نہیں۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی مشاورتی گروپ کو انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے گلے اور شکوے ہیں۔ اجتماعی شکوہ تو یہ ہے کہ مزاحمتی بیانیے کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی یا مجلسِ عاملہ کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
یہ گروپ سمجھتا ہے کہ پی ڈی ایم کے قیام اور میاں نواز شریف کی پہلی تقریر نے ریاستی طاقتوں کو جگا دیا تھا بعد ازاں جب مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کے خلاف غداری کی ایف آئی آر درج ہونے پر پی ٹی آئی نے اپنی برأت کا اظہار کیا تو ریاستی قوتوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنا لی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے گوجرانوالہ کے جلسے میں انتظامی ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن ریاستی ادارے مکمل طور پر غیرجانبدار رہے تاہم گوجرنوالہ میں بڑے میاں صاحب کی جارحانہ تقریر نے ن لیگ اور ریاستی اداروں کے درمیان ٹھنڈی ہوتی آگ کو پھر سے ہوا دے دی اور کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کو اِسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
گو بیانیہ بھاری ہے اور پارلیمانی مشاورتی گروپ کے 5ہیوی ویٹ اِس بیانیے سے الگ اپنی رائے بنا چکے ہیں لیکن پارٹی کے اندر مزاحمتی بیانیے کی زبردست حمایت بھی موجود ہے جس کی سرخیل خود مریم نواز شریف ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی اور کسی حد تک احسن اقبال بھی اِسی بیانیے کے حامی ہیں۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاستی اداروں نے گوجرانوالہ جلسے میں جو ڈھیل دی تھی اُس کا تاثر مریم نواز شریف تک بھی پہنچا تھا مگر بالآخر وہ گنتی میں اپنے والد کے بیانیے کے ساتھ ہی کھڑا ہوتی ہیں۔
مزاحمتی بیانیہ جس طرح سے پھیلا ہے اور جواباً ایک ردِعمل آیا ہے اُس سے تو صاف لگ رہا ہے کہ سیاست تصادم کی طرف جا رہی ہے۔
حکومت اپوزیشن سے مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن اور ریاستی ادارے آپس میں کسی رابطے میں ہوں یا مذاکرات کریں۔
وزیراعظم عمران خان ایک بیان میں صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ ریاستی اداروں کے سربراہوں کو اپوزیشن لیڈرز سے نہیں ملنا چاہئے۔
اگر واقعی اپوزیشن، حکومت اور ریاستی اداروں میں مذاکرات نہ ہوئے تو بہت بڑا سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہوگا جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ڈیڈ لاک اور تصادم کے ہونے سے پہلے ہی سیاسی مذاکرات کی صورت نکل آئے گی اور شاید آئندہ انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانبدارانہ بنانے کے لئے بات چیت کا ڈول ڈالا جائے گا اور شاید یہی راستہ قومی مفاد میں ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے اندرونی تضادات کا ذکر چکل نکلا ہے تو پارلیمانی مشاورتی گروپ میں ہیوی ویٹ لیڈرز کو انفرادی گلے شکوے بھی ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کو پنجاب میں نہ تو اپوزیشن لیڈر بنایا گیا اور نہ ہی اُن کی طویل اسیری کے درمیان اُن کی خیر خیریت دریافت کی۔
خواجہ آصف، بڑے اور چھوٹے میاں صاحب کے بہت قریب ہیں لیکن جب آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں اُنہوں نے ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اور دونوں میاں صاحبان کی ہدایت پر قانون سازی کی حمایت میں ووٹ دیا تو خواجہ آصف کے اِس اقدام پر مریم نواز نے اعتراض کیا تھا۔
سردار ایاز صادق تحمل مزاج اور اعتدال والے راستے پر چلنے والے ہیں، اِس لئے وہ مزاحمتی بیانیے کو مکمل طور پر ہضم ہی نہیں کر پائے۔
رانا تنویر حسین اور خرم دستگیر بھی جارحانہ سیاست میں فٹ نہیں آتے، گوجرانوالہ جلسے کے آرگنائزر خرم دستگیر پر جلسے کے بعد بہت کچھ گزرا، اُنہیں سوالات بھگتنا پڑے، مشکلات سے گزرنا پڑا۔
اسی وجہ سے حالات یہ ہیں کہ لاہور جلسے کو نہ تو خواجہ سعد رفیق، نہ سلمان رفیق اور نہ سردار ایاز صادق آرگنائز کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ سب خود کو سینئر ترین سمجھتے ہیں اور اُن کے خیال میں یہ کام پارٹی کے دوسرے جونیئر لوگوں کو کرنا چاہئے۔
پارلیمانی مشاورتی گروپ سے اِس تضاد کے بعد بڑے میاں صاحب کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ کیا وہ جارحانہ بیانیے کو روک کر کوئی نیا راستہ اپنانے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ یا پھر وہ اِن سب لیڈرز کو مسترد کرکے اپنے جارحانہ بیانیے پر ہی چلتے رہیں گے؟ بڑے میاں صاحب کو جائز طور پر یہ مان ہے کہ ووٹ بینک بڑے میاں صاحب کے ساتھ ہے لیکن اپنی پارٹی کے اِن بڑے لیڈرز کی رائے کو یکسر مسترد کرنا بھی اُن کے لئے کافی مشکل فیصلہ ہوگا۔
باقی رہی ملکی حالات کی بات۔ جوبائیڈن کے آنے کے بعد افغانستان کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں جس قدر تیزی نظر آ رہی تھی وہ قدرے آہستہ ہو جائے گی۔
دنیا میں جمہوری اقدار کی پائمالی پر امریکہ، اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی طرف سے جو خاموشی تھی وہ ختم ہو جائے گی۔
جوبائیڈن میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور جنرل پرویز مشرف کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، اُن سے کئی بار مل چکے ہیں، اِس لئے بائیڈن کا رویہ اُن سے زیادہ دوستانہ ہوگا کیونکہ ٹرمپ شاید ہی اُن میں سے کسی سے شناسائی رکھتا ہو۔