‘میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں، لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہِ کرم میں نے جو لکھا ہے اس کے لیے مجھے معاف فرمائیے۔’
یہ خط علامہ محمد اقبال کے ایملی ایما ویگےناسٹ کے نام جرمن زبان میں لکھے گئے متعدد خطوط میں سے ایک ہے۔
ایما سے اقبال کی ملاقات دریائے نیکر کے کنارے واقع سرسبز و شاداب مناظر سے مالامال قصبے ہائیڈل برگ میں ہوئی تھی۔ ایک تو ماحول رومان پرور، اوپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین و جمیل ایما۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ ایک ہندوستانی شاعر کا دل ان پر آ گیا، نہ آتا تو حیرت ہوتی۔
اقبال کی نظم ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ، کے کنارے پر) سے ان کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے:
خاموش ہے چاندنی قمر کی / شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش / کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے / آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے / نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
اے دل! تو بھی خموش ہو جا / آغوش میں غم کو لے کے سو جا
اقبال کے دل میں ایما کا کیا مقام تھا اور ان کے ایما سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی، اس کا کچھ کچھ اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے:
‘براہِ کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں۔’
ان خطوط سے اقبال کے اس روایتی تصور سے بالکل مختلف تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جو ہم شروع ہی سے نصابی کتابوں اور یومِ اقبال پر کی گئی تقاریر میں دیکھتے رہے ہیں۔ ان خطوط میں اقبال حکیم الامت اور مفکرِ پاکستان کم اور جذبات سے مغلوب نوجوان زیادہ نظر آتے ہیں۔
21 جنوری 1908 کو انھوں نے لندن سے ایما کے نام خط میں لکھا:
‘میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے۔ اور ایک شعلے سے ایک بڑا الاؤ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ سردمہر ہیں، غفلت شعار ہیں۔ آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں کچھ نہ کہوں گا، ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔’
‘خوش رہنے کا حق’
اقبال اس وقت نہ صرف شادی شدہ تھے بلکہ دو بچوں کے باپ بھی بن چکے تھے، یہ الگ بات کہ 18 برس کی عمر میں والدین کی پسند سے کریم بی بی سے ہونے والی اس شادی سے وہ سخت ناخوش تھے۔ ایک خط میں انھوں نے لکھا:
‘میں نے والد صاحب کو لکھ دیا ہے کہ انھیں میری شادی طے کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، خصوصاً جب کہ میں نے پہلے ہی اس قسم کے کسی بندھن میں گرفتار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اس کی کفالت کے لیے تیار ہوں لیکن اس کو ساتھ رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لینے کے بالکل تیار نہیں ہوں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے بھی خوش رہنے کا حق حاصل ہے، اگر سماج یا قدرت مجھے یہ حق دینے سے انکار کرتے ہیں تو میں دونوں کا باغی ہوں۔ اب صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے اس بدبخت ملک سے چلا جاؤں یا پھر شراب میں پناہ لوں جس سے خودکشی آسان ہو جاتی ہے۔’
برطانیہ پہنچ کر مشرق کی پراسرایت سے معمور اور غیر معمولی حد تک ذہین و فطین اقبال نے خواتین کی توجہ مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لی۔ اس وقت تک ان کا کلام شمالی ہندوستان کے گوشے گوشے میں معروف ہو چکا تھا اور لوگ گلیوں میں اسے گاتے پھرتے تھے، اور اس شہرت کے کچھ کچھ چرچے انگلستان بھی پہنچ چکے تھے۔
ان سے متاثر ہونے والی انھی خواتین میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں جنھوں نے ایک کتاب میں اقبال کے اس دور پر روشنی ڈالی ہے۔ عطیہ فیضی بمبئی کے ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد حسن آفندی بڑے تاجر تھے جو دوسرے ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ روشن خیال تھے اور انھوں نے نہ صرف اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ ان پر پردہ کرنے کا دباؤ بھی نہیں ڈالا۔ اس وقت کے گھٹے ہوئے ہندوستانی معاشرے میں یہ بات انوکھی تھی کہ ایک خاتون جو نہ صرف بےحد پڑھی لکھی ہے بلکہ مردوں کی محفل میں بیٹھ کر ان سے برابری کی سطح پر مکالمہ کر سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عطیہ نے اقبال کے علاوہ شبلی نعمانی کو بھی متاثر کیا جس کی تفصیل ‘شبلی کی حیاتِ معاشقہ’ میں مل جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید اقبال عطیہ کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے، لیکن ہمارے خیال سے ان کا عطیہ سے دوستی فکری سطح پر تھی اور وہ ان سے فلسفیانہ مباحث کیا کرتے تھے۔ عطیہ کے نام لکھے گئے خطوط کا اگر ایما کے نام خطوط سے موازنہ کیا جائے تو فرق رات اور دن کی طرح واضح ہے۔
اقبال کے دل کی تمنا کچھ اور ہی تھی اور انھیں شک تھا کہ یہ تمنا کبھی پوری ہو گی بھی یا نہیں۔
جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بےتاب / پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب
ابدی بنتا ہے یہ عالمِ فانی جس سے / ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے
آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں / خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں
مل گیا وہ گل مجھے
اقبال نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے،’ چنانچہ جرمنی میں ان کی دعا باریاب ہوئی، اور غالباً ایما کی صورت میں انھیں وہ نگیں مل گیا جس کی انھیں تلاش تھی۔ اس کے بعد انھیں یہ لکھنے میں دیر نہیں لگی:
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے / خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے / چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے
اقبال انگلستان میں کیا کر رہے تھے؟
اقبال دو سال پہلے انگلستان آئے تھے جہاں انھوں نے کیمبرج سے بی اے کے ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی دوران انھوں نے ‘ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا’ نامی مقالہ لکھا اور اب وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اسی مقالے پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے تھے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے 1907 کے موسمِ بہار میں جرمنی کا سفر اختیار کیا تھا جہاں ان کی ملاقات ایما سے ہوئی۔
ایما 26 اگست 1879 کو دریائے نیکر کے کنارے واقع قصبے ہائلبرون میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے (بڑے بھائی کارل کا ذکر آگے چل کر آئے گا)۔
ایما 29 سالہ اقبال سے عمر میں دو برس چھوٹی لیکن قد میں ایک انچ لمبی تھیں۔ ان کی صرف ایک تصویر ہماری نظر سے گزری ہے جس میں ان کی آنکھوں سے وہی شریر تبسم جھلک رہا ہے جس کا ذکر اقبال نے اسی دور کی ایک غیر مطبوعہ اور نامکمل نظم ‘گم شدہ دستانہ’ میں کیا ہے:
رکھا تھا میز پر ابھی ہم نے اتار کر / تو نے نظر بچا کے ہماری اڑا لیا / آنکھوں میں ہے تری جو تبسم شریر سا
ایما کی مادری زبان جرمن تھی، لیکن وہ یونانی اور فرانسیسی سے بھی خوب واقف تھیں۔ اس کے علاوہ وہ فلسفے اور شاعری سے بھی خاص شغف رکھتی تھیں اور یہی ان کے اور اقبال کے درمیان وجۂ اشتراک بھی ہے۔ اقبال کے خطوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایما کے ساتھ مل کر مشہور جرمن شاعر گوئٹے کو بھی سبقاً سبقاً پڑھا تھا۔
یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایما نے ‘پینسیون شیرر’ نامی بورڈنگ ہاؤس میں ملازمت اختیار کر لی جہاں وہ بین الاقوامی طلبہ کو جرمن زبان سکھاتی تھیں، اور اس کے بدلے میں انھیں مفت طعام و قیام فراہم کیا جاتا تھا۔
اقبال نے کسی زمانے میں لکھا تھا کہ:
میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث / بات جو ہندوستان کے ماہ سیماؤں میں تھی
لیکن یہ بات انگلستان کی حد تک درست تھی۔ جرمنی پہنچ کر ان کا خیال بدل گیا۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ ‘انگریز عورت میں وہ نسائیت اور بےساختگی نہیں جو جرمن عورت میں ہے۔ جرمن عورت ایشیائی عورت سے ملتی ہے۔ اس میں محبت کی گرمی ہے۔ انگریز عورت میں یہ گرمی نہیں۔ انگریز عورت گھریلو زندگی اور اس کی بندشوں کی اس طرح شیدا نہیں جس طرح جرمن عورت ہے۔’
‘بالکل مختلف اقبال’
عطیہ فیضی نے ہائیڈل برگ میں جو اقبال دیکھا اس سے وہ حیران رہ گئیں۔ وہ اپنی کتاب ‘اقبال’ میں لکھتی ہیں:
‘یہ اس اقبال سے بالکل مختلف تھے جسے میں نے لندن میں دیکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے جرمنی ان کے وجود کے اندر سما گیا ہے، اور وہ درختوں (کے نیچے سے گزرتے ہوئے) اور گھاس پر چلتے ہوئے علم کشید کر رہے تھے۔۔۔ اقبال کا یہ پہلو میرے لیے بالکل انوکھا تھا، اور لندن میں جو ایک قنوطی کی روح ان میں حلول کر گئی تھی وہ یہاں یکسر غائب ہو گئی تھی۔’
لندن کے اقبال کے بارے میں عطیہ نے لکھا ہے کہ ‘وہ بہت تیز آدمی تھے اور دوسروں کی کمزوریاں کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے، اور لوگوں پر طنز کے تیر برساتے رہتے تھے۔’ وہاں اقبال محفل کے دوران خاموشی سے بلکہ بظاہر بوریت کے عالم میں سب کی باتیں سنتے رہتے تھے لیکن جونھی موقع ملتا تھا، وہ چمک کر گفتگو میں شامل ہو جاتے تھے اور اپنی حیران کن دانش اور فراست سے سب پر چھا جاتے تھے۔
لیکن ہائیڈل برگ میں عطیہ نے دیکھا کہ اقبال کے اساتذہ جب انھیں ٹوکتے تھے تو وہ بچوں کی طرح اپنے ناخن چبانے لگتے اور کہتے، ‘ارے، مجھے اس بات کا تو خیال ہی نہیں آیا، مجھے یوں نہیں، یوں کہنا چاہیے تھا۔’
عطیہ کے بیان کے مطابق اقبال یہاں جرمن سیکھنے کے علاوہ رقص، موسیقی، کشتی رانی اور ہائیکنگ کے درس بھی لے رہے تھے۔ اسی دوران انھوں نے کشتی رانی کے مقابلے میں تھی حصہ لیا تھا لیکن آخری نمبر پر آئے۔ عطیہ کی کتاب میں اقبال کی کشتی چلاتے ہوئے تصویر بھی ہے۔
عطیہ نے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر بھی کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ ایما بھی اقبال سے بےحد متاثر تھیں۔
گجرا بیچن والی نادان
ہوا یوں کہ ایما نے ایک دن اوپرا گانا شروع کر دیا۔ اقبال نے ان کا ساتھ دینا چاہا لیکن مغربی موسیقی سے ناواقفیت کی بنا پر بےسرے ہو گئے۔
یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال نے بےحد عمدہ گلا پایا تھا بلکہ ہندوستان میں ترنم سے مشاعرے پڑھنے میں انھوں نے خاصی شہرت حاصل کی تھی اور جب وہ اپنا کلام اپنی سریلی آواز میں پڑھتے تو اس کی تاثیر دوگنی چوگنی ہو کر بڑے سے بڑے مجمعے کو بہا لے جاتی تھی۔
لیکن جب وہ اوپرا گاتی ہوئی ایما کا ساتھ نہیں دے سکے تو انھیں اس پر سخت خفت محسوس ہوئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ شاید ایما کو بھی اس کا احساس ہوا اور اسی رات انھوں نے عطیہ سے درخواست کی کہ وہ انھیں کوئی ہندوستانی گیت سکھا دیں۔
اگلے دن جب سبھی دریائے نیکر کے کنارے پکنک کے لیے نکلے تو اچانک ایما نے گانا شروع کر دیا:
گجرا بیچن والی نادان
یہ تیرا نخرہ
ایما کی زبان سے یہ گیت سن کر اقبال پر جو اثر ہوا ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
عطیہ کے مطابق ایک دن ایما دوسری لڑکیوں کے ساتھ مل کر ورزش کر رہی تھیں اور اقبال ٹکٹکی باندھ کر انھیں تکے جا رہے تھے۔ عطیہ نے ٹوکا تو وہ کہنے لگے، ‘میں فلکیات دان بن گیا ہوں، ستاروں کے جھرمٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں!’
موسیقی کے علاوہ مغربی رقص بھی اقبال کے دسترس سے باہر تھا۔ عطیہ نے لکھا ہے کہ اقبال ایما کے ساتھ رقص بھی کیا کرتے تھے لیکن ایسے اناڑی پن کے ساتھ کہ ان کے قدم اکثر اوچھے پڑتے تھے۔
بعض ماہرینِ اقبالیات کے مطابق معاملہ صرف زبانی کلامی نہیں رہا تھا اور اقبال ایما سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ خود ایما کے کزن کی بیٹی ہیلاکرش ہوف نے سعید اختر درانی کو بتایا تھا کہ ایما 1908 کے لگ بھگ ہندوستان جانا چاہتی تھیں لیکن ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے سربراہ کارل نے انھیں اس دور دراز ملک میں تنہا جانے سے منع کر دیا تھا۔
دو بڑے بھائی ’ظالم سماج‘ بن گئے
دوسری طرف اقبال ہندوستان لوٹنے کے بعد بڑی شدت سے یورپ واپس جانا چاہتے تھے، جس کا اظہار انھوں نے نہ صرف کئی بار ایما سے بھی کیا بلکہ عطیہ کو لکھے گئے خطوط میں بھی اس کا عندیہ ملتا ہے۔ ہم ایسے ایک خط کا اقتباس اوپر دے چکے ہیں۔
لیکن جس طرح ایما کے بڑے بھائی ان کے ہندوستان جانے کی راہ میں آڑے آ گئے، تقدیر کی ایک عجیب ستم ظریفی کی رو سے بالکل اسی طرح اقبال کے بڑے بھائی ان کے واپس ولایت جانے میں رکاوٹ بن گئے۔ نو اپریل 1909 کو وہ لکھتے ہیں: ‘میں کوئی ملازمت کرنا ہی نہیں چاہتا، میرا منشا تو یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ سبب آپ کو معلوم ہے۔ میرے اوپر اپنے بڑے بھائی کا اخلاقی قرض ہے جو مجھے روکے ہوئے ہے۔’
اخلاقی قرض یہ تھا کہ اقبال کی تعلیم کے اخراجات ان کے بھائی نے ادا کیے تھے، اور وہ یورپ سے آنے کے بعد انھیں یہ رقم لوٹانا چاہتے تھے۔
وہ ایما کو لکھتے ہیں: ‘کچھ عرصے بعد جب میرے پاس پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ کو اپنا گھر بناؤں گا، یہ میرا تصور ہے اور میری تمنا ہے کہ یہ سب پورا ہو گا۔’
تاہم یہ تصور، یہ تمنا ناکام حسرت بن گئی۔ اقبال کی زندگی کا یہ حصہ سخت مالی مشکلات سے نمٹتے ہوئے گزرا۔
اس تمام عرصے کے دوران ایما کی یاد ان کے دل سے کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ بڑی حسرت سے لکھتے ہیں: ‘مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب میں آپ کے ساتھ مل کر گوئٹے کا کلام پڑھا کرتا تھا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بھی وہ خوشیوں بھرے دن یاد ہوں گے جب ہم ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے مل سکوں۔’
ایک اور خط میں لکھا:
‘آپ کا خط پا کر مجھے ہمیشہ بہت مسرت ہوتی ہے اور میں بےتابی سے اس وقت کا منتظر ہوں جب میں دوبارہ آپ سے آپ کے وطن میں مل سکوں گا۔ میں جرمنی میں اپنا قیام کبھی فراموش نہ کروں گا۔ میں یہاں بالکل اکیلا رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں۔ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔’
شاعری کی دیوی
ایما سے ملاقات کے 24 برس بعد 1931 میں گول میز کانفرنس کے لیے جب اقبال لندن گئے تو اس وقت بھی انھوں نے جرمنی جا کر ایما سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، اقبال نے دو مزید شادیاں کر لی تھیں اور ان کے بچے جوان ہو گئے تھے، اس لیے یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔
اقبال نے بہت پہلے لکھا تھا:
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں / مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
شاید یہ ان کی سادگی ہی تھی کہ ہندوستان لوٹنے کے بعد بھی ایما سے ملن کے خواب دیکھتے رہے۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ہوائی سفر مستقبل میں تھا اور سمندر کے راستے ہندوستان سے یورپ جانے میں مہینوں لگا کرتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سات سمندر حائل تھے۔
ایما سے اقبال کے تعلق کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، تاہم ایما نے اقبال کی ‘میوز’ بن کر ان کی شاعری میں وہ کسک اور دردمندی پیدا کر دی جس سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کے کلام میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو اس دور کی یادگار ہیں۔
اوپر دی گئی مثالوں کے علاوہ ‘حسن و عشق،’ ‘۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر،’ ‘چاند اور تارے،’ ‘کلی،’ ‘وصال،’ ‘سلیمیٰ،’ عاشقِ ہرجائی،’ ‘جلوۂ حسن،’ ‘اخترِ صبح،’ ‘تنہائی’ اور دیگر کئی نظمیں شامل ہیں جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
اقبال اور ایما کا ملاپ نہیں ہو سکا، لیکن اردو دنیا کو پھر بھی ایما کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی بدولت اردو کو چند لازوال رومانوی نظمیں مل گئیں۔