’نامناسب خوراک وزن کے علاوہ بچوں کے قد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے‘
ایک تازہ تحقیق کے مطابق سکول جانے کی عمر کے بچوں کو ناکافی خوراک دستیاب ہونے کا اثر ان کے قد پر پڑتا ہے، جس سے قد آور اور چھوٹے قد والی قوموں کے بچوں کے قد میں اوسطاً 20 سینٹی میٹر یا سات عشاریہ نو انچ کا فرق آ جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 میں دنیا کے سب سے طویل قامت 19 برس کے لڑکوں کا تعلق ہالینڈ سے تھا جن کا قد 6 فٹ تھا اور دنیا کا سب سے کم قامت 19 برس کے لڑکے کا تعلق ملک تمور لیستے سے تھا جس کا قد صرف پانچ فٹ تین انچ تھا۔
برطانیہ دنیا کے مخلتف ملکوں کے شہریوں کے قد کے اعتبار سے مرتب کی گئی فہرست میں کچھ درجے نیچے چلا گیا ہے۔
سنہ 2019 میں اس کے 19 برس کے لڑکے اپنے قد کے اعتبار سے دنیا بھر کے ملکوں میں 39ویں نمبر پر تھے جن کے قد اوسطاً پانچ فٹ دس انچ ریکارڈ کیے گئے۔
جبکہ سنہ 1985 میں برطانیہ دنیا بھر میں 28ویں نمبر پر تھا۔ یہ تحقیق بین الاقوامی شہرت کے حامل طبی جریدے دا لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق دنیا بھر کے ملکوں کے بچوں کے قد اور وزن کا ریکارڈ رکھنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان اعداد و شمار سے ان ملکوں میں بچوں کو دستیاب خوراک، صحت کی سہولیات اور صحت مند ماحول اور فضا میسر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لینسٹ کی ٹیم نے ساڑھے چھ کروڑ بچے، جن کی عمریں پانچ سے 19 برس کے درمیان تھیں، کا سنہ 1985 سے لے کر 2019 تک دو ہزار سے زیادہ مرتبہ مشاہدہ کیا۔
ان تجزیوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سنہ 2019 میں دنیا بھر میں شمالی، مغربی اور وسطی یورپ میں پرورش پانے والے بچوں اور نوجوانوں کے قد سب سے زیادہ ہیں۔
اسی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں سب سے کم قد جنوب اور جنوبی مشرقی ایشیا، لاطینی امریکی اور مشرقی افریقہ کے خطے کے ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کا ہے۔
ان تجزیوں سے درج ذیل حقائق سامنے آئے ہیں۔
- اوسطاً لاؤس کے 19 عمر کے نوجوانوں کا قد ہالینڈ کے 13 سال کے بچوں کے برابر ہے۔
- گوئٹے مالا، بنگلہ دیش، نیپال اور تمور لیستے میں 19 سال کی عمر کی لڑکیوں کا اوسطاً قد ہالینڈ کی گیارہ سال کی لڑکیوں کے اوسط قد کے برابر ہے۔
- برطانیہ میں 19 برس کے نوجوانوں کا قد اوسطاً پانچ فٹ دس انچ ہوتا ہے جب کہ اسی عمر کی لڑکیوں کا قد اوسطاً پانچ فٹ پانچ انچ ہوتا ہے۔
- گذشتہ 35 برس میں جن قوموں کے نوجوانوں کے قد میں واضح فرق دیکھنے میں آیا ہے ان میں چین اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔
وزن میں صحت مند اضافہ
تحقیق کاروں نے بچوں کے بی ایم آئی کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ بی ایم آئی ایک ایسا طریقہ کار یا معیار ہے جس میں بچوں کے وزن اور قد دنوں کو دیکھا جاتا ہے۔
تحقیق کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ بحرالکاہل کے جزائر، مشرق وسطی، امریکہ اور نیوزی لینڈ میں بسنے والے نوجوانوں کا بی ایم آئی سب سے زیادہ ہے۔
انیس سال کے نوجوانوں میں سب سے کم بی ایم آئی جنوب ایشیا کے ملکوں مثلا بنگلہ دیش اور انڈیا کے نوجوانوں کا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق جن ملکوں کے نوجوانوں کا بی آئی ایم سب سے زیادہ ہے اور جن ملکوں کے نوجوانوں کا بی ایم آئی سب سے کم ہے ان کے وزن کا اوسط فرق 25 کلو گرام ہے۔
تحقیق کار اس بات کا اعتراف کرتے ہے کہ لوگوں کے قد اور وزن کا تعلق ان کی جینیات سے بھی ہوتا ہے لیکن جب معاملہ پوری قوم کی صحت کا آتا ہے تو اس میں خوراک اور ماحول بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
وہ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر خوراک کی دستیابی کے بارے میں پالیسی سازی کا مرحلہ آتا ہے تو پوری توجہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو دستیاب خوراک پر دی جاتی ہے لیکن ان کے خیال میں اس سے بڑی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی نشوونما پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔
سکول کے بچوں کے لیے مفت خوراک
برطانیہ کے امپیریئل کالج کی ڈاکٹر اندرے رودریگوز مارتینز جو اس تحقیق میں پیش پیش رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ بچپن اور بلوغت میں صحت مند وزن اور قد کے فوائد زندگی بھر حاصل ہوتے رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے نتائج سے ایسی پالیسیاں بنانے کی حوصلہ افزائی ہو گی جو صحت مند خوراک کی وافر مقدار اور کم قیمت دستیابی کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں، جس سے بچوں اور نوجوانوں کی بہتر نشوونما ہو سکے اور غیر ضروری طور پر موٹا ہونے کے بجائے ان کے قد اور وزن میں توازن برقرار رہے۔
انھوں نے کہا کہ ان پالیسی اقدامات میں کم آمدن والے گھرانے کے بچوں کو مفت خوراک کے واؤچرز کی تقسیم شامل ہے تاکہ ان کو مناسب خوراک دستیاب ہو سکے اور سکول کے بچوں کو مفت اور صحت مند خوراک کی فراہمی شامل ہو۔