دارلعلوم سراجیہ نعیمیہ: ایک روشن چراغ
لاہور شہر نامور سکولوں، کالجوں، اور جامعات کی آماجگاہ ہے۔پاکستان کے مختلف حصوں سے نوجوان حصول علم کیلئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ دینی تعلیم کے حوالے سے بھی یہ شہر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نعیمیہ جیسی نامور دینی درسگاہیں ادھر قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ دیگر صوبوں میں بسنے والے طالب علم بھی شہر لاہور کے مدارس سے کسب فیض کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں بیس بائیس ہزار دینی مدارس موجود ہیں۔ دینی تعلیمات کی ترویج کیساتھ ساتھ یہ مدار س نہایت خوبی سے ہماری شرح خواندگی بڑھانے میں بھی مدد گار ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ ستر برس گزرنے کے بعد بھی ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ہمارے کم وبیش تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے مواقع محض مٹھی بھر نوجوانوں کو میسر ہیں۔ ان حالات میں دینی درسگاہوں کی موجودگی نہایت غنیمت ہے۔ تعلیم کیساتھ ساتھ یہ مدارس طالب علموں کی خوراک اور رہائش کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔یعنی یہ درسگاہیں مفلوک الحال اور نادار بچے بچیوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بات چلے تو دینی مدارس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ہم ایک قدامت پرست سماج کا حصہ ہیں۔ یہاں بہت سے والدین اپنی بچیوں کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ تاہم دینی مدارس سے متعلق والدین عمومی طور پر مطمین رہتے ہیں۔ ان بچیوں اور ان کے والدین کیلئے دینی مدارس کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں۔ بچیاں یہاں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اعلیٰ ڈگری کے حصول کا شوق پورا کرتی ہیں۔کئی سال پہلے میں نے بنگلہ دیش کے نظام تعلیم سے متعلق ایک رپورٹ پڑھی تھی۔ رپورٹ کیمطابق بنگلہ دیش نے باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ دینی مدارس کے ذریعے لڑکیوں کی شرح تعلیم میں اضافہ کیا ہے۔
یہ سب باتیں مجھے اس لئے یاد آگئیں کہ چند دن پہلے مجھے دارلعلوم سراجیہ نعیمیہ میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔وہاں زیر تعلیم بچیوں سے مل کر دینی مدارس کی اہمیت کا احساس ذہن میں تازہ ہو گیا۔ بچیوں کی دینی تعلیم کیلئے قائم یہ مدرسہ، جامعہ نعیمیہ کی ایک شاخ ہے۔ جامعہ نعیمیہ برصغیر کی نامور دینی درسگاہ ہے۔کئی برس سے علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب اس ادارے کے ناظم اعلیٰ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم، مفتی سرفراز نعیمی مرحوم بہت بڑے عالم دین تھے۔آپ عمر بھر فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے کوسوں دور رہے۔ ہمیشہ اعتدال اور توازن کا درس دیا کرتے تھے۔ 2009 میں دہشت گردی کا نشانہ بنے اور شہید ہوگئے۔ اللہ پاک انکے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نہایت ثابت قدمی سے اپنے والد اوربزرگوں کی روشن روایات کو آگے بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔گزشتہ کئی برس سے ان کی بیگم نبیرہ عندلیب صاحبہ بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں۔نبیرہ صاحبہ دارلعلوم سراجیہ کی پرنسپل ہیں۔ ڈاکٹرنعیمی صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کی دعوت پر جب بھی جامعہ نعیمیہ یا جامعہ سراجیہ میں کسی تقریب میں شرکت کرتی ہوں، طلبا ء و طالبات سے ملاقات اور گفتگو کر کے نہایت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اپنے والد محترم ہی کی طرح، راغب نعیمی صاحب بھی بے حد متواز ن مذہبی خیالات کے حامل ہیں۔ دھیمے لہجے میں، ٹھوس دلائل کیساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی بیگم بھی شائستہ مزاج خاتون ہیں۔ یہی خوبی مجھے ان کے طالب علموں میں دکھائی دیتی ہے۔ مشاہدہ میرا یہ ہے کہ دینی مدارس میں اخلاقیات، روایات اور تہذیب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔بدقسمتی سے یہ عناصر روائتی تعلیمی اداروں سے تقریبا خارج ہو چکے ہیں۔ان مدارس میں طالب علم اساتذہ کی تعظیم میں بچھے جاتے ہیں۔ لیکچر کے دوران کلاس میں خاموشی چھائی رہتی ہے۔ مجھے یاد ہے کچھ ماہ پہلے میں یہاں آئی تھی۔ کم و بیش گھنٹہ بھر بات کرتی رہی۔ طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔پنڈال میں نہایت خاموشی چھائی رہی۔ سوالات کا سیشن شروع ہوا تو نہایت خوبی سے طالبات نے سوالات پوچھے۔ کچھ نے اختلافی رائے کا بھی اظہار کیا۔ ایسی خاموشی اور سلیقہ مجھے نامور جامعات میں بھی کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
جامعہ سراجیہ میں ہونے والی یہ تقریب ربیع الاول کے با برکت مہینے کے تناظر میں تھی۔ جامعہ پہنچی تو ہمیشہ کی طرح ڈا کٹر راغب نعیمی صاحب داخلی دروازے پر استقبال کیلئے موجود تھے۔ نبیرہ صاحبہ کے ہمراہ مدرسے میں داخل ہوئی تو یہاں کا منظر دیدنی تھا۔ طالبات کی سج دھج نرالی تھی۔ پنڈال بھرا ہوا تھا۔ مختلف رنگ اور روشنیاں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ چھوٹی بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کی مختلف ٹولیاں ایک جیسے لباس پہنے تیار تھیں۔ کہیں نعتیں پڑھی جا رہی ہیں۔ کہیں احادیث مبارکہ سنائی جا رہی ہیں۔ کہیں درود و سلام کی محفل جمی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں نے نہایت عمدہ ٹیبلو پیش کیا۔ ایک عالمہ نے سیرت نبی ﷺ پر فکر انگیز درس دیا۔
تقریب میں کچھ موجودہ اور سابق اراکین پنجاب اسمبلی بھی موعو تھیں۔ تحریک انصاف کی سعدیہ سہیل، مسلم لیگ (ن) کی غزالہ سعد رفیق، عظمی ضعیم قادری،شازیہ کامران وغیرہ۔ یہ سب خواتین اسمبلی کے اندر اور باہر کافی متحرک رہتی ہیں۔ سیاسی تقاریر میں گرجتی برستی ہیں۔ اس دن مگر سب نے نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ کا تذکرہ کیا۔ حضور ﷺ سے اظہار عقیدت کیا۔ میں انہیں سنتی رہی اور بیٹھی سوچتی رہی کہ سیاست کو ہم نے کس قدر تلخ اورکڑواہٹ زدہ بنا ڈالاہے۔ یہ اچھی خواتین جب سیاسی معاملات پر بات کرتی ہیں تو کیسی تلخی ان کے چہرے اور لب ولہجے میں در آتی ہے۔ آج دھیمے اور شائستہ لہجے میں سیرت نبوی ﷺ کا ذکر کرتے یہ سب کس قدر بھلی معلوم ہو رہی ہیں۔ چونکی میں اس وقت جب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا۔ کہنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ بس دینی تعلیمات کے حوالے سے اپنی کم علمی اور بے عملی کے اعترف کیساتھ کچھ باتیں کیں اور اسٹیج سے اتر آئی۔آخر میں غزالہ سعد رفیق صاحبہ نے نہایت پرسوز اور دل گداز آواز میں نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی۔ میں پہلی بار ان کو نعت پڑھتے سن رہی تھی۔ ان کا چہرہ تکتے میں سوچتی رہی کہ کیا عمدہ آواز میرے رب نے انہیں عطا کی ہے۔
یہ بابرکت تقریب اختتام پذیر ہوئی تو میں نے مدرسے سے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں۔ پتہ یہ چلا کہ دارلعلوم سراجیہ نعیمیہ میں کم و بیش پانچ سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔ تین طرح کے کورس یہاں پر جاری ہیں۔ حفظ قرآن اور ناظرہ۔ تجوید و قرآت اور درس نظامی۔ درس نظامی کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان(HEC) نے ایم۔اے کے مساوی قرار دے رکھا ہے۔ یعنی چھ سال کے اس کورس کے بعد طالبات کو ایم۔اے عربی یا اسلامیات کی ڈگریاں عطا ہوتی ہیں۔ مدارس کے بچے اور بچیوں کو دینی تعلیم کیساتھ ساتھ روائتی تعلیم کی طرف بھی راغب کیا جاتا ہے۔ طالب علموں کو باقاعدہ ایف۔ اے، بی۔اے،اور ایم۔ اے، کے پرائیویٹ امتحانات دلوائے جاتے ہیں۔بعض اوقات یہ طالب علم لاہور بورڈ اور یونیورسٹی میں پوزیشن بھی حاصل کرتے ہیں۔ میرے استفسار پر ڈاکٹر راغب صاحب نے بتایا کہ دور دراز کے علاقوں سے پڑھنے کیلئے بچیاں یہاں پر آتی ہیں۔ پنجاب کیساتھ خیبر پختونخواہ، بلوچستان، سندھ اور کشمیر سے بھی۔ حیرت سے میں نے وجہ دریافت کی۔ کہنے لگے کہ بہترین معیار تعلیم اور عمدہ انتظامی ڈھانچہ (infrastructure) اسکی وجہ ہے۔ نبیرہ نعیمی صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے نیا نصاب تیار کیا ہے۔اب بچیوں کو دو برس میں قرآن پاک حفظ کروا جائے گا۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو کہنے لگیں کہ ہماری کچھ بچیوں نے تو محض ایک سال میں قرآن پاک حفظ کیا ہے۔ فیس سے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ سالانہ چندہزار (ماہانہ چند سو)روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔ بچیوں کو سلائی کڑھائی، کمپیوٹر، خطاطی، کوکنگ وغیرہ کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ کم و بیش ڈیڑھ دو برس سے میں یہاں کچھ تعمیراتی کام ادھورا دیکھ رہی ہوں۔ وجہ معلوم کی تو پتہ یہ چلا کہ فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وفاقی یا صوبائی حکومت، ہائیر ایجوکیشن کمیشن یا کسی اور حکومتی ادارے کی طرف سے مدرسے کی مالی امداد کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ مخیر حضرات کی طرف سے کچھ امداد مل جاتی ہے۔ یا پھر طالب علموں سے حاصل ہونے والی فیس سے کچھ اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی جامعہ نعیمیہ اور دیگر مدارس پریشانی میں مبتلا ہیں۔ حکومت مدارس کی رجسٹریشن چاہتی ہے۔ مدارس اس کے لئے تیار ہیں۔ مگر مدارس کا اصرار ہے کہ رجسٹریشن کرنی ہے تو پہلے اس ضمن میں قانون سازی کی جائے۔
نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دینی مدارس کے معاملات پر توجہ دیں۔اکثر و بیشتر ہمیں مدارس کی نگرانی اور اصلاح احوال کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بلاشبہ حکومتیں یہ حق رکھتی ہیں کہ مدارس پر نگاہ رکھیں۔ مگر لازم ہے کہ نگرانی کیساتھ ساتھ جامعہ نعیمیہ جیسی عمدہ درسگاہوں کی سرپرستی بھی کی جائے۔مدارس کو قومی دھارے میں لانا مقصود ہے تو پہلے ان کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنا ہو گا۔