وزیراعظم کا اظہارِ فخر اور کج بحثیاں
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ڈھائی سالہ عہد حکومت کی کارکردگی پر اظہار فخر کیا کیا گویا بارود خانے کو آگ دکھا دی۔ آتش بازی ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہی۔ کیا سیاستدان، کیا سوشل میڈیا کا چنچل نگار خانہ، کیا سرشام ٹی وی چینلز پر درس حکمت دیتے دانشور اور کیا پیہم چرکے لگانے والے قلم کار سبھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں نکل آئے۔
کہنا یہ ہے کہ آخر وزیراعظم نے اپنے کون سے کارناموں کی بنیاد پر خود کو مجبور پایا کہ عاجزانہ انکساری، درویشانہ کسرِ نفسی اور فقیرانہ بے نیازی سے دستکش ہو کر اتنے کھلے ڈلے اور دبنگ لہجے میں اظہار تفاخر کردیا؟ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔
کوئی کمر توڑ مہنگائی کا رونا رو رہا ہے، کوئی غربت کی لکیر سے نیچے لڑھکتے عوام کا ماتم کر رہا ہے، کوئی بے روزگاری کی دہائی دے رہاہے، کوئی واویلا کر رہا ہے کہ کاروبار تباہ ہوگیا، کسی کو گلہ ہے کہ ہر شعبے میں رشوت عام ہوگئی ہے، کوئی سیاپاکرتی عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر طعنے دے رہا ہے کہ سیاسی مخالفین، یا عرف عام میں چوروں اور ڈاکوئوں سے لوٹی گئی رقم واپس لینے کےبجائے عوام کے خون پسینے کی کمائی کے اربوں روپے تاوان میں دے ڈالے، کسی کو فکر ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی قیمتی املاک قرقیوں کے شکنجے میں کسی جارہی ہیں، کوئی کورونا کے بےقابو ہونے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال رہا ہے، کسی کو معیشت کی ذرا سی بھی شُدبُد نہیں لیکن وہ بڑھتےہوئے قرضوں پر تبّریٰ بھیج رہا ہے۔ کوئی کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے خلاف بھڑاس نکال رہا ہے۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی اور بیسیوں ترجمان نہایت ٹھوس دلائل کے ساتھ قوم کو سمجھا رہے ہیں کہ معیشت دن بہ دن مضبوط ہو رہی ہے۔ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے ، فلاحی ریاست کی منزل قریب آ رہی ہے اور ریاست مدینہ کی مشکبار ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں لیکن ناشکری قوم یہ سب کچھ ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال دیتی ہے۔
بلاناغہ عوام کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ترقی و خوشحالی اور عوامی فلاح وبہبود کے اس دور میں اگر خلق خدا کسی مشکل یا مصیبت میں ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری ماضی کے حکمرانوں یعنی چوروں اور ڈاکوئوں پر عائد ہوتی ہے لیکن کوئی سنے تو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی اتنا بڑا دعویٰ کیا ہوگا۔ بلاشبہ ان کے پاس مصدقہ معلومات کے ایسے لاتعداد ذرائع اور وسائل ہیں جو اپوزیشن، مبصرین، قلم کاروں اور نشتر زنی کرنے والے سوشل میڈیا کی دسترس میں نہیں۔
وزیراعظم روزانہ ایسی درجنوں فائلیں دیکھتے ہیں جن پر سرخ روشنائی سے ’’انتہائی خفیہ‘‘ یا ’’صرف وزیراعظم کی نگاہ کے لئے‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی ان رپورٹس میں ملک و قوم کی حقیقی صورت حال اور ان کے سچےجذبہ و احساس کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔
یوں جانئے کہ یہ رپورٹس، کسی مستند لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹس، ایکس ریز یا خون کے تجزیوں جیسی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنے کسی عزیز یا دوست کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اللہ نہ کرے یہ کسی تشویشناک مرض میں مبتلا لگتا ہے۔
لیکن مختلف النوع لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس دیکھنے والا ڈاکٹر بتاتا ہے کہ جسے آپ مریض سمجھ بیٹھے ہیں وہ بھلا چنگا ہے۔ اس کی صحت تو قابل رشک ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے کہ عوامی مسائل سے عوام سے بھی زیادہ وزیراعظم کو آگاہی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ عوام بظاہر کتنے ہی پریشان کیوں نہ ہوں، مصدقہ رپورٹس کی بنیاد پر درحقیقت انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ وہ ایسی فلاحی ریاست سے فیض یاب ہو رہے ہیں جو ماضی کی کوئی حکومت تشکیل نہ دےسکی۔
اس باریک نکتے کو سمجھنے کے لئے چینی ہی کی مثال لے لیجئے۔ عوام الناس کی سوچ اس محدود سے دائرے میں گردش کرتی رہتی ہے کہ چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 110 یا 120 روپے تک جاپہنچی ہے۔
میڈیا بھی عوام کو مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے لیکن وزیراعظم کی نگاہ کوچہ و بازار میں قطار بند لوگوں کے بجائے بعض بڑے حقائق پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ میں نے پہلی بار چینی مافیا کی غلط کاریوں پر ہاتھ ڈالا، پہلی بار کمیٹیاں اور کمیشن بنائے، پہلی بار پتہ چلایا کہ عوام کا خون چوسنے والی جونکیں کہاں چھپی بیٹھی ہیں، پہلی بار سٹہ بازوں کا سراغ لگایا۔
یہ سب کچھ سوچتے ہوئے وہ اعلیٰ آفسٹ پیپر اور چرمی جلد سے مزین مختلف رپورٹوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کا دل احساس تفاخر سے چھلکنے لگتا ہے۔ اگر مخالفین، میڈیا اور عوام رپورٹس جیسے عظیم کارنامے کی ستائش کے بجائے محض چینی کی قیمتوں کا رونا روتے رہتے ہیں تو قصور کس کا ہے؟
کیڑا کاری کے مرض میں مبتلا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم تو ریاست مدینہ، عہد نبویؐ اور خلفائے راشدین کے حوالے دیتے ہیں۔ کیا انسانیت کو انقلاب عظیم سے ہمکنار کرنے اور شرق و غرب میں فتوحات کے پھریرے لہرانے والوں نے بھی کبھی اپنی کارکردگی پر اس نوع کا اظہارِ فخر کیا تھا؟ خدا لگتی کہیے۔ اس طرح کی کج بحثی کا آخر کیا جواب دیا جائے؟ کوئی نہیںسوچتا کہ بعض اوقات کارکردگی کا حسن، حدوں سے آگے نکل کر دل و دماغ میں سرشاری کی ایسی کیفیت پیدا کردیتا ہے کہ لہو کی بوند بوند میں شرارے سے بھر جاتے ہیں۔
ایسے میں قوم و ملک کا بے پناہ درد رکھنے اور خوفناک مافیاز کے بارے میں مرصع رپورٹس تیار کروانے والے وزیراعظم کے دل میں اطمینان و آسودگی کا چمنستان کھل اٹھتا ہے۔ سرشاری و مستی کی اس کیفیت میں اگر نہ چاہتے ہوئے بھی وزیراعظم کے منہ سے اظہارِ فخر کا جملہ نکل گیا ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے؟
کج بحثی اور کیڑا کاری کو چھوڑ کر عوام کی زندگی اور ملک کے احوال پر جناب وزیراعظم کی عینک کے خوش رنگ شیشوں سے نگاہ ڈالی جائے اور اگر تنگ و تاریک گلی کوچوں میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح رینگتے عوام کو انہی گلی کوچوں میں کھڑا ہوکر دیکھنے کی بجائے کسی پہاڑ کی بلند، سرسبز و شاداب چوٹی سے دیکھا جائے تو سارا منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے۔
سو ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم کے فخریہ اعلان کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنا انداز نظر اور زاویہ نگاہ بدلا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ مثبت، تعمیری اور انقلابی سوچ رکھنے والا ہر پاکستانی چاہے وہ کئی دنوں سے فاقوں کا مارا ہو، اس کے بچوں کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں سے بھی کوئی لقمہ رزق میسر نہ آیا ہو، اس کی بوڑھی کورونا زدہ ماں چٹائی پر آخری سانسیں لے رہی ہو، وہ بھی اپنے ناتواں پھیپھڑوں کی بچی کھچی توانائی سمیٹ کر ’’فلاحی ریاست زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگائے گا اور اپنے آپ پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا ’’میں نے بھی عمران خان کو ووٹ دیا تھا‘‘۔