’’مجھے اور مریم کو انصاف نہیں ملا۔ میرا اور مریم کا سیاسی قتل کیا گیا ہے۔ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی اور جج ارشد ملک کےبعد اور کتنی گواہیاں درکار ہیں؟‘‘
موسموں کے جبرِ ناروا کا شکار،تین بار پاکستان کا وزیراعظم رہنے والا یہ شخص کچھ نہیں مانگ رہا، صرف انصاف کی دہائی دے رہا ہے۔میں محمد نواز شریف نامی شخص کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ اس کا سینہ رازوں کا دفینہ ہے۔ وہ قومی سلامتی کے تقاضوں کو کہنی مار کر، پریشر ککر کا ڈھکنا سرکا دے توزلزلے تھمنے میں نہ آئیں۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔نوازشریف تو سامراجی قلعوں اور جیلوں کی سرگزشت بھی نہیں سناتا۔ 12 جولائی 2017 کو جب باپ بیٹی جاں بہ لب بیگم کلثوم نواز سے آخری ملاقات کرکے جج بشیر کی سنائی سزا کاٹنے اسپتال سے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر سینکڑوں اہلکاروں کی ناشائستہ دھکم پیل اُنھیں دھکیلتے ہوئے ایک چھوٹے طیارے تک لائی۔ باپ بیٹی کو پہلے اسلام آباد اور پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ کچھ دن بعد رابطہ ہونے پر میں نے میاں صاحب سے پوچھا تو وہ بولے، ’’میرے کہنے کے باوجود انہوں نے مریم کو مجھ سے دور کسی سیل میں ڈال دیا، میرے سیل سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ زمین پر ایک پھٹی پرانی بوسیدہ سی دری پڑی تھی۔ آپ کو پتہ ہے میں جہاز میں سو نہیں سکا تھا۔ زمین پر ہی لیٹ گیا جلد ہی نیند آگئی۔‘‘ مریم نے بتایا، ’’میں نے بہت کہا کہ مجھے ابو کے قریب رکھا جائے لیکن کسی نے نہ سنی۔ سیل میں ایک کھٹارہ سی چارپائی پڑی تھی۔ دو دن پہلے ہی میرے کندھے کی سرجری ہوئی تھی۔ شدید تکلیف ہوئی تو گارڈ سے پوچھا۔ کیا تکیہ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا، نہیں تکیے کی اجازت نہیں۔ اس کے بعد میں نے کبھی کچھ نہیں مانگا۔’’ نواز شریف اب بھی کچھ نہیں مانگ رہا۔ صرف انصاف کا تقاضا کر رہا ہے۔ انصاف جو ہر شہری کی طرح اس کا بھی استحقاق ہےاور اس کی بیٹی کا بھی۔ رائے زنی سے گریز کرتے ہوئے انصاف کی اس کہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 13اپریل 2016کو ’’آئی سی آئی جے‘‘ کی ایک رپورٹ جاری ہوئی جو بعد میں ’’پانامہ پیپرز‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام آئے۔ وضاحت کرنے پر آئی سی آئی جے نے معذرت کرتے ہوئے نواز شریف کا نام خارج کر دیا۔ دو لاکھ چودہ ہزار چار سو اٹھاسی (2,14,488) آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی۔ پاکستان کی پانچ سو شخصیات کا ذکر آیا۔ کوئی ایک کمپنی بھی نوازشریف کی ملکیت نہ تھی۔ لیکن اس کے خون کے پیاسوں نے خنجر سان پر چڑھا لئے۔ 22اپریل 2016کو وزیراعظم نواز شریف نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سے پانامہ پیپرز کا جائزہ لینے کے لئے وسیع الاختیار اور بڑا انکوائری کمیشن قائم کرنے کی باضابطہ استدعا کی۔ تین ہفتے تک اس خط کی کوئی رسید آئی نہ جواب۔ 13 مئی کو سپریم کورٹ نے اس کمیشن کو بے مقصد کہتے ہوئے مسترد کر دیا۔ آگ بھڑکتی رہی۔ تُندخو ہوائیں الاؤ کے گرد رقص کرتی رہیں۔ اگست میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے پانامہ کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔ دونوں درخواستوں کو”FRIVOLOUS“یعنی فضول، غیر سنجیدہ، اوچھی، ناکارہ، بے معنی اور لغو کہہ کر لوٹا دیا گیا۔ دونوں جماعتوں کو رجسٹرار کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ 184(3) کے تحت صرف بنیادی حقوق کے نفاذ کو دیکھا جاتا ہے۔ 7اکتوبر کو عمران خان نے اعلان کیا کہ30اکتوبر کو اسلام آباد کا محاصرہ کیا جائیگا۔ انہی دنوں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور عمران خان کے درمیان رابطے کی ایک خبر آئی۔ 20اکتوبر کو ”فضول اور لغو“قرار دی جانے والی پٹيشنز سماعت کیلئے منظور کر لی گئیں۔ یکم نومبر سے باقاعدہ سماعت کا آغاز ہوگیا۔ خان صاحب کا گھیراؤ اور دھرنا ”جشن فتح“میں بدل گیا۔ پانچ رکنی، تین رکنی اور دو رکنی بنچوں کی ”طلسم ہوش ربا“کا باب نہیں کھولتے۔ 20اپریل کو جزوی عدالتی فیصلے کے بعد ایک حشر بداماں جے آئی ٹی بنی۔ قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والی دو ایجنسیوں کے نمائندے اسکا حصہ بنے۔ پراسرار واٹس ایپ کالز کے ذریعے کچھ”ہیرے“تلاش کئے گئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سہ رکنی بنچ کو جے۔ آئی۔ ٹی کی مسلسل نگرانی کرنے اور پندرہ روزہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا فریضہ سونپا گیا۔ عملاًسپریم کورٹ تفتیشی عمل کا حصہ بن گئی۔ وزیراعظم پہلی بار سرکاری اہلکاروں کے سامنے بطور ملزم پیش ہوا۔ مسندِانصاف پر براجمان دو معزز جج صاحبان نے دوران سماعت ”ملزم“کو سسلین مافیا“ اور ”گاڈفادر“ جیسے خطابات سے نوازتے ہوئے اشارہ دیا کہ کون سی جُوے انصاف پھوٹنے والی ہے۔ دس جلدوں پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ کی پٹاری سے شیش ناگ تو کیاکوئی مریل سا برساتی کینچوا بھی نہ نکلا۔ برطانيہ، سوئٹزر لینڈ، لکسمبرگ اور سعودی عرب کو لکھے گئے درجنوں خطوط بے ثمر نکلے۔ نگر نگر بھیجے گئے کھوجی بھی کوئی ثبوت نہ لاسکے۔ البتہ متحدہ عرب امارات نے حسن نواز کی ایک کمپنی کا سراغ لگایا جو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ کبھی نواز شریف اس کے ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ کاغذوں میں اُن کی ایک تنخواہ بھی مقرر تھی۔ یہ تنخواہ نواز شریف نے وصول نہیں کی لیکن تھی تو تنخواہ ہی نا۔ سو وہ صادق اورامین نہ رہے۔ عمر بھر کے لئے سیاست بدر ہو گئے۔ تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے نیب کو نوازشریف کے خلاف چار ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا۔ پہلی بار نواز شریف کو سزا دینے والے ایک معزز جج کو نیب عدالتوں کا مانیٹرنگ جج بنایا گیا۔ پہلی بار حکم جاری ہوا کہ چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرو۔نواز شریف اپنی بیٹی مریم کا ہاتھ تھامے، احتساب عدالتوں کی راہداریوں کا رزق ہو گئے۔ کرپشن تو ثابت نہ ہوئی لیکن سزائیں سنا دی گئیں۔ سزائیں سنانے والوں میں سے ایک جج ارشد ملک نے نواز شریف کے گھر جا کر روتے ہوئے اپنی کتھا سنائی، دل کا بوجھ ہلکا کیا اور کچھ عرصہ بعد دنیا سے رخصت ہوگیا۔ایک کہانی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج (جسے دو تین ماہ بعد چیف جسٹس بننا تھا)شوکت عزیز صدیقی نے سنائی۔داستان کی چھان بین کرنے کی بجائے، داستان گو کو گھر بھیج دیا گیا جو آج تک بارگاہِ انصاف پر دستک دے رہاہے۔ ایک بیان میں گلگت بلتستان کے جج رانا شمیم نے بھی کچھ انکشافات کئے۔ وہ توہینِ عدالت کے گرداب میں غوطے کھا رہا ہے۔ معتبر گواہوں اور نواز شریف کو ملنے والے انصاف کے چیچک زدہ چہرے کے باوجود تمام سزائیں اپنی اپنی جگہ موجودہیں۔ ان پانچ سو پاکستانیوں کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے تھے۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ عدلیہ اپنی ساکھ اور انصاف کے اعتبار ووقار کیلئے بھی ویسی ہی برق رفتاری دکھائے، جیسی اس نے نواز شریف اور مریم کو سزائیں سنانے اور انہیں سیاسی عمل سے خارج کرنے کے لئے دکھائی تھی۔
نوازشریف نے اپنے لئے اور اپنی بیٹی کے لئے انصاف مانگا ہے۔ اس انصاف کا پہلا اور آخری تقاضا اُن سے ہونے والی ”نا انصافی“کا ازالہ ہے۔چار برس سے اُن کی اپیلیں التوا میں پڑی ہیں۔ مظلوموں کی داد رسی اور آئین، قانون کی سربلندی کے لئے نصف شب کو کھلنے والی مستعد عدالتیں ان پر بھی اک نگاہِ کرم ڈال لیں۔