سال 2019کا یہ میرا آخری کالم ہے۔ اب تک میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میں ہر موضوع پر لکھوں اور مجھے اس بات کا یقین بھی ہے کہ میرے کالم پڑھنے والوں کو ہر ہفتے ایک نئے مو ضوع کو جاننے اور پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میرے مضامین کے ذریعہ لوگوں کے معلومات اور علم میں اضافہ ہوتا رہے اور اس کا ثبوت میرے چاہنے والوں کے فون، ای میل اور فیس بُک کے ذریعہ ان کے مفید مشورے اور حوصلہ افزائی سے ہوتا رہتا ہے۔آج میں نے سوچا کیوں نہ ہم آپ لوگوں سے برطانیہ میں کرسمس کے تہوار اور تنہائی کے موضوع پر گفتگو کریں۔میں سب سے پہلے لوگوں کو کرسمس کے تہوار کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آج اسی مو ضوع پر آپ کو بتائیں گے کہ برطانیہ میں کرسمس کے تہوار کیسے مناتے ہیں اور کیوں اس موقعہ پر لگ بھگ چار ملین لوگ تنہا ئی محسوس کرتے ہیں۔
چند سال قبل بی بی سی ریڈیو کے سروے کے مطابق برطانیہ میں 28% فی صد لوگ کرسمس کے دن تنہا ہوتے ہیں۔ جن میں 7% فی صد نوجوان ہوتے ہیں اور 10%فی صد عمر دراز لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مرد ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی ہے۔ اس مطالعہ میں 28%فی صد لوگوں نے یہ بھی کہا کہ’وہ کرسمس میں بالکل تنہا ہوجاتے ہیں‘۔ وہیں 33%فی صد معمر لوگوں نے جدید تکنالوجی کو الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کی تنہائی کا ایک سبب جدید تکنالوجی ہے جس نے انہیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔ جبکہ 85%فی صد لوگوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے جلنے اور آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرنے کو ترجیح دیا ہے۔ 65%فی صد لوگوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں کرسمس کے موقعہ پر تنہا رہنے والے رشتہ دار، دوست اور پڑوسیوں کی مدد کرنی چاہیے اور کرسمس کے موقعے پر ان سے ملنا جلناچاہیے۔
(Campaign to End Lonelines) کمپین ٹو اینڈ لونلی نیس گروپ کی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ سروے ایک چونکا دینے والی بات ہے لیکن ہمیں اس سروے سے حیرانی سے زیادہ پریشانی ہورہی ہے۔ (Campaign to End Lonelines)کمپین ٹو اینڈ لونلی نیس کی ڈائریکٹر لورا فرگسن نے کہا کہ تنہائی صرف کرسمس کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ تو لوگوں کو پورے سال رہتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کبھی کبھی یہ تنہائی مسلسل نہیں ہوتی ہے اور یہ اس بات پر بھی منحصر کرتا ہے کہ آپ کس وقت اور کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
تنہائی کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے لیکن اس میں شدّت وقت کے ساتھ ساتھ عمر دررازلوگوں میں زیادہ ہو جاتی ہے۔ایک مطالعہ کے مطابق تنہائی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً خراب صحت، ٹرانسپورٹ کی کمی، چلنے پھرنے میں دشواریاں، کم آمدنی،کسی قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجانا، بلا وجہ خوف کھانا اور ریٹائرمینٹ وغیرہ عام ہیں۔
بی بی سی ریڈیو نے اس سروے کو مکمل کرنے کے لئے کئی لوگوں کا انٹرویو لیا تھا ور اس پر پروگرام بھی بنائے تھے۔ جس میں لوگوں سے کرسمس کے موقعہ پر ان کی تنہائی اور اور اس کے اسباب پوچھے گئے تھے۔ 29سالہ جون نے اپنی تنہائی کو ایک خطرناک اور عجیب و غریب کیفیت بتایا ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی تلافی کرنا بے حد مشکل ہے۔ اسی طرح سے 32 سالہ وکی ویڈینگھم جو کہ پیشہ سے ایک اکاونٹنٹ ہیں اور جب انہیں نوکری پانے کے چھ مہینے بعد یہ پتہ چلا کہ ان کو(Breast cancer) بریسٹ کینسر ہے تو وہ ٹوٹ کر رہ گئی تھی۔ ان کا آپریشن ہوچکا ہے اور انہیں ریڈیو تھیراپی اور کیموتھیراپی کے بعد اب کچھ راحت ملی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بیماری کے بعد تنہائی نے گھیر لیا ہے۔ مس ویڈینگھم نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ جب وہ اسپتال میں تھیں تو انہیں وزیٹنگ وقت کے بعد اپنی تنہائی کا کافی احساس ہوتا تھا۔اس وقت انہیں اسپتال میں سوائے اسٹاف کے آنے جانے کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہ دیتا تھااور وہ گھنٹوں دیواروں یا چھت کو دیکھا کرتی تھیں۔ اس کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ وہ صرف اپنی بیماری سے ہی نہیں بلکہ تنہائی سے بھی لڑ رہی تھیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اسپتال سے گھر آنے کے بعد کام پر واپس جانا ان کے لئے بے حد مشکل ہوگیاتھا جبکہ آفس کے تمام لوگوں کا رویہ مس ویڈینگھم کے تئیں کافی ہمدرد اور نرم ہے لیکن مس ویڈینگھم اپنی کینسر کی وجہ سے اپنے آپ کو کافی تنہا محسوس کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ اتنے زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی ہیں اور وہ اپنا زیادہ تر وقت کام پر گزارتی ہیں جس سے ان میں اتنی طاقت نہیں رہتی ہے کہ وہ دیگر کام یا تفریح کی طرف دھیان دیں۔ اس طرح مس ویڈینگھم کا اب زیادہ تر وقت تنہا گھر پر گزرتا ہے۔
اسی طرح سے بی بی سی ریڈیو نے(Burton Sewing Group) برٹن سیونگ گروپ پر جا کر 35عورتوں کے ایک گروپ سے بات چیت کی جو اس سینٹر میں آکر ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور اپنی من پسند ڈیزائن کی سوئٹر اور چادریں تیار کرتی ہیں۔ ان عورتوں کا ماننا ہے کہ اس سینٹر میں آنے سے ان کا وقت اچھا گزرتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے مل کر اور باتیں کر کے اپنی تنہائی کو دور کر لیتی ہیں۔ گروپ لیڈر این کار کا کہنا ہے کہ آپ بھرے ہوئے کمرے میں بھی تنہا ہوسکتے ہیں لیکن ہماری سیونگ گروپ بالکل اس کے بر عکس ہے کیونکہ یہاں ہر کوئی آپ کو ایک دوسرے سے بات چیت کرتا ہوا پایا جا ئے گا۔
مانچسٹر کے علاقے میں بی بی سی نے ایک فلم بنائی تھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ (Autistic) آٹسٹک بچے گانے لکھ رہے ہیں جب کہ یہ بچے اپنے گھروں میں اکثر ہا تنہا اور خاموش رہتے ہیں۔ یہ بچے اپنی بیماری سے عام لوگوں سے الگ تھلگ ہوجاتے ہیں لیکن ان بچوں کو گانے لکھنے کا موقعہ فراہم کرکے (Manchester Camerata orchestra’s Songlines) مانچسٹر کاممیراٹا اورکیسٹرا سونگلی نیسنے نہ ان کی تنہائی کو دور کیا ہے بلکہ ان میں ایک نئی امنگ بھی پیدا کر دی ہے۔
برطانیہ میں تنہائی کے اس مسئلے پر حکومت نے بھی کئی بار بیانات دئیے ہیں اور تنہائی سے گھرے لوگوں کے بارے میں اسے ’قومی شرمندگی‘ کہا ہے۔ حکومت نے اس مسئلہ پر اپنے دُکھ کا اظہار کیا ہے اور لوگوں سے اپیل کی ہے وہ معاشرہ میں ایسے لوگوں کی مدد کریں جو کسی وجہ سے تنہا ہیں۔ اس سلسلے میں تنہائی سے گھرے لوگوں کے لئے کئی پراجیکٹ بھی شروع کرنے کاا علان کیا گیاہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ برطانیہ میں کرسمس کا تہوار لوگ مذہبی اعتبار سے کم بلکہ روایتی اعتبار سے زیادہ مناتے ہیں۔د سمبر کے مہینے میں دکانوں میں خرید و فروخت کافی بڑھ جاتی ہے۔ ان دکانوں میں (John Lewis,Selfridges,Harrods) ہیروڈس، سیلگ ریجیز اور جون لویس معروف نام ہیں جہاں بھاری تعداد میں لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔تاہم برطانیہ میں آن لائن شاپنگ کے رحجان سے شاپنگ سینٹر کی بھیڑ میں اس بار کمی پائی جارہی ہے۔
کرسمس کے دن گھروں میں زیادہ تر لوگ(Turkey)تَرکی (جو مرغ کی نسل سے بڑا ہوتا ہے) پکاتے ہیں۔ اس کے ساتھ کئی قسم کی سبزیاں بھی ہوتی ہیں اور ساتھ میں شراب کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ اُس دن لوگ نئے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر مزاحیہ پروگرام یا فلم دیکھتے ہیں۔ اس دن پبلک ٹرانسپورٹ مکمل بند ہوتا ہے لیکن ائیر پورٹ کھلا رہتا ہے جہاں سے لاکھوں لوگ اپنے منزل و مقصود کے لئے پرواز کرتے ہیں۔
کرسمس میں لوگ اپنے گھروں کو رنگ برنگے بتیوں سے سجاتے ہیں اور کئی علاقوں میں گھروں کی بہترین سجاوٹ کے لئے انہیں انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ گھروں میں کرسمس ٹری بھی لگا یا جاتا ہے جو کہ کرسمس تہوار کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس موقعہ پر بہت سارے لوگ فادر کرسمس کی بھیس میں بچوں کو تفریح کا سامان پیش کرتے ہیں اور مقامی چیریٹی کے لئے پیسہ بھی اکھٹا کرتے ہیں۔پورے دسمبر کے مہینے میں چیریٹی گروپ کیرول(کرسمس کے گیت) گا کر چیریٹی کے لئے پیسہ جمع کرتے ہیں۔ کرسمس کے دوسرے روز باکسنگ ڈے ہوتا ہے جس دن لوگ تحفہ کو کرسمس ٹری کے قریب رکھ دیتے ہیں جسے بچے صبح اٹھ کر کھولتے ہیں۔ اس دن زیادہ تر دکانوں میں باکسنگ ڈے سیل بھی لگتا ہے جہاں لوگ سستے داموں میں سامان خریدنے کے لئے جاتے ہیں۔
میں نے کئی برسوں تک کرسمس کے دن بے گھر لوگوں کے ڈے سینٹر میں جا کر ان کی دیکھ بھال اور ان سے بات چیت کر کے ان کی تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے میں نے اپنی انسان دوستی کا نمونہ تو پیش کیا ہے لیکن مجھے ہمیشہ کسی بھی تہوار پر انسان کی تنہائی اور بے بسی کا دُکھ کچھ پل کے لئے مایوس اور افسردہ بھی کردیتی ہے۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معاشرے میں جس تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور جس سے لوگوں میں جہاں طرز ِزندگی میں بدلاؤ آیا ہے وہیں اس کے ساتھ معاشرے میں تنہائی کا بھی احساس بڑھا ہے۔ روز مرہ کے کام و کاج کا دباؤ اور دیگر حالات نے جہاں انسان کی زندگی کو مصروف کر رکھا ہے تو وہیں کرسمس جیسے تہوار نے چارملین لوگوں کوتنہا ئی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ہمیں ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والا سال ہم سب کے لئے نیک ہو اورخوشیوں سے بھرا ہو۔
نیا سال مبارک ہو۔