Site icon DUNYA PAKISTAN

رفتار پہلے جیسی ہے، اللہ نہ کرے میرے جیسی انجری کسی کو ہو: شاہین شاہ آفریدی

Share

کسی بھی فاسٹ بولر کے لیے وہ لمحات بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں جب وہ کسی انجری کی وجہ سے کرکٹ سے دور ہونے کے باعث اس ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ کب دوبارہ کھیلنے کے قابل ہو سکے گا؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی اس صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد اب دوبارہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ تو بن چکے ہیں لیکن وہ اُن گئے دنوں کو بھولنے کے لیے تیار نہیں جب وہ اپنے گھٹنے کا علاج کروا رہے تھے۔

اس عرصے میں پاکستانی ٹیم بھی انھیں شدت سے یاد کر رہی تھی اور خود شاہین بھی جلد واپسی کے لیے بے قرار تھے۔

شاہین آفریدی کو گھٹنے کی تکلیف سری لنکا کے خلاف گال ٹیسٹ میں فیلڈنگ کے دوران ہوئی تھی۔ اُن کی واپسی تک پاکستانی ٹیم ایک ٹیسٹ، تین ون ڈے انٹرنیشنل اور 18 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اُن کے بغیر کھیلی ہے۔

شاہین شاہ آفریدی کہتے ہیں کہ ’اگر اس طرح کی انجری کسی کھلاڑی کو ہوتی ہے تو اس کے تین مہینے کے بعد اس کے لیے واپس آنا آسان نہیں ہوتا۔ اور جیسی انجری مجھے ہوئی اللہ نہ کرے کسی کو ہو کیونکہ جسے یہ انجری ہوتی ہے اسے  پتہ ہوتا ہے کہ اس میں کتنی مشکلات ہیں۔‘

’دو ماہ اکیلے رہنا آسان نہیں تھا‘

شاہین آفریدی کہتے ہیں کہ ’مجھے پہلے کبھی انجری نہیں ہوئی تھی لیکن جس صورتحال سے میں دوچار ہوا وہ بہت مشکل وقت تھا۔ دو ماہ میں اکیلے ایک کمرے میں تگ و دو کر رہا تھا لیکن اس عرصے میں اپنے ٹیم کے ساتھی اور دوست آپ کی ہمت بڑھاتے ہیں۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ فٹ ہوکر یہ ورلڈ کپ ضرور کھیلوں گا اور اللہ نے مجھے فٹ کر دیا۔‘

شاہین بتاتے ہیں کہ ’پہلے تو میں صحیح طرح چل بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ سوجن زیادہ ہو جاتی تھی لہذا میں صرف جم میں جایا کرتا تھا۔ آخری دو ہفتے میں انڈور میں بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں چاہتا تھا کہ آسٹریلیا کے سخت میدانوں میں بولنگ کے لیے مجھے پریکٹس مل جائے۔ چونکہ آؤٹ ڈور سیزن ختم ہو چکا تھا لہذا میرے پاس یہی انڈور بولنگ کا آپشن موجود تھا۔‘

شاہین شاہ آفریدی کی اس انجری کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ معاملہ اس وقت اُٹھا جب شاہد آفریدی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر الزام عائد کیا کہ اس نے شاہین شاہ آفریدی کو انگلینڈ بھیجنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور یہ کہ شاہین اپنے خرچ پر علاج کے لیے گئے ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور عام شائقین نے اس بات پر بھی سخت غصے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کو فوری طور پر لاہور میں اپنے ہائی پرفارمنس سینٹر بھیجنے کے بجائے ٹیم کےساتھ ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات میں ساتھ رکھا اور علاج کے لیے انگلینڈ بھیجنے میں تاخیر کی۔

’میری رفتار پہلے جیسی ہی ہے‘

شاہین آفریدی کہتے ہیں کہ ’میری رفتار پہلے بھی 135 اور 140 کے درمیان ہوتی تھی، یہ رفتار اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔ میری کوشش ہے کہ اپنی فٹنس کو مکمل بحال کروں کیونکہ میچ فٹنس بالکل مختلف ہوتی ہے اور جب آپ تین ماہ بعد میچ کھیلتے ہیں تو پوری جان نہیں لگتی۔‘

ٹورنامنٹ  میں پہلی وکٹ

شاہین آفریدی کے لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے دو میچ وکٹ سے خالی رہے تھے۔

انڈیا کے خلاف چار اوورز میں انھوں نے 34 رنز دیے تھے۔ زمبابوے کے خلاف ان کے چار اوورز میں 29 رنز بنے تھے۔ وہ شان ولیئمز کی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے اگر افتخار احمد کیچ ڈراپ نہ کرتے۔

ہالینڈ کے خلاف میچ میں شاہین آفریدی نے اپنے دوسرے ہی اوور میں مائی برگ کی وکٹ حاصل کر کے وکٹ نہ لینے کا جمود توڑا۔ وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ اگلے میچوں میں وہ ان کی بولنگ میں مزید بہتری آئے گی۔

شاہین آفریدی 25 ٹیسٹ میچوں میں 99 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان کا دورہ کرنے والی ہے اور شاہین آفریدی کے لیے موقع ہوگا کہ وہ یکم سے پانچ دسمبر تک راولپنڈی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں سو وکٹوں کا سنگ میل عبور کر لیں۔

Exit mobile version