تاریخ کا سب سے شدید زلزلہ، جس نے زمین کا جغرافیہ بدل کر رکھ دیا
22 مئی سنہ 1960 کو لاطینی امریکہ کے جنوب میں واقع ملک چلی میں تاریخ کا سب سے شدید زلزلہ آیا تھا۔
اس وقت دوپہر کے 3:11 بج رہے تھے کہ تقریباً 10 منٹ تک بحرالکاہل کی ساحلی پٹی کے تقریباً پانچ ہزار کلومیٹر میں سے ایک ہزار کلومیٹر کے رقبے میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
اس زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 9.5 تھی اور اس کی وجہ سے زمین سے اتنی توانائی باہر پھوٹ نکلی جتنی کہ ہیروشیما پر برسنے والے 20,000 بموں سے نکلتی۔
اس کے نتیجے میں جو سونامی پیدا ہوئی اس کی وجہ سے سمندر میں 25 میٹر بلند لہریں اٹھیں۔ ان لہروں نے جہاں بہت سے ساحلی قصبوں کو دفن کر دیا وہیں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بھی بنیں۔
یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے جنوب میں آنے والے اس زلزلے میں 1600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ تین ہزار زخمی ہوئے اور 20 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔
چلی کا جغرافیہ بدل گیا۔ ایسے قصبے بھی تھے جو ڈوب گئے اور ایسے بھی علاقے دیکھے گئے جو کئی میٹر بلند ہو گئے۔ ایک آتش فشاں پھٹا اور کئی دریاؤں نے اپنا راستہ بدل لیا۔
زلزلے کا قہر پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ زلزلے کی لہروں نے کرہ ارض کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب زمین ہل رہی تھی اسی دوران سمندر میں ایک سونامی پیدا ہو رہا تھا جس نے امریکہ، ہوائی، فلپائن اور جاپان کے مغربی ساحلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اس کی وجہ سے مجموعی طور پر 200 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
چلی میں آنے والے اس زلزلے کو 62 سال بعد بھی ملک کی سب سے بڑی تباہی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
بہرحال اس تباہی نے سائنس اور آفات سے بچاؤ کے لیے قیمتی اسباق بھی چھوڑے۔
ایک المناک دن
21 مئی سے چلی کے ساحل کنسیپشیئن کے قریب آٹھ سے زیادہ شدت کے شدید زلزلے آ رہے تھے لیکن اس کے اگلے دن زیادہ بڑا جھٹکا آیا۔
والڈیویا شہر کے ساحل سے تقریباً 160 کلومیٹر دور نازکا کی ٹیکٹونک پلیٹ جنوبی امریکی پلیٹ سے تقریباً 30 میٹر نیچے چلی گئی۔
ایسے معاملے جس میں دو متصل پلیٹیں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں اس صورت کو ’سبڈکشن زون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دو پلیٹوں کے درمیان ہونے والی رگڑ نے صدیوں کی ذخیرہ شدہ توانائی چھوڑی اور اس کے نتیجے میں والڈیویا اور پورٹو مونٹ کے درمیانی خطے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
زیادہ تر تباہی ساحل کے ساتھ سونامی کی لہروں کی وجہ سے ہوئی۔ پیورٹو، ساویدرا جیسے شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور کورال جیسے دیگر مقامات پر شدید نقصانات ہوئے۔
زلزلے نے علاقے کا جغرافیہ بدل کر رکھ دیا
والڈیویا میں زمین 2.7 میٹر تک دھنس گئی۔ شہر کے گردونواح میں کئی ندیوں نے اپنا راستہ بدل لیا۔ کچھ میدانی علاقے دلدل والے علاقے ہو گئے اور ہزاروں ہیکٹر فصلوں پر مشتمل کھیت اور چراگاہیں ضائع ہو گئیں۔
چلی میں آسٹرل یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ارتھ سائنسز کے ایک محقق اور ماہر ارضیات ڈینیئل میلنک نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اس نے زمین کے لینڈ سکیپ (یعنی قدرتی منظر) کو یکسر تبدیل کر رکھ دیا۔‘
میلنک کا کہنا ہے کہ ’آپ اب بھی والڈیویا کے گردونواح میں دریا کے بیچ میں ٹیلیفون کے کھمبے، باڑ کی تاریں اور ڈوبی ہوئی سڑکیں دیکھ سکتے ہیں۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ دلدل کے علاقوں کی تشکیل نے نئے اقسام کے پودوں اور پرندوں کی انواع کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا جو اس خطے میں پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔
میلنک بتاتے ہیں کہ ماولن اور چیلوئے میں زمین کا ڈوبنا بھی ’سفاک معاملہ‘ تھا۔
اس کے برعکس دوسری جگہوں پر زمین دھنسنے کے بجائے ابھر آئی یعنی سطح اونچی ہو گئی۔ مثال کے طور پر گوافو جزیرہ چار میٹر بلند ہو گیا تھا اور گوامبلن جزیرہ 5.6 میٹر بلند ہو گیا۔
24 مئی کو یعنی زلزلے کے دو دن بعد پویہوئے آتش فشاں پھٹ پڑا، جس سے بھاپ اور راکھ 6,000 میٹر کی بلندی تک اڑتے رہے۔
اس آتش فشاں کا پھٹنا کئی ہفتوں تک جاری رہا اور یہ پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے پھٹا تھا جس کے سبب براعظم پھیل گیا۔
میلنک کا کہنا ہے کہ یہ ایسا تھا ’گویا آپ نے شراب کی بوتل سے کارک نکال دیا ہو۔‘
زلزلے کے بعد چلی کا رقبہ 1500 فٹبال کے میدانوں کے برابر بڑھ گیا۔
مجموعی اثرات
زلزلے کی وجہ سے ایک سمندری لہر اٹھی جو پورے بحرالکاہل میں پھیل گئی۔ ٹیکٹانک پلیٹوں کے درمیان کی رگڑ نے سمندر کو 3000 میٹر گہرائی تک ہلا دیا۔
سب سے زیادہ اثر چلی میں ہوا، جہاں کچھ علاقوں میں خلیج کی شکل میں سونامی کی وجہ سے اضافہ ہو گیا لیکن سونامی سے اٹھنے والی لہریں کرہ ارض کے دوسرے کنارے تک بھی پہنچیں۔
ہوائی کے علاقے ہیلو میں زلزلے کے 15 گھنٹے بعد سونامی آئی جس کے نتیجے میں 61 افراد ہلاک ہو گئے اور شدید قسم کے نقصانات ہوئے۔ وہاں 10 میٹر سے بھی بلند لہریں دیکھی گئیں۔
فلپائن میں سونامی کی لہروں سے 32 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ایسٹر آئی لینڈ اور کیلیفورنیا میں بھی نقصانات ہوئے۔
چلی سے باہر کوئی 17,000 کلومیٹر دور جاپان میں سب سے بڑی تباہی ہوئی، جہاں زلزلے کے 22 گھنٹے بعد 5.5 میٹر بلند لہریں ہونشو کے علاقے میں پہنچ گئیں، جس سے 1600 گھر تباہ اور 138 افراد ہلاک ہوگئے۔
کرۂ ارض ہل گیا
چلی نام نہاد ’رنگ آف فائر‘ یعنی ایسے علاقے میں واقع ہے جو بحرالکاہل کے آس پاس کا علاقہ ہے اور جہاں بڑے بڑے زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹتے رہتے ہیں۔
سنہ 1960 کا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اس نے کئی دن تک پورے سیارے کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ زلزلہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے زمین کی گردش کو بھی متاثر کیا اور دن کی رفتار کو کئی ملی سیکنڈ کم کر دیا۔
میلنک نے واضح کیا کہ ’یہ تبدیلیاں لوگوں کو محسوس نہیں ہوتی ہیں‘ لیکن پیمائش کرنے والی ٹیم نے ان کا نوٹس لیا ہے‘ لیکن زلزلے کے دردناک اور متاثر کن اثرات نے ان مظاہر کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کے لیے کئی اسباق چھوڑے۔
مثال کے طور پر اس سے سیاروں میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے یہ بہتر طور پر سمجھنا ممکن ہوا کہ زلزلے کی لہریں زمین کے اندر کیسے سفر کرتی ہیں۔
اس زلزلے سے پہلی بار کرے کے ارتعاش یا لہراؤ کو شواہد ملے جو کہ اس کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مفید ثابت ہوئے۔
ان ارتعاش کو سمجھنے کی وجہ سے زلزلے کے بعد سونامی کی وارننگ دینے کا عمل بھی بہتر ہوا۔
درحقیقت چلی کے اس خوفناک زلزلے کے نتیجے میں سنہ 1965 میں سونامی وارننگ سسٹم بنایا گیا جو دنیا بھر میں سونامی کا پتا لگانے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ماہرین ارضیات آج اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چلی کی طرح ایک بڑا زلزلہ تقریباً ہر 300 سال بعد آ سکتا ہے اور ایسے بڑے زلزلے کہاں آ سکتے ہیں۔
لیکن میلنک کے لیے تکنیکی اسباق کے علاوہ زلزلے کی کہانیوں کو یاد رکھنا بھی بہت قیمتی ہے۔
مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ تباہی کو برداشت کرنے والوں کی شہادتوں نے بقا کی حکمت عملی وضع کرنے میں مدد کی اور یہ کہ نئی نسلیں اس سے لڑنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
اس زلزلے کے دوران زندگی گزارنے والے لوگوں کی کہانیاں نئی نسلوں کے لیے ایک سبق ہیں اور یہ بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بہت کارآمد رہی ہیں کہ زلزلہ اور سونامی کیسے کام کرتے ہیں۔
یہ کہانیاں یہ بھی بتاتی ہیں کہ بہتر طریقے سے تیاری کیسے کی جائے اور ناگزیر اورغیر متوقع صورتحال کے سامنے کیسے کام کیا جائے۔
چلی کے زلزلے کے تناظر میں میلنک یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’زلزلے کو یاد رکھنے سے جانیں بچتی ہیں۔‘