اورنگزیب عالمگیر، جنھوں نے اپنے بیٹے کو ہندی سکھانے کے لیے ڈکشنری بنوائی
اورنگزیب عالمگیر کو ہندوؤں سے نفرت کرنے والے ایک سخت گیر اسلامی حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر وہ تاریخ کا ایک ایسا پیچیدہ کردار ہیں جن کی کہانی میں موجود کئی چیزیں لوگوں کو حیران کر سکتی ہیں۔
اورنگزیب کے بھائی دارا شکوہ ایک اعتدال پسند شہزادے تھے جنھوں نے ویدوں اور اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا۔ اقتدار کی جنگ میں اورنگزیب نے سنہ 1659 میں اُن کا قتل کروا دیا تھا۔
مگر اورنگزیب نے ایک ایسا دلچسپ کام بھی کیا جو اُن کی شخصیت کے ایک نسبتاً پوشیدہ پہلو کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے بیٹے کے لیے ایک ہندی فارسی لغت تیار کروائی تھی۔
تاریخ دان اوم پرکاش پرساد کی کتاب ’اورنگزیب: ایک نئی درشٹی‘ (ایک نیا زاویہ) میں وہ کہتے ہیں کہ اس ہندوستانی ڈکشنری کا نام ’تحفتہ الہند‘ تھا اور اسے اس طرح تیار کروایا گیا کہ فارسی جاننے والا شخص ہندی بھی سیکھ سکے۔
اس لغت کے ذریعے اورنگزیب کے تیسرے بیٹے اعظم شاہ کو ہندی سکھائی گئی اور اب یہ کئی لائبریریوں میں موجود ہے۔ ان میں سے ایک پٹنہ کی مشہور خدا بخش خان اوریئنٹل لائبریری ہے جس نے حال ہی میں عوام کے لیے یہ لغت شائع کروائی ہے۔
اعظم شاہ کا مکمل نام ابوالفصل قطب الدین محمد اعظم تھا۔ سنہ 1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد اعظم شاہ تقریباً تین ماہ کے لیے تخت پر بیٹھے مگر اُن کے سوتیلے بھائی شاہ عالم نے اعظم شاہ کو ایک جنگ میں قتل کر دیا حالانکہ اورنگزیب نے اپنی زندگی میں اُنھیں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔
وہ 14 مارچ 1707 کو تخت پر بیٹھے مگر 12 جون 1707 کو وہ آگرہ کے قریب ایک جنگ میں شکست کھا گئے اور ہلاک ہوئے۔
لغت کی خصوصیات
یہ ڈکشنری مرزا خان بن فخرالدین محمد نے سنہ 1674 میں تیار کی تھی۔ خدا بخش خان لائبریری کی ڈائریکٹر شائستہ بیدار کہتی ہیں کہ ’اس لغت میں ہندی اور برج بھاشا کے الفاظ ہیں۔ ہر لفظ کے بعد اس کا تلفظ اور اس کے معانی فارسی زبان میں تحریر کیے گئے ہیں۔‘
مثال کے طور پر ’چمپا‘ لفظ کے سامنے فارسی میں لکھا ہے کہ کن حروف پر زور دینا ہے۔ اس کے بعد فارسی میں ہی اس کا مطلب کچھ یوں تحریر ہے: ’مشہور سنہری پھول جو سفیدی مائل ہوتا ہے۔ اسے ہندوستان کے شاعر محبوب کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور محبوب کو اس کی کلی سے تشبیہ دیتے ہیں۔‘
اس کے بعد ’چِنتا‘ کے بارے میں فارسی میں لکھا ہے کہ اس کا مطلب ہندی میں فکر یا شبہ ہے۔ اسی طرح رتھ کو چار پہیوں والی گاڑی بتایا گیا ہے۔
مغل دور میں فارسی دربار کی زبان تھی اور اب فارسی کے کئی الفاظ ہندی یا ہندوستانی زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ہندی ڈکشنری شہزادے کی تعلیم و تربیت کے لیے تیار کروائی گئی ایک وسیع تر انسائیکلوپیڈیا کا حصہ ہے جس کے دوسرے حصوں میں ہندوستانی طب، موسیقی، علمِ نجوم اور دیگر علوم شامل ہیں۔
شائستہ بیدار کا ماننا ہے کہ اس لغت کی اشاعت کا مقصد ’مذہبی اور سماجی ہم آہنگی‘ کو فروغ دینا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’خدا بخش خان لائبریری ہندی میں مستعمل اردو اور فارسی الفاظ اور اردو میں مستعمال سنسکرت و ہندی الفاظ کی ایک فہرست مرتب کر رہی ہے تاکہ زبانوں کے ارتقا میں زبانوں کے باہمی تعاون کو سمجھا جا سکے۔‘
مغل بادشاہوں کی ہندی شاعری
ہندی مصنف، نقاد اور دلی کی جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر مناگر پانڈے نے اپنی کتاب ’مغل بادشاہوں کی ہندی شاعری‘ میں اعظم شاہ کی ہندی شاعری کا تذکرہ کیا ہے جس میں غربت کے خاتمے کے لیے ہندو خداؤں گوری اور شیو سے دعا کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی نظم وہی شخص لکھ سکتا ہے جو زبان پر عبور رکھتا ہو۔ مناگر پانڈے نے اپنی کتاب میں اکبر سے لے کر بہادر شاہ تک مغل بادشاہوں کی ہندی شاعری مرتب کی ہے۔
یورپی فزیشن اور سیاح فرانسوا برنیئر نے اورنگزیب کے بارے میں ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے۔ ’بادشاہ بننے کے بعد اورنگزیب نے ایک عالمِ دین سے کہا تھا کہ ’ایک بادشاہ کے لیے مقامی زبان دین کی زبان سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔‘
کئی مؤرخین نے اورنگزیب کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ عربی اور فارسی میں ماہر تھے۔ ان کے خاندان میں ہندی زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اورنگزیب کو کئی ہندی محاورے یاد تھے اور انھیں استعمال کرتے تھے۔
شاعری میں دلچسپی اور زبان کا علم اورنگزیب کی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر بات ہوتی رہے گی۔
مشہور مؤرخ آڈری ٹریشکے اپنی ایک کتاب ’اورنگزیب: دی مین اینڈ دی متھ‘ میں کہتی ہیں کہ ’اورنگزیب کا کردار پیچیدہ ہے اور انھیں کسی ایک سانچے میں فٹ کرنا نہایت مشکل ہے۔‘