Site icon DUNYA PAKISTAN

چھاتی کا کینسر: ’آپ کو ڈاکٹر کے پاس تاحیات جانا پڑتا ہے کیونکہ یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے‘

Share

’میری امی یہ پروگرام دیکھ کر کہیں گی کہ تمہیں بریسٹ کینسر پر ہی بات کرنی تھی۔‘ قائدِ اعظم یونیورسٹی کی طالبہ نے ہنستے ہوئے اپنی دوست کو کہا۔

کچھ اسی طرح کا ردعمل زیادہ تر لڑکیوں کی طرف سے ملا جب ان سے صرف یہ پوچھا گیا کہ کیا انھیں خود سے اپنا معائنہ کرنا آتا ہے۔

ان میں سے چند لڑکیوں کو بریسٹ (چھاتی) لفظ سن کر یا تو ہنسی آرہی تھی یا پھر شرم۔

کسی نے کہا کہ گھر والے اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو کسی نے کہا کہ مجھ میں اتنی خود اعتمادی نہیں کہ ’ٹی وی پر بریسٹ پر بات کرسکوں‘ حالانکہ ان طالبات سے سوال چھاتی کے کینسر پر کیا جا رہا تھا نہ کہ بریسٹ پر۔

ان تمام باتوں کو سن کر لگا کہ شاید چھاتی کے کینسر کے معاملے میں زیادہ تر لوگوں کی توجہ کا مرکز ’بریسٹ‘ ہو جاتا ہے اور کینسر پر بات کرنا کہیں دور ہی رہ جاتا ہے۔

لیکن ایسے بھی لوگ ملے جنھوں نے بتایا کہ انھوں نے نہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا معائنہ کرنا سیکھا بلکہ اپنے گھر میں موجود خواتین کو ایسا کرنے پر راغب بھی کیا۔

دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے سرطان کی آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اس بار بی بی سی نے چند ایسی خواتین سے بات کی ہے، جن میں ایک نرس بھی شامل ہیں جنھوں نے دو بار اس کینسر سے نجات حاصل کی۔

ایک ایسی خاتون بھی شامل ہیں جن کے خاندان میں بریسٹ کینسر کی تاریخ رہی ہے اور ساتھ ہی ڈاکٹروں سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بریسٹ کینسر کے کیسز پاکستان میں اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ان بڑھتے ہوئے کیسز کی تعداد اس وقت 26000 ہزار ہے جبکہ 13500 اموات اب تک ریکارڈ ہو چکی ہیں۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر سے موت نہیں ہوتی لیکن اگر جلد تشخیص نہ ہو اور ڈاکٹروں سے رجوع نہ کیا جائے تو پھر بریسٹ کینسر سمیت دیگر بیماریاں بھی حملہ آور ہوکر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں اور موت کا باعث بن سکتی ہیں۔

’یقین نہیں آیا کہ مجھے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے‘

رخسانہ ستار کو نومبر 2020 میں بائیں طرف کی چھاتی میں شدید درد ہوا۔ ڈاکٹر کو دکھانے پر پتا چلا کے انفیکشن ہے لیکن بائیوپسی کرانے پر پتا چلا کہ بریسٹ کینسر ہوچکا ہے۔

رخسانہ کے خاندان میں خواتین کو چھاتی کا کینسر ہوتا رہا ہے۔

’میری نانی کی بہن کو 40 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کا آپریشن بھی ہوا لیکن کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میری نانی کو 70 سال کی عمر میں کینسر ہوا۔ مجھے دو سال پہلے ہوا اور میری امی میں رواں سال رمضان کے مہینے میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی۔‘

رخسانہ نے کہا کہ خاندان میں ان تمام تر کیسز ہونے کے باوجود انھیں ’یقین نہیں آیا کہ انھیں بھی یہ بیماری ہوسکتی ہے۔‘

دوسری جانب ڈاکٹر ریحانہ پنجوانی کو پچھلے دس سال میں دو مرتبہ بریسٹ کینسر ہوا اور انھوں نے دونوں مرتبہ اس مرض سے دواؤں اور علاج کے ذریعے چھٹکارا پایا۔

’میں اس وقت کینسر سے مکمل طور پر پاک ہوں۔ میرے پیٹ کے سکین میں کینسر کی تشخیص نہیں ہوئی جبکہ میں اس وقت علاج کے لیے دوا بھی استعمال کررہی ہوں۔ اس بیماری میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس تاحیات جانا پڑتا ہے کیونکہ یہ بیماری دوبارہ آسکتی ہے۔‘

جیسے کہ ان کے اپنے کیس میں پہلی مرتبہ تشخیص اور علاج کے آٹھ سال بعد ان میں دوبارہ بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوگئی۔

’اس دوران میرے گھر والے میرے ساتھ تھے لیکن اس کے ساتھ میں نے اپنے خیالات پر بہت کام کیا۔ خود کو سمجھانا اور بار بار دہرانا کہ میں کینسر سے بچ جاؤں گی کبھی کبھار مشکل لگتا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے اس مرض کے ذریعے اپنی ہمت بھی جانچ لی جو مجھ میں بہت ہے۔‘

’سموکنگ یا پیسوو سموکنگ بریسٹ کینسر کی وجوہات میں سے ایک‘

بریسٹ کینسر کے بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں خاندان میں لوگوں کی آپس میں شادیاں ہونا بھی ان وجوہات کا حصہ ہیں اور خاص طور سے اگر اس خاندان میں کینسر کی تاریخ رہی ہے تو اس سے بھی یہ رجحان بڑھ جاتا ہے۔

چھاتی کے کینسر کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کراچی کے انڈس ہسپتال میں جنرل سرجری کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر غِنا شمسی نے بتایا کہ ’اس میں وہ تمباکو نوشی بھی شامل ہے جسے ’پیسوو سموکنگ ‘کہتے ہیں یعنی جو آپ خود نہیں کرتے لیکن اس جگہ موجود ہوتے ہیں جہاں سگریٹ کا دھواں آپ تک پہنچ رہا ہو۔ یہ بھی بریسٹ کینسر ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بہت زیادہ پروسیسڈ فوڈز کھانا، یا پروسیسڈ گوشت کھانا، ورزش نہ کرنا یہ ساری چیزیں بھی بریسٹ کینسر بننے کی وجہ بنتی ہیں۔‘

ایک اور چیز جو بریسٹ کینسر کی آگاہی کے آڑے آتی ہے، وہ اس مرض کے بارے میں غلط معلومات ہیں۔

ڈاکٹر غِنا نے بتایا کہ سب سے پہلے یہ کہ برا کا سائز یا غلط بناوٹ، بریسٹ کینسر کے ہونے یا نہ ہونے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر غِنا نے بھی بتایا کہ ڈیوڈرینٹ یا پرفیوم استعمال کرنے سے بھی بریسٹ کینسر نہیں ہوتا۔ بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والی سوئی سے بھی کینسر نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ ’بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے اور اس سے آپ کی جان نہیں جاتی اور نہ ہی آپ کے بریسٹ ختم ہوجاتے ہیں۔‘

’یہ تاثر بھی غلط ہے کہ جن لوگوں میں کینسر کی تشخیص نہیں ہوئی انھیں بریسٹ کینسر نہیں ہوسکتا۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں نو میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں بریسٹ کینسر ہوسکتا ہے۔‘

ان سب باتوں کے علاوہ ایک بہت بڑا عنصر شرم کا ہے۔

’لوگ چھاتی کے سرطان پر بات کرنے سے کتراتے ہیں‘

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے بہت سے مریض بریسٹ کینسر کے بارے میں خاصی دیر سے کھل کر بات کرتے ہیں۔

ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی ڈاکٹر مریم نعمان نے بتایا کہ ’بہت سے لوگ چھاتی کے سرطان کو جنسی تناظر میں دیکھتے ہیں اور اسی لیے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔‘

اس بات کا اندازہ اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں متعدد خواتین سے بات کرکے ہوا۔ جہاں زیادہ تر اس موضوع پر بات کرنے سے کترارہے تھے۔

طلبہ حنا عالم نے بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا معائنہ کرنا سیکھا اور اس سے انھیں خاصی مدد بھی ملی۔

انھوں نے کہا کہ اب ایسا زمانہ نہیں کہ لوگ اس بارے میں شرمائیں یا کترائیں۔ ’یہ خواتین کی صحت کا معاملہ ہے اور اس پر بات کرنے سے ہی بات بنے گی۔ ورنہ یونہی شرماتے ہوئے زندگی گزر جائے گی اور مرض بھی ہوجائے گا۔‘

اسی طرح ایک اور طلبہ نے کپڑوں کے ایک برانڈ کی ویڈیو دیکھی جس کے نتیجے میں انھیں اپنی مدد آپ معائنہ کرنے اور بریسٹ کینسر کی تشخیص کے حوالے سے مدد ملی۔

’یہ باتیں ہمارے گھروں میں نہیں ہوتیں۔ جس کے نتیجے میں ایسے پلیٹ فارمز ڈھونڈنے پڑتے ہیں جہاں اس پر کھل کر اچھے طریقے سے بات کی گئی ہو۔ ظاہر ہے میسج غلط نہیں، صرف اس سے جڑے خیالات اور تاثرات غلط ہیں۔‘

Exit mobile version