سیف اللہ پراچہ: 19 سال بعد رہا ہونے والے گوانتاناموبے کے پاکستانی قیدی جن کو اسامہ بن لادن سے ملاقات مہنگی پڑی
19 سال قبل بنکاک کے ایئرپورٹ سے گرفتار ہو کر گوانتانامو بے کی امریکی جیل منتقل ہونے والے پاکستانی تاجر سیف اللہ پراچہ رہا ہونے کے بعد پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک مختصر بیان کے مطابق ’سیف اللہ پراچہ کی واپسی کے لیے انٹر ایجنسی عمل کو مکمل کیا گیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرون ملک قید ایک پاکستانی شہری واپس آ کر اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ اکھٹے ہو چکے ہیں۔ ‘
سیف اللہ پراچہ کی رہائی کیسے ممکن ہوئی؟ اس کی تفصیلات فی الوقت نہیں بتائی گئیں تاہم ان کو کیوں اور کیسے گرفتار کیا گیا؟ اس بارے میں بی بی سی نے 18 مئ 2021 کو ایک جامع رپورٹ شائع کی تھی جسے اس موقع کی مناسبت سے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ سنہ 2003 میں گرمیوں کی بات ہے جب کراچی کے تاجر سیف اللہ پراچہ نے امریکی بزنس مین کے ساتھ ملاقات کے لیے کراچی سے بینکاک کے لیے پرواز لی لیکن وہ اس میٹنگ میں پہنچ نہ سکے۔
سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے جولائی سنہ 2003 میں بنکاک ائیر پورٹ سے حراست میں لیا جس کے بعد افغانستان کے بگرام ائیر بیس پر منتقل کیا گیا جہاں انھیں بتایا گیا کہ انھیں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
حراست میں لیے جانے کے بعد ستمبر 2004 تک سیف اللہ پراچہ کو افغانستان میں بگرام کے فضائی اڈے پر واقع حراستی مرکز میں قید رکھا گیا اور پھر گوانتانامو بے کی امریکی جیل منتقل کر دیا گیا جہاں وہ قید میں رہنے والے واحد قیدی تھے جن پر نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
سیف اللہ نہ صرف گوانتانامو بے کے سب سے پرانے بلکہ سب سے عمر رسیدہ قیدی بھی ہیں جنھیں ان کی اہلیہ کے مطابق دوران حراست دو بار دل کا دورہ بھی پڑا تاہم پرزنر ریویو بورڈ نے دو سال قبل دو دیگر قیدیوں کے ہمراہ پراچہ کی رہائی کی منظوری دے دی تھی۔
ان کی وکیل کے مطابق حکم میں کہا گیا تھا کہ پراچہ سے اب امریکہ کو ’آئندہ کوئی خطرہ نہیں۔‘
سیف اللہ کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟
سیف اللہ کے خاندان والوں کے لیے ان کی اچانک گرفتاری ایک دھچکہ ضرور تھی لیکن وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد نہیں تھے جنھیں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے شعبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سیف اللہ کی گرفتاری سے کچھ عرصے قبل ہی ان کے سب سے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو مارچ 2003 میں نیویارک میں گرفتار کیا گیا اور عزیر پراچہ کی جانب سے دوران تفتیش دیے گئے بیانات ہی دراصل سیف اللہ پراچہ کی گرفتاری کی ایک اہم وجہ بنے۔
جب عزیر کو گرفتار کیا گیا تو ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مبینہ طور پر القاعدہ کے رکن ماجد خان اور عمار ال بلوچی کو دہشتگردی کے لیے معاونت فراہم کی تاہم عزیر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انھوں نے ماجد خان کی کچھ کاغذات کے حصول میں مدد ضرور کی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ماجد خان یا عمار ال بلوچی کا تعلق القاعدہ سے ہے۔
عزیر پراچہ کی عمر 23 سال تھی جب انھیں امریکہ کی انسداد دہشتگردی فورس کی جانب سے 2003 میں نیویارک سے گرفتار کیا گیا۔ عزیر اپنے والد سیف اللہ کی طرح امریکی شہریت کے حامل تھے اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں امریکہ میں موجود تھے تاکہ وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو کراچی میں واقع ان کے والد کے پر تعیش اپارٹمنٹس فروخت کر سکیں۔
عزیر کا رہن سہن اور حلیہ ماڈرن تھا کیونکہ وہ نہ صرف متعدد بار امریکہ کا سفر کر چکے تھے بلکہ انھوں نے کراچی کے مشہور نجی سکول سے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔
عزیر نے دوران تفتیش بتایا انھوں نے ماجد خان کی مدد اپنے والد سیف اللہ پراچہ کے کہنے پر کی۔ ماجد خان امریکی نژاد پاکستانی ہیں اور وہ میری لینڈ کے رہائشی تھے جہاں وہ اپنے والد کے گیس سٹیشن پر کام کرتے تھے۔
ماجد خان کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پانچ مارچ سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ساڑھے تین سال تک انھیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ماجد خان پر الزام تھا کہ وہ نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ساتھ مل کر امریکہ میں ایک گیس سٹیشن کو دھماکے سے اڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
عزیر کو پولیس کو دیے گئے بیانات کے مطابق ماجد خان نے انھیں ان کے امیگریشن کے دستاویزات سے متعلق پیشرفت جاننے اور امریکہ میں ان کے نام پر قائم پوسٹ آفس باکس بند کرنے میں مدد طلب کی تھی۔ امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی پوسٹ آفس باکس ہے جسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ماجد خان کے نام پر میری لینڈ میں کھولا اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے دسمبر 2002 میں امریکہ کا سفر کیا
تاہم ڈاکٹر عافیہ نے اس الزام کی تردید کی اور ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ نوکری تلاش کرنے کے مقصد سے گئی تھیں۔
جب عزیر پراچہ کو گرفتار کیا گیا تو ان سے اس پوسٹ آفس باکس کی چابی بھی برآمد ہوئی۔ اس کے علاوہ ماجد خان نے عزیر کو اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کو کہا اور اس کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانے کو کہا۔ اس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ ماجد خان امریکہ میں ہیں تاہم عزیر کو یہ دونوں ہی کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔
عزیر پراچہ پر ایک اور مبینہ القاعدہ رکن عمار ال بلوچی سے تعلقات کا الزام بھی عائد کیا گیا تاہم عزیر کے مطابق انھوں نے عمار ال بلوچی سے صرف اس لیے ملاقات کی تھی کیونکہ انھوں نے ان کے والد کے کاروبار میں 18 سے 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
عمار ال بلوچی خالد شیخ محمد کے بھانجے تھے اور مبینہ طور عافیہ صدیقی کے دوسرے شوہر تھے۔ عزیر نے گرفتاری کے فوراً بعد دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ ان کو لگتا ہے کہ ان کے والد سیف اللہ پراچہ کے القاعدہ سے تعلقات ہیں لیکن ان کے والد نے کبھی ان سے اس متعلق بات نہیں کی تاہم بعد میں عزیر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عزیر نے یہ بیان دباؤ میں آ کر دیا تھا۔
عزیر اور سیف اللہ پراجہ دونوں کا اصرار تھا کہ انھوں نے ماجد خان اور عمار ال بلوچی کی مدد ضرور کی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان دونوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ اس کے علاوہ ماجد خان اور عمار ال بلوچی نے بھی اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ انھوں نے کبھی سیف اللہ اور عزیر کو اپنے القاعدہ سے تعلقات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
سنہ 2006 میں ایک امریکی عدالت نے عزیر پراچہ کو القاعدہ کے ارکان کی مدد کے جرم میں 30 سال قید کی سزا سنائی تاہم 2018 میں اسی عدالت کے جج نے نئے شواہد سامنے آنے کی روشنی میں اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور ٹرائل کو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا
تاہم امریکی حکومت نے اس ٹرائل کی مزید پیروی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیونکہ عزیر 16 سال اپنی سزا کاٹ چکے ہیں اور انھوں نے اپنی امریکی شہریت سے بھی دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے لہذا حکومت مزید وقت اور وسائل اس کیس پر خرچ نہیں کرنا چاہتی جس کے بعد عزیر پراچہ کو 2020 میں رہا کر کے پاکستان بھجوا دیا گیا۔
سیف اللہ پر دہشتگردوں کو معاونت فراہم کرنے کے الزامات کیوں لگے؟
گرفتاری سے قبل سیف اللہ پراچہ کا شمار کراچی کے کامیاب بزنس مین میں ہوتا تھا۔ وہ 1970 میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے۔ وہ اپنی ڈگری تو مکمل نہ کر سکے لیکن 1974 میں انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے ’گلوبل ٹریول سروسز‘ کے نام سے ٹریول ایجنسی کھولی اور 13 سال امریکہ میں ہی گزارے۔
امریکہ میں ہی ان کی ملاقات اپنی اہلیہ فرحت سے ہوئی اور 1979 میں ان کی شادی ہوئی جن سے ان کے چار بچے ہیں۔
سیف اللہ پراچہ نماز کے پابند تھے اور صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے خیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو کراچی کے بہترین سکولوں سے تعلیم دلوائی۔
سنہ 2009 میں بی بی سی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سیف اللہ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ سیف اللہ پراچہ نائن الیون سے پہلے دو مرتبہ افعانستان بھی گئے جہاں ان کی مبینہ طور پر اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی تھی۔
فرحت پراچہ کے مطابق ان کے شوہر صنعتکاروں کا وفد لے کر افغانستان گئے تھے تاکہ مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے اس تباہ حال ملک میں پلاسٹک اور بائی سائیکل کی فیکٹریاں لگائی جا سکیں۔
اطلاعات کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے اسامہ بن لادن سے کہا تھا کہ ’تم جو یہاں کر رہے ہو اس سے امریکہ تمہارے خلاف ہو گیا ہے۔ تم اپنا مؤقف بتاؤ اور ہمیں ایک انٹرویو دو۔‘
اس مقصد کے لیے وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی اسامہ کے پاس چھوڑ آئے تھے۔
امریکی حکومت کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کے کمپاؤنڈ پر چھاپے کے دوران سیف اللہ کا وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوا تھا جس کے بعد ان پر الزام عائد کیا گیا انھوں نے اسامہ کو پاکستان میں اپنے نشریاتی بزنس پر القاعدہ کے پراپیگنڈہ کرنے کی پیشکش کی۔
گوانتاناموبے ٹریبونل کے سامنے دیے گئے اپنے بیان میں پراچہ نے اعتراف کیا کہ وہ دسمبر سنہ 1999 اور جنوری سنہ دو ہزار میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے مل چکے ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو انٹرویو کی پیشکش صرف اس لیے کے کیونکہ وہ چاہتے تھے اسلام اور دیگر مذاہب میں اختلافات کو کم کیا جا سکے۔
سیف اللہ نے بتایا کہ 2001 میں ‘میر’ نامی ایک شخص کراچی میں ان کے دفتر ان سے ملاقات کے لیے آیا اور وہ ان کے اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا۔
سیف اللہ کے بیان کے مطابق میر نامی شخص نے ہی انھیں اپنے ساتھی مصطفیٰ اور ماجد خان سے ملوایا اور جب ماجد خان کو معلوم ہوا کہ سیف اللہ کا بیٹا عزیر بزنس کے سلسلے میں امریکہ جا رہا ہے تو انھوں نے اس سے مدد کی درخواست کی۔
یکم مارچ 2003 کو جب سی آئی اے اور پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا اور اس کی خبر ٹی وی پر چلی تو سیف اللہ پراچہ کو احساس ہوا کہ وہ جس شخص کو میر سمجھ کر ملتے رہے وہ دراصل القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد ہیں اور ان کے ساتھی مصطفیٰ دراصل عمار ال بلوچی ہیں۔
سیف اللہ کے بیان کے مطابق وہ ‘میر’ اور ‘مصطفی’ نامی شخص سے صرف اس لیے رابطے میں رہے کیونکہ انھیں لگا کہ یہ دونوں ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سیف اللہ پراچہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ خالد شیخ محمد نے انھیں پانچ سے چھ لاکھ ڈالر کی رقم امانت کے طور پر دی تھی اور سیف اللہ پراچہ نے خالد شیخ محمد کو بین الاقوامی جہاز رانی کے ذریعے ہونے والی تجارت میں اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کے کپڑوں میں چھپا کر دھماکہ خیز مواد امریکہ سمگل کرنے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی تھی۔ تاہم سیف اللہ نے ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔
سیف اللہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکی سینٹ کی رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد نے یہ بیانات تفتیشی افسران کی جانب سے ان پر اذیت ناک تشدد کیے جانے کے بعد دیے۔ اس کے علاوہ بعد میں جب خالد شیخ محمد کو سیف اللہ پراچہ کی تصویر دکھائی گئی تو انھوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔
اس کے علاوہ عمار ال بلوچی نے بھی دوران تفتیش اعتراف کیا کہ سیف اللہ ان کے القاعدہ سے تعلقات سے آگاہ نہیں تھے اور انھیں سیف اللہ سے میڈیا میں استعمال ہونے والے سامان اور اس کی ترسیل سے متلعق معلومات حاصل کیں تھی۔
مارچ 2003 میں خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے چند دن بعد ہی ماجد خان کو پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے گرفتار کر لیا جاتا ہے جس نے دوران تفتیش سیف اللہ پراچہ اور عزیر پراچہ کے نام لیے۔ اس کے بعد نیویارک میں عزیر کو گرفتار کیا گیا اور اپریل 2003 ہی میں عمار ال بلوچی کو کراچی ائیرپورٹ سے اغوا کر کے امریکی حراست میں دے دیا گیا۔
یہ وہی وقت تھا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراچی سے لاپتہ ہوئیں۔ اس کے بعد جولائی 2003 میں سیف اللہ کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا۔
سیف اللہ کی اہلیہ فرحت سیف اللہ نے 2006 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سیف اللہ کی گرفتاری کے بعد ان کے اہلِخانہ سے ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے کنارہ کشی کر لی۔
’ہم جس سے بھی بات کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ ہم سے دور بھاگتا تھا۔ میں ایک ہاتھ پر بھی اپنے دوستوں کو نہیں گن سکتی یہاں تک کہ بہت سے قریبی رشتہ داروں نے بھی ہم سے رابطہ ختم کر دیا تھا۔‘
سیف اللہ پراچہ کے اہل خانہ نے صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ امریکی سفیروں کو بھی خطوط لکھے ہیں مگر ان میں سے کسی نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ سنہ 2009 میں جب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی جانب سے گوانتانامو کے قیدیوں کی ان کے گھروالوں سے ویڈیو کانفرنس کروانے کے پروگرام کا آغاز کیا گیا تو سیف اللہ پراچہ نے اپنے خاندان کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی جس میں انھوں نے اپنی خراب صحت سے متعلق آگاہ کیا۔ جس کے بعد سے ان کے اہل خانہ اور وکیل ان کے بہتر علاج اور رہائی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
امریکی صدر براک اوبامہ نے جب اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تو انھوں نے گوانتانامو بے کو بند کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جس نے گوانتانامو بے میں قید سیف اللہ جیسے متعدد قیدیوں کو رہائی کی امید دلائی تاہم اپنے آٹھ سالہ دور صدارت کے دوران اوبامہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے اور ان کے بعد آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانامو بے کو بند کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کو مزید ’برے افراد‘ سے بھرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
بہت سے مبصرین نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ صدر جو بائیڈن گوانتاناموبے میں قید بقیہ 40 قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کریں گے اور سابق صدر براک ابامہ کا وعدہ پورا کریں گے۔