بلوچستان: جسٹس محمد نور مسکانزئی کا مبینہ ’قاتل گرفتار‘، ملزم کے والد کا کہنا کہ ان کا بیٹا قاتل نہیں
بلوچستان میں کاﺅنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کے اہم ملزم کوگرفتارکر لیا گیا ہے۔
کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورایہ نے کہا کہ گرفتار ملزم شفقت اللہ یلانزئی کا تعلق خاران سے ہے اور ان کے بقول ملزم نے قتل کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گرفتار ملزم کو پڑوسی ملک سے اس کارروائی کے لیے احکامات دیے گئے تھے جہاں اس کالعدم عسکریت پسند تنظیم کا کمانڈر موجود ہے جس نے چیف جسٹس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تاہم گرفتار ملزم کے والد حاجی عبدالرحیم یلانزئی نے اپنے بیٹے پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے ان کا بیٹا سابق چیف جسٹس کے قتل میں ملوث نہیں اور نہ ہی ان کا تعلق کسی کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے ہے۔
جسٹس محمد نور مسکانزئی جو کہ وفاقی شرعی عدالت کے سربراہ بھی رہے کو 14 اکتوبرکو خاران شہر کے ایک مسجد میںاس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ نماز عشاءکی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔
’ملزم اور ان کے ساتھیوں نے چیف جسٹس کی باقاعدہ ریکی کی ‘
سی ٹی ڈی بلوچستان کے سربراہ نے کہا کہ قتل سے پہلے جسٹس محمد نور مسکانزئی کی باقاعدہ ریکی کی گئی تھی اور اس کے لیے اس مسجد کا انتخاب کیا گیا جہاں وہ نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے تھے۔
’نماز عشا کی ادائیگی کے بعد وہ مسجد میں کچھ نوافل کی ادائیگی کے لیے رکتے تھے۔ اس مسجد کے دو راستے ہیں جن میں سے ایک مین راستہ ہے جبکہ دوسرا گلی میں کھلتا ہے جہاں سے محلے کے لوگ آتے ہیں اور اس پر رش کم ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے اس راستے کا انتخاب کیا جو گلی میں کھلتا ہے۔ مسجد میں دونوں جانب کھڑکیاں ہیں۔ایک طرف پولیس کا محافظ کھڑا تھا اس لیے حملہ آوروں نے دوسری جانب کی کھڑکیوں سے چیف جسٹس پر حملہ کیا۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے کیا بتایا؟
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ اس کیس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسے بطور چیلنج لیا گیا اور خاران اور گردونواح میں بعض خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں کی گئیں جن میں کچھ لوگ پکڑے گئے۔
انھوں نے بتایا کہ ان لوگوں سے تفتیش کی بنیاد پربالاآخر ہم ملزم تک پہنچ گئے اور جمعہ کے روز ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جس نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بتایا کہ چیف جسٹس پر انھوں نے ایک اور ساتھی کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔
اعتزاز گورایہ نے بتایا کہ ملزم سے وہ موٹر سائیکل بھی برآمد کرلیا گیا جو کہ واردات میں استعمال ہوا تھا۔
’ملزم سے دو عدد دستی بم اور ایک پسٹل بھی برآمد کیا گیا۔ پسٹل کو فرانزک لیب بھیج دیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ پسٹل اس واردات میں استعمال ہوا یا نہیں۔‘
کالعدم تنظیم کے کمانڈر کی گرفتاری کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کررہے ہیں؟
اعتزاز گورایہ نے بتایا کہ’یہ بات دلچسپ ہے کہ سابق چیف جسٹس کو قتل کے احکامات ہمسایہ ملک سے ملے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزم نے یہ انکشاف کیا کہ انھوں نے دہشت گردی کی تربیت ہمسایہ ملک سے حاصل کی جہاں کالعدم تنظیم کا کمانڈر موجود ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کالعدم تنظیم کے کمانڈر کا تعلق بھی خاران سے ہے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ بھی مبینہ طور پرشدت پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان کے ذریعے ہمسایہ ملک سے رابطہ کرنے والے ہیں تاکہ وہاں سے کالعدم تنظیم کے کمانڈر کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
’ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے‘
اس سوال پر کہ کیا ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے یا نہیں کیونکہ بعض کیسز میں سی ٹی ڈی یا بعض دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جو گرفتاریاں کی جاتی ہیں ان کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا ہے اور پھرمشکوک کاروائیوں میں ملزمان کو مبینہ طور پر ہلاک کیا جاتا ہے تو سی ٹی ڈی بلوچستان کے سربراہ نے کہا کہ ملزم کا ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے انھیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سی ٹی ڈی بلوچستان پولیس کا حصہ ہے ۔ ہم مختلف قوانین اور ریگولیشنز کے تحت کام کرتے ہیں جس کا باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھاجاتا ہے۔ آئی جی پولیس کے دفتر کی جانب سے اور حکومت بلوچستان کی جانب سے بھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پراسکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ماہرین قانون کی ٹیم فراہم کی گئی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ اگر سزا دلانے کی بات کی جائے تو سی ٹی ڈی نے ایک دو سال میں 666 لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جن میں سے 121 لوگوں کو عدالتوں سے سزا دلوائی گئی جبکہ 158 مفرور ہیں۔
’جن کو عدالتوں سے سزا ملی ان میں سے بعض لوگوں کو انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت 14 سال اور بعض کو دس دس سال کی سزا ہوئی ۔ متعدد مقدمات میں ماتحت عدالت سے لوگوں کو جو سزا ہوئی ان کی ہائیکورٹ نے بھی توثیق کی ہے‘ ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کے لیے اوپن ہیں اور اگر کسی چیز پر کسی کو اعتراض ہے تو آکر ہم سے ضرور ملے اور آئی جی پولیس سے بھی ملے ہم ان کو مطمئن کریں گے۔
اعتزاز گورایہ کا کہنا تھا کہ ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہم اپنی ذاتی خواہش اور عناد کی بنیاد پرکاروائی کرتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کی جو بھی کاروائیاں ہوتی ہیں وہ ملک کی بہتری اور مفاد میں کی جاتی ہیں اور وہ قانون کے دائرے میں رہ کرکی جاتی ہیںجس کے دوران ہمارے متعدد اہلکار مارے اور زخمی ہوئے ۔
گرفتار ملزم کے والد کا کیا کہنا ہے؟
گرفتار ملزم شفقت اللہ کے والد حاجی عبدالرحیم یلانزئی نے اپنے بیٹے پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
جب بی بی سی نے ان سے فون پر رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو سماجی رابطوں کی میڈیا کے ذریعے سے یہ پتہ چلاکہ 23 اکتوبر کو حراست میں لیئے جانے والے ان کے بیٹے پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس کے قتل میں ملوث ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 23 اکتوبر کی شام کو اس وقت اٹھایا گیا جب وہ اپنی چھوٹی سی دکان کو بند کرے گھر آرہا تھا۔
’ہم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے بیٹے نے حال ہی انٹرمیڈیئٹ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ میرے بیٹے کا نہ اس قتل سے اور نہ ہی کسی کالعدم تنظیم سے تعلق ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں سے کوئی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا ہے کہ وہ محمد نورمسکانزئی جیسے کسی شخصیت کاقتل کرے جن کی خاران کے لیے گرانقدر خدمات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اصل ملزمان کی گرفتاری میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے سی ٹی ڈی نے ان کے بے گناہ بیٹے کی گرفتاری ظاہر کرکے خانہ پری کی ہے۔
انھوں نے چیف جسٹس اور دیگر حکام سے اپیل کی کہ ان کے خاندان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور ان کے بیٹے کو کسی ناکردہ گناہ میں ملوث کرنے سے بچایا جائے۔