ہیڈلائن

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی معطل کرنے کی استدعا مسترد

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نااہلی معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حلقہ این اے 95 میانوالی پر ضمنی انتخاب کرانے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی، پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور علی گوہر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کی اپیل میں دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بنانے کی متفرق درخواست منظور کرلی گئی۔

دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کو ڈی سیٹ کردیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کو کس نشست سے ڈی سیٹ کیا گیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ درخواست گزار کو حلقہ این اے 95 میانوالی سے ڈی سیٹ کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی سے 63 (2) کے تحت آیا تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس آیا اور الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہلی کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر اسپیکر کو پتا لگے کہ ایک رکن اسمبلی سزا یافتہ ہے تو کیا وہ خود ڈی سیٹ کر سکتا ہے؟ کیا یہ ریفرنس اسپیکر نے خود بنایا یا کسی نے کوئی درخواست دی تھی؟ انہوں نے ریفرنس میں کہا کہ صادق و امین نہیں رہے تو ہم ریفرنس بھیج رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صادق و امین کو نہیں دیکھا، الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم کسی کو بھی الیکشن ایکٹ کے تحت نااہل کرسکتے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گوشوارے ہر رکن اسمبلی سالانہ جمع کرتے ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہر سال ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو گوشوارے جمع کرانا ہوتے ہیں، اگر کسی نے کوئی چیز بیچ دی تو اسے جمع کرنے یا بتانے کی ضرورت نہیں، اگر آپ گوشوارے جمع نہیں کراتے تو آپ کی رکنیت معطل ہوجاتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ معطل کیا جائے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل نہیں کر رہے، ضمنی الیکشن کرانے سے روک دیتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حلقہ این اے 95 میانوالی پر الیکشن کرانے سے روک دیا اور عمران خان کی اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل 29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

اس سے قبل 24 اکتوبر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ اسی دن معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی تھی اور کہا تھا کہ آپ اعتراضات دور کریں اس کے بعد درخواست کو سنیں گے۔

پس منظر

واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔