سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا سنگین غداری کیس کا فیصلہ چیلنج کردیا۔
پرویز مشرف کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے لاہور ہائی کورٹ میں 86 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی ہے جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں فل بینچ پرویز مشرف کی درخواست پر 9جنوری، 2020 کو سماعت کرے گا۔
درخواست میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’ فیصلے میں غیرمعمولی اور متضاد بیانات کا مرکب موجود ہے‘۔
اس میں مزید کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے ’ عجلت میں ٹرائل کو مکمل کیا گیا جو کسی نتیجے تک نہیں پہنچا تھا‘۔
پرویز مشرف کی درخواست میں کہا گیا کہ ’ خصوصی عدالت نے کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ کیے بغیر سزائے موت سنائی‘۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ’مجرمانہ ٹرائل میں ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس میں کوئی غفلت، ناکامی اور بھول چُوک پروسیکیوشن کیس کو بری طرح متاثر کرتی ہے‘۔
درخواست میں کہا گیا کہ ’ مجرمانہ ٹرائل اس لازمی قانونی شرط پر عمل کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا‘۔
ساتھ ہی درخواست میں سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف نمبر 66 کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے‘۔
درخواست میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کے متعلقہ معزز صدر نے پیرا 66 کے ذریعے سنگدلی، غیر قانونی طریقے، غیر حقیقی طور پر کمزور کرنے والی، ذلت آمیز، غیر معمولی اور وقار کے خلاف ایک شخص کو سزا دے کر تمام مذہبی اخلاقی، سول اور آئینی حدود پار کیں۔
سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔
جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔
عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا تھا اور اس میں ان کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے معاونت کی تھی۔
تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا، جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں ‘ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے’ کا ذکر کیا گیا۔