رواں سال واضح مایوس کن معاشی کارکردگی پیش کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے مالی سال 23-2022 کے دوران اخراجات میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کی 21 فیصد سے زائد شرح، سخت معاشی حالات اور بڑھتے ہوئے چیلنجز سے خبردار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے ماہانہ معاشی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لُک میں کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے معاشی صورتحال مشکل ہے۔
رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ صارف اشاریہ انڈیکس (سی پی آئی) مہنگائی کی شرح 21 سے 22.5 فیصد کے درمیان رہے گی، توقع سے زیادہ مہنگائی کی شرح اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے سخت مانیٹری پالیسی بھی نمو کو متاثر کر رہی ہے۔
وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزرز ونگ (ای اے ڈبلیو) کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ (جولائی تا اگست) میں مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کے جی ڈی پی کے 0.7 فیصد یا 462 ارب روپے کے مقابلے میں جی ڈی پی کا 0.9 فیصد یا 672 ارب روپے رکھا گیا اور پیش گوئی کی کہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ریلیف اور بحالی کی ضروریات نے مالی استحکام کے لیے اہم چیلنجز پیدا کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو سیلاب متاثرین کی امداد، بحالی اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے اس لیے مجموعی اخراجات پر بہت دباؤ پڑے گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور ترقی میں متوقع سست رفتار کی وجہ سے سیلاب سے ہونے والی تباہی ملکی وسائل کے استعمال کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزرز ونگ نے اپنی رپورٹ میں نوٹ کیا کہ زراعت کا شعبہ خاص طور پر سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا اور آنے والے دنوں میں اس کے منفی اثرات معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی پڑیں گے اور اس طرح اس سے مجموعی اقتصادی صورتحال متاثر ہوگی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال کے آغاز سے ہی ایسا لگتا ہے کہ اقتصادی سرگرمی کم ترقی کی راہ پر آگئی ہے، اشیا کی بلند قیمتوں کے ساتھ عالمی معاشی ترقی کی سست رفتار پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں کی کارکردگی کو بری طرح نقصان پہنچا رہی ہے۔
لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سست روی اگست میں مثبت ہونے کے باوجود زیادہ پیداواری لاگت آئندہ مہینوں کے دوران نمو کے لیے منفی نتائج کے اضافی عوامل تھے، اس کے علاوہ درآمدات میں میانہ روی سے بھی ملکی معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔