منتخب تحریریں

”غیر سیاسی بندوبست“ کی جانب بڑھتے حالات 

Share

عمران خان صاحب نے کرم سے خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست بھی جیت لی ہے۔ اس جیت کی بدولت ان کے حامی یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پاکستان کے شمال سے جنوب تک عوام کی کثیر تعداد ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو بے چین ہے۔ان کے مخالفین کو اس امر کا بخوبی احساس ہے۔ اسی باعث وہ فوری نئے انتخاب سے گھبرارہے ہیں۔مذکورہ پیغام سے کہیں زیادہ مو¿ثر تاثریہ بھی پھیل رہا ہے کہ وفاقی حکومت میں بیٹھی ”گیارہ سیاسی جماعتیں“ باہم مل کر بھی ان کے مقابلے کے قابل نہیں رہیں۔ ”ایک بہادر آدمی“ ان کو تنہا حیثیت میں پچھاڑرہا ہے۔

سیاست میں حقائق سے کہیں زیادہ ”تاثر“ کی اہمیت ہوتی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں تفصیلات پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کے بارے میں ذاتی طورپر میرے کئی تحفظات رہے ہیں۔ان کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلانے میں وقت ضائع نہیں کرتا کہ وہ آج کے پاکستان میں مقبول ترین رہنما ہیں۔ اقتدار کھودینے کے بعد جو بیانیہ انہوں نے جارحانہ انداز میں روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام تر ذرائع کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اپنایا ان کی مقبولیت کو توانا تر بنانے کا سبب ہوا۔ ان کے مخالف سیاستدانوں میں سے کوئی ایک بھی اس کا مو¿ثر توڑ ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔

انتخابی سیاست کی مخصوص حرکیات ہوتی ہیں۔میں ان کا سنجیدہ طالب علم رہا ہوں۔ انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس امر پر مزید غور کی ضرورت ہے کہ حال ہی میں خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے سات پر عمران خان صاحب بذات خود کھڑے ہوکر کامیاب کیوں ہوئے۔انہیں ووٹ دینے والے بخوبی جانتے تھے کہ ان کے حلقے سے منتخب ہوکر عمران خان صاحب قومی اسمبلی نہیں جائیں گے۔ اس کے باوجود انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس پہلو پر توجہ دیں تو سوال اٹھانا ہوگا کہ عمران خان صاحب کی حالیہ ضمنی انتخاب میں کامیابی ان کی طلسماتی شخصیت کو خراج دیتی نظر آتی ہے یا جن لوگوں نے ان کی حمایت میںووٹ دئے وہ ان کے مخالف کو کسی صورت قومی اسمبلی میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ان کی ”حمایت“ میں ڈالا ووٹ اس تناظر میں موجودہ حکومت کے خلاف”نفرت“ کا ووٹ بھی شمار کیا جاسکتا ہے جس کا اصل سبب مہنگائی کا وہ طوفان ہوسکتا ہے جو شہباز شریف کے اقتدار سنبھالتے ہی قوم پر نازل ہوا محسوس ہوا۔

حکومت سے ”نفرت“ ہی مگر کلیدی کردار ادا کررہی ہوتی تو ملتان سے شاہ محمود قریشی صاحب کی دختر بھی ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوجاتیں۔ ان کی جگہ مگر یوسف رضا گیلانی کے فرزند کامیاب ہوئے۔ گیلانی اور قریشی خاندان ملتان کی سیاست میں برطانوی دور سے ایک دوسرے کے ”ویری“ رہے ہیں۔ قریشی صاحب 2013ءسے گیلانیوں کو مسلسل شکست سے دو چار کررہے تھے۔ اپنی ”فتوحات“ورثے کی صورت اپنے فرزند زین قریشی کو منتقل کرنا چاہیں۔انہیں ضمنی انتخاب کے ذریعے پنجاب اسمبلی بھجوادیا تانکہ بروقت ضرورت پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے تگڑے امیدواروں کی صف میں کھڑے نظر آئیں۔ان کی دختر مگر قومی اسمبلی کے لئے ان کی وارث نہ بن پائیں۔

عمران خان صاحب ہی کو مگر کراچی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نے شکست سے بھی دو چار کیا ہے۔حاکم بلوچ دیرینہ الیکٹ ایبل شمار ہوتے رہے ہیں۔سندھ میں پیپلز پارٹی 2008ءسے برسراقتدار بھی ہے۔ان کے ووٹروں کی دانست میں حاکم بلوچ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اپنے حلقے میں سرکاری سرپرستی یقینی بناسکتے تھے۔ ”مقامی“ ترجیحات نے لہٰذا عمران خان صاحب جیسے قدآور رہ نما کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ ”ترجیحات“ تاہم وفاقی حکومت میں شامل ایم کیو ایم کے امیدوار کے کام نہیں آئیں۔ اس کی شکست واضح طورپر یہ پیغام دیتی ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کے ووٹرباہم مل کر تحریک انصاف کو شکست دینے کو آمادہ نہیں ہیں۔

اس حقیقت کا بھرپور ادراک خیبرپختونخواہ میںہوئے ضمنی انتخاب کا سرسری جائزہ بھی فراہم کرسکتا ہے۔چارسدہ پشتون قوم پرستی کا خان غفار خاں کے دور سے مرکز تصور ہوتا چلا آرہا ہے۔ولی خان اور اسفند یار ولی وہاں سے منتخب ہونے کی وجہ سے ہماری سیاست کے مرکزی رہ نماﺅں میں شمار ہونا شروع ہوگئے۔1990ءکا آغاز ہوتے ہی مگر جمعیت العلمائے اسلام نے اس مرکز میں ”نقب“ لگانا شروع کردی۔چارسدہ ہی سے شیر پاﺅ خاندان بھی ولی باغ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا۔چارسدہ کے ووٹر تین دھڑوں میں تقسیم ہوئے تو تحریک انصاف وہاں پھیلنا پھولنا شروع ہوگئی۔

حالیہ ضمنی انتخاب میں ولی باغ کے نوجوان نمائندہ ایمل خان عمران خان صاحب کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔ 2018ءکے انتخابی نتائج پر غور کرتے ہوئے کئی صحافیوں نے یہ فرض کرلیا کہ جے یو آئی اور اے این پی کے ووٹر باہم مل کر عمران خان صاحب کو بآسانی ہراسکتے ہیں۔ایسا مگر ہوا نہیں۔کلیدی وجہ اس کی یہ حقیقت رہی کہ جے یو آئی کا ووٹر ایمل خان کو ووٹ دینے نہیں نکلا۔ ایمل خان نے اس کے باوجود ماضی کے برعکس زیادہ ووٹ لئے۔یہ تبدیلی آئندہ عام انتخاب میں ان کے کام آسکتی ہے اگر عمران خان صاحب کے بجائے تحریک انصاف وہاں سے کسی مقامی امیدوار کو نامزد کرے۔ مستقبل کا مگر کون سوچتا ہے۔ فوری تاثر تو یہ ہی پھیلا ہے کہ نظر بظاہر جے یو آئی اور اے این پی باہم مل کربھی اپنے ”گڑھ“ تصور ہوتے چارسدہ میں عمران خان صاحب کو ہرانے میں ناکام رہیں۔ ”بیانیے“ کے تناظر میں یہ تاثر ہی کلیدی کردار ادا کرے گا۔

ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتا کہ جن نشستوں پر حال ہی میں جو ضمنی انتخاب ہوئے ان کے دوران سات نشستوں پر عمران خان صاحب کے امیدوار ہونے کے باوجود ٹرن آﺅٹ بہت کم رہا۔ یہ حقیقت خود کو اتوار کے دن کرم میں بھی دہراتی نظر آئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ انتہائی کمزور دِکھتا ٹرن آﺅٹ یہ پیغام تو نہیں دے رہا کہ ہمارے عوا م کی اکثریت پورے سیاسی نظام اور اس سے وابستہ کرداروں سے اُکتاچکی ہے۔اگر اس سوال کا جواب ”ہاں“ میں ملتا ہے تو ذہنی طورپر ہمیں کسی ”غیر سیاسی بندوبست“ نمودار ہونے کی بابت بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔