آج کے ڈیجیٹل دور میں جنسی تعلقات اور محبت کے بارے میں سوالات کے جواب جاننے کے لیے بچوں کو ایک ایسے ذریعے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ بھروسہ کر سکیں اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ والدین اس میں کیسے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
مجھے کبھی بھی ایسا کام کرنے کا موقع نہیں ملا جو برطانوی نوعمروں کے درمیان تقریباً معمول ہے۔ سیکس ایجوکیشن یعنی جنسی تعلیم کی کلاس میں انتہائی سخت پلاسٹک کے پیکٹ کو کھول کر اس میں سے کنڈوم نکال کر ایک کیلے پر چڑھانا۔ میں نے یہ کام تقریباً ستائیس سال کی عمر میں کیا۔ آج میں کنڈوم پہننے کی ٹریننگ نہیں لے رہی تھی بلکہ یہ سیکھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کسی اور کو کونڈم پہننا کیسے سکھایا جائے۔
تقریباً 15 نئے تربیت یافتہ سیکس ایجوکیٹر اور میں اپنے کمپیوٹرز کے سامنے بیٹھے تھے اور ہاتھ میں کنڈوم والے کیلے تھے۔
زوم پر ہمارے استاد نے وضاحت کی کہ ’ہم اکثر ذائقہ دار کنڈوم استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کی مہک عام کنڈوم سے زیادہ دلکش ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کچھ لمحے رک کر شرکا کے تاثرات کا جائزہ لیا، ظاہر ہے کہ ان میں سے کچھ زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آئے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ ایسا کریں تو آپ کو نہ تو کسی طرح کی شرم اور نہ ہی ہچکچاہٹ محسوس ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب آپ اپنے طالب علموں کو کنڈوم استعمال کرنے کی ترغیب دے رہے ہوں گے تو یقیناً آپ نہیں چاہیں گے کہ وہ ہچکچاہت یا شرم محسوس کریں۔‘
والدین کی جھجھک بڑی رکاوٹ ہے
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے والدین اپنے بچوں سے جسمانی قربت یا سیکس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے وقت اسی طرح کی گھٹن یا جھجھک محسوس کر سکتے ہیں حالانکہ جنسی تعلیم کے بارے میں معاشرے یا لوگوں کے رویے ممالک اور خاندانوں کے درمیان وسیع پیمانے پر مختلف ہو سکتے ہیں۔
برطانوی والدین کی جنسی تعلیم میں شمولیت پر تحقیق کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اکثر اس بارے میں بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے۔
مثال کے طور پر انھیں اس بات کا ڈر بھی ہوتا ہے کہ ان میں اس بارے میں اپنے بچوں سے بات کرنے کی مہارت یا علم کی کمی ہے تاہم، اسی جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیدرلینڈز اور سویڈن جیسے ممالک میں والدین اپنے بچوں سے چھوٹی عمر سے ہی جنسی تعلقات کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نوعمروں میں حمل اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں انگلینڈ اور ویلز کے مقابلے میں زیادہ عام نہیں۔
وہ والدین جو جنسی تعلقات کے بارے میں بات کرنا عجیب سمجھتے ہیں وہ کافی مشکل محسوس کرتے ہوں گے۔
بہت سے لوگ چاہیں گے کہ ان کے بچے اپنے سوالات اور مسائل لے کر ان کے پاس آئیں خاص طور پر اس ڈیجیٹل دور میں جہاں آن لائن بے شمار مواد موجود ہوتا ہے اور بچے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں کہ کب اور کیسے شروع کیا جائے۔
والدین کو کیا کرنا چاہیے
مونٹکلیر سٹیٹ یونیورسٹی میں صحت عامہ کی پروفیسر ایوا گولڈ فارب نے گزشتہ 30 سال کی جامع جنسی تعلیم کے ایک منظم ادبی جائزے کی مشترکہ تصنیف کی۔
یہ جائزہ سکولوں پر مرکوز ہے، گولڈ فارب کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں والدین کے لیے بھی اہم اسباق ہیں۔ ایک بنیادی بصیرت یہ ہے کہ جنسی تعلیم کا مثبت اور طویل مدتی اثر پڑتا ہے، جیسے کہ نوجوانوں کو صحت مند تعلقات بنانے میں مدد کرنا۔ والدین کو مشورہ یہ ہے کہ ان سے بات ضرور کریں اور اس میں تاخیر نہ کریں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بچوں سے اس بارے میں بہت پہلے بات شروع کریں، بہت چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی آپ جسم کے اعضا کے ناموں، ان اعضا کے کام، جسم پر کنٹرول کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
اس میں ان مسائل کے بارے میں بات کرنا شامل ہے جو سیکس کے بارے میں نہ بھی ہوں، جن میں تعلقات بھی شامل ہیں۔
جب یہ بات چیت چھوٹی عمر میں شروع ہوتی ہے درحقیقت، والدین اپنے بچوں سے سیکس کے بارے میں بات کرنا آسان محسوس کرتے ہیں اور قدرتی طور پر باتیں آسان لگتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کے سوالات کا کھلے دل سے اور ایمانداری سے جواب دینا ایک مثبت رویے کو جنم دیتا ہے جس سے بعد میں مزید پیچیدہ مسائل کے بارے میں بات کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
یہ مرحلہ وار طریقہ بچوں کے لیےان کی اپنی شناخت اور حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کی پیدایش سپرم ڈونیشن کی مدد سے ہوئی اور جن کے والدین نے شروع سے کتابوں اور کہانیوں کی مدد سے اس بات کی وضاحت کی تھی، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت محسوس کرتے تھے جنھیں بعد میں اس حقیقت کا علم ہوا۔
ان والدین کے لیے جو سیکس کے موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کیسے، اسے شروع کرنے کے لیے، اس تحقیق میں کئی طریقے بتائے گئے ہیں۔
آپ کی اپنی جنسی تعلیم کیسی تھی؟
گزشتہ چند سال کے دوران، میں نے اپنی کتاب کے لیے درجنوں سیکس ایجوکیٹرز کے انٹرویو کیے ہیں، جس میں سیکس سے متعلق وہمات اور غلط معلومات کو ختم کیا جا رہا ہے ۔
متعدد مطالعات اور سروے بتاتے ہیں کہ بالغ افراد اکثر جنس اور جسم کے بارے میں اتنا نہیں جانتے جتنا وہ چاہتے ہیں، اتنا ہی نہیں اس بارے میں ان کے خیالات مکمل طور پر غلط بھی ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد افسانہ یا قیاس ہے۔
مثال کے طور پر، دنیا بھر میں بہت سے لوگ سے یہ مانتے ہیں کہ عورت کے ہائمن کی حالت یہ ثابت کر سکتی ہے کہ آیا وہ کنواری ہے جبکہ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔
درحقیقت والدین اور خاص طور پر مائیں اپنے نو عمر بچوں سے جنسی تعلقات کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ان بچوں میں جنسی تعلق قائم کرنے میں تاخیر کا امکان ہوتا ہے یا ایسے بچے دیر سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو محفوظ طریقے اپناتے ہیں خاص طور پر لڑکیاں۔
مختصر یہ کہ نوجوانوں کو یہ سکھانا کہ پہلی بار جنسی تعلقات کے لیے تیار ہونے کے حقیقی معنی کیا ہیں اور ایسا کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے، ان کو کچھ نہ بتانے کے بجائِے انھیں اس بارے میں درست تعلیم دے کر انھیں محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
قابل اعتماد ذرائع تلاش کرنا
چھوٹے بچوں کے لیے جنسی تعلیم کا بنیادی ذریعہ عام طور پر والدین ہوتے ہیں لیکن نوجوان معلومات کے لیے بہت سے ذرائع استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ ان کے دوست، اساتذہ۔۔۔ صرف والدین ہی نہیں جو اس بارے میں بات کرنے سے جھجکتے ہوں بلکہ بچے بھی ایسا محسوس کر سکتے ہیں۔
آئرلینڈ میں کی گئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ماضی میں سیکس کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں والدین کی لاعلمی اور شرمندگی سب سے بڑی رکاوٹ تھی لیکن آج کل نوجوان ہی ان باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
حقائق کو پہلے سے جاننے کا دعویٰ کر کے، چڑچڑے ہو جاتے ہیں یا ناراض ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین کو اس موضوع سے گریز کرنا چاہیے بلکہ بات چیت کو اس انداز میں ترتیب دینا ضروری ہے جس سے ہر ایک کو بات کرنے میں آسانی ہو۔
گولڈ فارب کا کہنا ہے کہ ’جب آپ کسی نازک، ممکنہ طور پر ایسی بات جسے کرنے میں شرم محسوس ہو رہی ہو یا مشکل بات کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بچے کو وقت سے پہلے بتا دیں جس سے ان کا آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار رہنے کا زیادہ امکان ہے۔‘