منتخب تحریریں

The long and short of a March

Share

عمران خان صاحب کا لانگ مارچ آج پانچویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس مارچ میں شرکا کی تعداد توقعات سے خاصی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران صاحب اس لانگ مارچ کو وقفے وقفے سے شارٹ کر رہے ہیں۔ لاہور کے لبرٹی چوک میں عمران خان کی تقریر کے دوران 8 سے دس ہزار افراد موجود تھے لیکن اس کے بعد کہیں بھی ہجوم دو تین ہزار سے نہیں بڑھ سکا۔ اس صورت حال کے کچھ اسباب اپنی محدود فہم کے مطابق عرض کر دیتا ہوں۔ بظاہر اس سرگرمی کو ’’حقیقی آزادی لانگ مارچ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے لیکن معمولی سیاسی شعور رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کی مجرد اصطلاح سائفر کی مبینہ سازش سے برآمد کی گئی ہے اور اس نعرے میں عوام کے لئے کوئی خاص کشش نہیں۔ سائفر کے معاملے پر نیشنل سیکورٹی کمیٹی، ملکی سیاسی قیادت اور متعلقہ غیر ملکی حلقوں نے سنجیدگی سے بار بار واضح کیا ہے کہ ایسی کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ عمران خان کے حقیقی اہداف دو تھے۔ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں عمل دخل چاہتے تھے لیکن دستور کی شق 243 کے تحت یہ تقرری وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے کرنی ہے۔ گویا مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیر اعظم کا غیر مشروط اختیار ہے۔ نیب کے سربراہ اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی عہدوںکے ضمن میں وزیر اعظم اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف میں مشاورت کی شرط رکھی گئی ہے اور اتفاق سے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ایسی تمام تقرریاں کرتے ہوئے عمران خان نے حزب اختلاف سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب وزیر اعظم اپنے آئینی اختیار میں ایک ایسے شخص کو کیوں شریک کریں جو رسمی طور پر قائد حزب اختلاف بھی نہیں ہے۔ جس کی قومی اسمبلی کی رکنیت عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر کو اپنے سبکدوش ہونے کا واضح اعلان کیا تو دراصل عمران خان کی گزشتہ چھ مہینے کی سیاست بند گلی میں داخل ہو گئی۔ عمران خان اگر اب بھی اس ضمن میں کوئی توقعات رکھتے ہیں تو اسے ان کی سادہ لوحی ہی کہا جائے گا۔

عمران خان کا دوسرا ہدف قبل از وقت قومی انتخابات کا انعقاد ہے۔ اس ضمن میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی حکومتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست سے آشنا حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ چوہدری صاحب کا عمران خان سے اتحاد اقتدار کے دھاگے سے بندھا ہے۔ جہاں تک خیبر پختون خوا کا تعلق ہے تو 2014 کے دھرنے میں بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے استعفے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وفاق سمیت موجودہ حکومتوں کی دستوری میعاد اگست 2023 تک ہے، اسمبلیاں توڑ کر قبل از وقت انتخابات کی گنجائش موجود ہے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت موجودہ معاشی اور دیگر عوامل کی موجودگی میں ایسا نہیں کرنا چاہے گی۔ دراصل اپریل کے بعد ضمنی انتخابات، معاشی صورت حال اور جلسے جلوسوں میں عوامی ردعمل سے عمران خان کو اپنی مقبولیت کا یقین ہو گیا ہے۔ تاہم قومی انتخابات کی حرکیات بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ 2018 کے انتہائی غیر شفاف انتخابات اور ہیئت مقتدرہ کی بھرپور حمایت کے باوجود تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ عمران خان کے ساتھی سیاست دان یہ جانتے ہیں۔ لانگ مارچ کی غیر متاثر کن کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتخابی سیاست کرنے والے افراد قومی انتخابات سے صرف ایک برس قبل اپنے مالی وسائل اور سیاسی قوت ایک مخدوش سرگرمی پر خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کا ایک ثبوت 21 اکتوبر کی شام تب سامنے آیا جب الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کے بعد ان کی جماعت کی طرف سے ملک گیر احتجاج کے اعلان پر ملک کے کسی شہر میں چند سو افراد بھی سڑکوں پر نہیں آئے۔

عمران خان کی سیاست کا المیہ ان کی جمہوری اقدار اور دستوری حدود و قیود سے بے گانگی ہے۔ جمہوریت قوم کے تمام شہریوں کے مشاورتی عمل (انتخاب) کے ذریعے اجتماعی فراست سے استفادے کا نام ہے۔ عمران خان نے بزعم خود اپنے تمام مخالفین کو طاغوت قرار دے کر خود اپنی ذات کو ماورائے فطرت تقدیس کے درجے پر فائز کر رکھا ہے۔ ان کا کھلا مطالبہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلقی کے دستوری تقاضے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی حمایت کرے بلکہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچائے۔ 27 اکتوبر 2022 کی شام پاکستان فوج کے دو سینئر افسران نے جب یہ کہا کہ سیاست میںعدم مداخلت کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ادارے نے یہ پالیسی اختیار کی ہے۔ قبل ازیں یہی اعلان 14 اپریل کو بھی کیا گیا تھا۔ ہماری قوم کی سلامتی، ترقی اور استحکام کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ خواب ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں کم از کم 5 نسلوں کا امکان رائیگاں گیا۔ اب اگر ان گنت نقصان دہ تجربوں کے بعد قومی قیادت اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ دستور کی بالادستی اور جمہوریت کے اتباع ہی میں قوم کی فلاح ہے تو ستم ظریفی ہے کہ خود کو قومی رہنما قرار دینے والا ایک شخص نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی غیر جانبداری کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ عمران خان اور ان کے رفقا کھلے عام خونریزی کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان کے شہریوں کا لہو ایسا ہی بے وقعت ہے کہ اسے ایک شخص کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ شاید عمران خان نہیں جانتے کہ انقلاب اور جمہوریت دو الگ الگ سیاسی نمونے ہیں۔ یہ ملک جمہوری عمل کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے بانی رہنما دستور پسند سیاست میں یقین رکھتے تھے۔ پاکستان کو کسی انقلاب کی نہیں، جمہوری تسلسل کی ضرورت ہے۔