ایک عدد بڑے یُو ٹرن کی استدعا
کل اچانک چوہدری بھکن کا فون آ گیا۔ آدھی رات کو فون کی گھنٹی بجی، اٹھایا تو دوسری طرف چوہدری تھا۔ دل خوش ہوا کہ ایسے بے وقت صرف وہی فون کر سکتا تھا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا: یار یہ اپنے عمران خان شرفاء کے ساتھ خوب کر رہا ہے۔ میں نے گھبرا کر پوچھا: چوہدری خدا خیر کرے کیا ہوا ہے؟ عمران خان نے کس شریف آدمی کے ساتھ کوئی زیادتی کر دی ہے؟ چوہدری کہنے لگا: میرے ساتھ اور کس کے ساتھ۔ میں نے کہا: چوہدری! یہ تمہیں کب سے غلط فہمی ہو گئی ہے کہ تم شریف آدمی ہو؟ چوہدری کہنے لگا: کیا میں نے کسی کی ”مج‘‘ کھول لی ہے جو میں شریف آدمی نہیں ہوں۔ میں نے کہا: چوہدری!َ آدھی رات کو اس طرح فون کرکے الٹے سیدھے سوالات کرنا اور اپنے بارے میں جھوٹ بولنا بھلا کہاں کی شرافت ہے؟ چوہدری کہنے لگا: اچھا جی! یہاں امریکہ میں رات ہے؟ میں نے تو بڑا سوچ کر اور کافی دیر انتظار کرکے خاص طور پر اس وقت فون کیا تھا کہ تم وہاں ڈسٹرب نہ ہو۔ بھلا اس وقت کیا بجا ہے؟ میں نے کہا: رات کے اڑھائی بجے ہیں۔ پوچھنے لگا: تم جاگ پڑے ہو؟ میں نے کہا: ظاہر ہے جاگا ہوں تو تم سے بات کر رہا ہوں۔ کہنے لگا: اب جب تم جاگ ہی گئے ہو تو پھر بات بھی کر ہی لو۔ میں نے کہا: بولو کیا بولتے ہو؟ کہنے لگا: وہ میرے ساتھ عمران خان بڑا ہاتھ کر رہا ہے‘ مجھ جیسا شریف آدمی جب اس کی باتوں، تقریروں اور گفتگو سے متاثر ہو کر ان سے متفق ہو جاتا ہے تو وہ اپنی ساری گفتگو اور مؤقف سے یوٹرن لے لیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت سب کو تو عطا نہیں کی۔ اب مجھے ہی لے لو۔ اللہ نے مجھے یو ٹرن لینے کی توفیق نہیں بخشی تو میرا کیا قصور ہے؟ وہ میرے ساتھ اور میرے جیسے اور لاکھوں لوگوں کے ساتھ بھی مسلسل یہی ہاتھ کر رہا ہے کہ جب ہم لوگ عمران خان کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں تو وہ ہمیں درمیان میں چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یوٹرن لے کر اپنے ساتھ اتفاق کرنے والوں کو حیران و پریشان چھوڑ کر دوسری طرف چل پڑتا ہے۔ اس بارے میں ایک شاعر نے بھی کچھ کہا ہے کہ جب بندہ خود مسلمان ہو تو دوسرا کافر ہو جاتا ہے یا جب بندہ خود کافر ہو تو دوسرا کافر مسلمان ہو جاتا ہے۔ اللہ جانے شاعر نے کیا کہا ہے لیکن کچھ اسی طرح کی بات کی ہے اور مجھے کنفیوژ کیا ہے۔ تم ذرا یاد کرکے مجھے بتائو کہ شاعر نے کیا کہا ہے۔
میں نے کہا: جس شعر کے بارے میں تم کہنا چاہ رہے ہو اس نے تو مجھے اور دیگر لوگوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ غالباً تم اس شعر کی بات کر رہے ہو ؎
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ، ایسی ہٹ کا کیا علاج
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
چوہدری خوشی سے نہال ہو کر کہنے لگا: اللہ تمہارا بھلا کرے بالکل یہی شعر ہے۔ میں اسی کی بات کر رہا تھا۔ میں نے کہا: چوہدری اس شعر نے صرف تمہیں ہی نہیں بہت سے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ تم بتائو بھلا یہ کس کا شعر ہے؟ چوہدری کہنے لگا: یہ شعر علامہ اقبالؒ کا تو بہرحال نہیں ہے؛ تاہم میرا خیال ہے چچا غالب کا ہے۔ میں نے کہا: چوہدری تم سے اب کیا گلہ کریں؟ تم تو خود ویسے ہی شعر دشمن ہو۔ اس شعر نے تو اچھے خاصے شعر سخن لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکیم مومن خان مومن کا شعر ہے۔ انہیں یہ گمان اس لیے ہوا کہ مسلمان اور کافر کے بارے میں حکیم مومن کا شعر ہے ؎
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
سو لوگوں نے گمان کر لیا کہ اس قسم کے اشعار صرف حکیم مومن خان ہی کہہ سکتے ہیں۔ کچھ نے اسے بگاڑ کر پہلا مصرعہ یوں کر دیا ؎
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
اصل میں شاعر کا نام کسی کو معلوم نہیں، سو لاوارث جان کر سب نے حسب توفیق مرمت میں حصہ ڈالا۔ کئی لوگوں نے شعر کی مرمت کرتے ہوئے دوسرے مصرعے کو خاصا مودب کر دیا اور ”میں‘‘ کو ”ہم‘‘ میں بدل کر ”ہم ہوئے کافر، تو وہ کافر مسلمان ہو گیا‘‘ کر دیا۔ کسی کے جذبۂ ایمانی کو جوش آیا تو اس نے اس شعر میں خود کافر بننا پسند نہ کیا اور فریق ثانی کو کافر بناتے ہوئے خود مسلمان ہونا قبول کر لیا اور شعر یوں بنا دیا؎
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ، دین حق پہچان کر
ہم ہوئے مسلم تو وہ مسلم ہی کافر ہو گیا
اللہ معاف کرے! بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اب ایک خوف یہ پیدا ہو گیا ہے کہ برادر عزیز ظفر اقبال کوئی غلطی نہ نکال دیں۔ ابھی گزشتہ سے پیوستہ کالم میں شریف کنجاہی کے شعر کو کمپوزر نے زور بازو سے اوپر نیچے کر دیا تھا؛ تاہم میری خوش قسمتی کہ ظفر اقبال صاحب کی پکڑ سے محفوظ رہ گیا۔ اصل شعر تھا؎
اے واعظ ذوق تہاڈے نوں، کیہہ نور نمازی آکھن گے
ہر جمعے کہانی حوراں دی، پا بہنی حضرت ٹھیک نہیں
تاہم کمپوزر بھائی جان نے ”نمازی‘‘ کو غازی بنا دیا۔ اب چونکہ غازی اور نمازی میں شاید زیادہ فرق نہیں تھا اس لیے عزت رہ گئی وگرنہ درستی کا اشتہار چھپ چکا ہوتا۔
میں نے چوہدری سے پوچھا کہ اب کیا ہوا ہے؟ چوہدری کہنے لگا: میں شروع میں ذرا کنفیوژ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا ہے یا آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ آئین کی پامالی میں اور آئین کی خلاف ورزی میں بڑا فرق ہے۔ آئین کی خلاف ورزی تو سارے حکمران کرتے آ رہے ہیں اور اب یہ روٹین کی بات ہے۔ اس میں کوئی پکڑ نہیں ہوتی۔ لیکن آئین کی پامالی ایک مختلف چیز ہے۔ لیکن اللہ بھلا کر عمران خان کا اس نے ٹی وی پر بیٹھ کر پرویز مشرف کی آئین شکنی پر ایسی مدلل اور جامع گفتگو کی کہ میں اس چیز پر یکسو ہو گیا کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین شکنی کی ہے۔ اپنے پیشہ ورانہ حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس دائرہ کار میں دخل دیا جس میں داخل دینے کا انہیں نہ تو اختیار تھا اور نہ ہی اجازت۔ آئین کو اٹھا کر ایک طرف کر دینے اور غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سارا نظام حکومت پلٹ کر دینا صر یح بغاوت ہے اور بغاوت ہی دراصل غداری ہے۔ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کی ضرورت پر زور دیا اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ عمران خان کی گفتگو اور دلائل نے میرا سارا کنفیوژن دور کر دیا اور میں قائل ہو گیا کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بھی ہونا چاہئے اور انہیں سزا بھی ملنی چاہئے۔ اب یہ سب کچھ ہو گیا ہے تو عمران خان صاحب نے حسبِ عادت پھر یُوٹرن لے لیا ہے اور مجھے ایک بار پھر حیران و پریشان کر دیا ہے۔ عمران خان خود تو مزے سے یُوٹرن لے لیتے ہیں اور اس بندۂ ناچیز کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ اس میں کیا کروں؟ مجھے تو سڑک پر بھی یوٹرن لینا نہیں آتا کجا کہ اس قسم کے یُوٹرن لینے پڑ جائیں جس کی مجھے نہ عادت ہے اور نہ صلاحیت۔ یہ میرا مینوفیکچرنگ فالٹ ہے جبکہ خان صاحب میں یُوٹرن لینے کی In Built خوبی اور صلاحیت ہے۔ خان صاحب تو مزے سے یوٹرن لے گئے ہیں‘ اب میں کیا کروں؟
خان صاحب کبھی ہمیں ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل سواری کے قصے سناتے ہیں اور کبھی مہذب قوموں کی روایات کی سٹوریاں سناتے ہیں۔ کبھی انگریزوں کی قانون کی پاسداری کی باتیں بتاتے ہیں اور ترقی کرنے والی قوموں کی آئینی حدود و قیود پر عمل کرنے کی اعلیٰ روایات بیان کرتے ہیں۔
انہی کے پسندیدہ اور سابقہ سسرالی ملک میں بادشاہت کا تختہ الٹنے والے ”پروٹیکٹر‘‘ اولیور کرامویل کو 1658 میں دفن ہونے کے تین سال بعد 1661 میں قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی۔ جب خان صاحب اقتدار میں نہیں تھے تو ہمیں اور قسم کی کہانیاں سناتے تھے۔ اب اپنی ہر کہانی، ہر تقریر، ہر گفتگو اور ہر دلیل پر یُوٹرن لیتے جا رہے ہیں اور مجھ جیسے شریف آدمی کو ہر ہفتے ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے اب وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب اس روز روز کے قضیے کو ختم کریں اور چھوٹے یُوٹرن لینے کے بجائے ایک بہت بڑا یُوٹرن لیتے ہوئے اعلان کریں کہ میں اقتدار میں آنے سے پہلے والی اپنی تمام تقاریر سے، ٹی وی پر کی گئی ساری گفتگو سے، جلسوں میں کیے گئے وعدوں سے، الیکشن سے قبل کیے گئے دعووں سے دستبرداری اور لا تعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔ میرا اب اپنے کسی پرانے وعدے، دعوے اور تقریر وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں اور آئندہ انہیں بطور ثبوت، گواہی یا حوالہ پیش نہ کیا جائے۔
اگر وہ یہ اعلان فرما دیں تو میرے لیے تو جو آسانی پیدا ہو گی سو ہو گی‘ خود ان کے لیے آئندہ کے لیے اتنی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی کہ اس کا انہیں اندازہ نہیں۔ مزید ان کے ہفتہ وار یوٹرن کی صفائیاں دینے والوں کو ان کے ترجمانوں کو اور پارٹی ورکروں کو جو سہولت اور آسانی ملے گی اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں‘ جو اس ہفتہ وار شرمندگی سے گزرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سب کو آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین۔