شجرِآسمان
ٹوکیو سکائی ٹری۔ پہلی نظر میں تو ایسا لگتا ہے جیسے گندم یا مکئی کے کھیت میں سفیدے کا درخت کھڑا ہو۔ ٹوکیو شہر کو اگر بلند و بالا عمارتوں کا کھیت مان لیا جائے تو یوں سمجھئے کہ یہ مینار اس کھیت کے بیچ میں کھڑا ہو اتنا ورشجر ہے۔ شاید اسی مناسبت سے اس مینار کا نام ”سکائی ٹری“ رکھا گیا ہے جسے ”شجرِ آسمان“ یا پھر آکاش برکھش بھی کہا جا سکتا ہے۔ چندسال قبل ہی مینار کی تعمیر تکمیل کو پہنچی تھی اور اسے عوام الناس کے داخلے کے لیے کھولا گیا۔
گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اسے دنیا کا بلند ترین مواصلاتی ٹاور قرار دیا گیا ہے۔ اس کی تکمیل سے لے کر افتتاح تک اور افتتاحی تقریب کی کوریج سے آج کی تاریخ تک شاید ہی کسی دن کا یہاں کوئی اخبار اس پر شکوہ مینار کی خبر سے مبرا ہو گا۔ ٹیلی وژن پر خبریں دیکھتے تو بھی یہی پتہ چلتا تھا کہ یہ ٹوکیو کا لازوال نشان ہے اوربعضے تو اسے ”ابدی علامت“ تک قرار دینے پر تلے نظر آرہے تھے۔ خبروں کے اسی سیلابی ریلے سے متاثر ہو کر میں پچھتر ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے دنیا کے اس بلند ترین مینار کے متعلق یہ چیدہ چیدہ باتیں تحریر کر رہا ہوں۔
634 میٹر لمبا یہ مینار ٹوکیو کی دنیا بھر میں نئی تعارفی علامت کہلانے کا مستحق ہے۔ اس کی مضبوطی کا پہلا امتحان چند سال قبل آنے والا تاریخی زلزلہ تھا، جس کے جھٹکے اس نے بطریق احسن برداشت کر لیے تھے۔ زلزلے سے کسی بھی طرح متاثر نہ ہونے کے سبب یہ سونامی سے متاثر ہونے والے لوگوں سمیت، تمام جاپانیوں میں ایک امید کا استعارہ بن کر ابھرا تھا۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سونامی سے مراد یہاں عمران خان کی سونامی نہیں بلکہ چند برس پیشتر سمندر کے فرش پر زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی، پانی پر مبنی سونامی کا تذکرہ ہے، جس میں تیس ہزار افراد لقمہئ اجل بن گئے تھے۔ سونامی جاپانی زبان کا لفظ ہے لہٰذا عمران خان کی سونامی سے کوئی بھی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔
وضاحتوں کی بات چلی ہے تو یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ دنیا کی بلند ترین عمارت دوبئی میں واقع ”برج خلیفہ“ ہی ہے جس کی اونچائی 828 میٹرہے۔ برج خلیفہ وہ عمارت ہے جس کی تکمیل سے پہلے دوبئی کی حکومت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی تھی۔ ابوظہبی نے دوبئی حکومت کو بیل آؤٹ تو کر دیا لیکن اس منصوبے کا قبضہ اس سے لے لیا ورنہ دنیا کی اس بلند ترین عمارت کا نام کوئی اور ہوتا۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ برج خلیفہ کنکریٹ سے بنی ہوئی ایک مکمل عمارت ہے جبکہ سکائی ٹری ایک آہنی مینار ہے۔ یوں اس ٹاور کا مقابلہ فرانس کے ایفل ٹاور، ٹوکیو ٹاور، جو لمبائی کے اعتبار سے دنیا میں بالترتیب پانچویں اور چوتھے نمبر پر ہیں یا پھر کینیڈا اورچین میں واقع بلندی کے لحاظ سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے میناروں سے ہے۔ دوبئی کے برج خلیفہ، ملائیشیا کے پیٹرو ٹاور اور امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی کیٹگری مختلف ہے۔
سیاحوں کی توجہ حاصل کرنا بھی اس مینار کی تعمیر کے مقاصد میں شامل ہے مگر بنیادی طور پر اس منصوبے کے اہداف مواصلاتی شعبے سے متعلق ہیں۔ ابتداء میں اس ٹاور پر پانچ ٹیلی وژن اسٹیشنوں، دو ایف ایم ریڈیو، ایک ٹیکسی کمپنی اور موبائل فون کمپنی کے مواصلاتی آلات نصب کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی سرکاری عمارت نہیں بلکہ نجی شعبے کا منصوبہ ہے جس سے سالانہ 150 ارب روپے کی آمدن ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس مینار پر سیاحوں کے لیے دو درشنی جھروکے بنائے گئے ہیں۔ Observatory Deck کے لیے درشن جھروکہ ہی مناسب لفظ لگتا ہے۔ پہلا جھروکہ ساڑھے تین سو میٹر کی بلندی پر ہے جس پر دو ہزار افراد منظر کا بیک وقت نظارہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا درشن جھروکہ ساڑھے چار سو میٹر کی اونچائی پر ہے جس میں ایک ہزار کے قریب لوگ سما سکتے ہیں۔ یوں تو چھ سو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی لفٹیں اس میں میں لگی ہوئی ہیں لیکن ہنگامی صورت میں لوڈ شیڈنگ کے لیے سیڑھیاں بھی موجود ہیں۔ بس ذرا سی مشکل ہے کہ اس کے زینے ڈھائی ہزار ہیں۔ اگر زینہ زینہ اترنا یا پھر چڑھنا پڑے تو دقت ہو گی۔
سکائی ٹری کے درشنی جھروکے پر سب سے پہلے جانے کا اعزاز افتتاح کے دن اس عورت کو حاصل ہوا تھاجس نے 2008 میں اس مینار کا نام تجویز کیا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ خاتون کے علاوہ بھی بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے یہی نام تجویز کیا تھا مگر قرعہ فال اس خوش نصیب کے نام کا نکلا۔ اس مینار کی تعمیر کا اعلان 2008 میں ٹوکیو ٹاور کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کیا گیا تھا، جسے 1958 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سالہا سال تک ٹوکیو ٹاور کودنیا کا بلند ترین مینار ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ پچاس سال مکمل ہونے پر جاپانیوں نے اس سے دگنی اونچائی کا ٹاور بنانے کا منصوبہ پیش کیا تھا، زیادہ سال بھی نہیں گزرے اور اب یہ سب کے سامنے حقیقت کے روپ میں کھڑا ہے۔
ٹوکیو کے مرکزی ریلوے اسٹیشن سے صرف پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع اس ٹاور کے گرد اک چھوٹا سا شہر بسایا گیا ہے۔ ٹاور کے مقام تک ریلوے لائین بچھائی گئی ہے، خصوصی ریل سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔ گراؤنڈ فلور پر سیاحوں کے لیے سینکڑوں دکانوں اور ریستورانوں کے علاوہ ایک رسدگاہ اور ایکواریم تعمیر کیا گیا ہے۔ درشنی جھروکے سے شہر کا منظر کیسا نظر آتا ہے؟ میں فی الحال بتانے سے قاصر ہوں۔ مینار کے درشن جھروکے تک جانے کے لیے ٹکٹ درکار ہے۔ اگلے تین ماہ کی ٹکٹیں ایڈوانس میں فروخت ہو چکی ہیں اور یہاں پر بلیک میں ٹکٹ خریدنے کی سہولت بھی میسر نہیں ہے اس لیے میں ابھی تک فضائی نظارے سے محروم ہوں۔ جب وہ نظارہ دیکھوں گا تو ضرور لکھوں گا۔