ارادہ تھا کہ آج کے کالم میں شعبہ تعلیم سے جڑے کچھ مسائل پر بات کی جائے۔خاص طور پر جامعات سے متعلق کچھ اہم معاملات کا ذکر کرنا چاہتی تھی، جنہیں ہم نے کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری جیسا اہم معاملہ بھی سیاست کی نذر ہونے لگا ہے۔ لیکن ایک اچھی خبر دیکھ کر اپناارادہ تبدیل کرنا پڑا۔ فی الحال شعبہ تعلیم سے متعلق موضوع کو کسی اگلے کالم تک موقوف رکھتے ہیں اور ایک اچھی خبر پر بات کرتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی فا ٹف (FATF) نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ گزشتہ چارسال سے پاکستان کے سر پر فاٹف کی تلوار لٹک رہی تھی۔ پاکستان متواتر گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاوں مارتا رہا۔ آخر کار ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔ فیٹف اقوام متحدہ کا ایک نہایت اہم ادارہ ہے۔ یہ ادارہ منی لانڈرنگ اور ٹیررازم فنانسنگ کی روک تھام سے متعلق ہے۔گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے فیٹف نے پاکستان کو 34 نکاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ٹاسک دے رکھا تھا۔ ان تمام نکات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے نتیجے میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی منظوری دی گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان اس لسٹ سے نکلنے میں کامیاب رہا۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں، جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ اس قول کے مصداق اس پیش رفت پر ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کر رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر متعلقین اس کامیابی کا کریڈٹ اپنی جماعت اور سابق حکومت کو دے رہے ہیں۔حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاسی رہنما ا س کامیابی کو موجودہ حکومت کی کاوشوں کا ثمر کہہ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے اس کا میابی کا سہرا آرمی چیف جنرل باجوہ کے سر باندھ دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بہت اچھا کیا جو تن تنہا اس کامیابی کا کریڈٹ سمیٹنے کے بجائے اس پیش رفت کو اجتماعی کاوش اور بصیرت کا نتیجہ قرار دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مشکل ٹاسک تھا۔ 34 نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں تھی۔ نہ ہی راتوں رات اس کامیابی کا حصول ممکن تھا۔ بہت سے اداروں نے مل کر فاٹف کے جاری کردہ 34 نکات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یقینا سابق حکومت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔موجودہ حکومت نے بھی اپنا کردار نبھایا۔تب کہیں جا کر یہ دشوار مرحلہ طے ہو سکا۔
2008 سے اب تک پاکستان تین مرتبہ فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل رہا ہے۔ کسی ملک کا نام فاٹف کی بلیک یا گرے لسٹ میں شامل ہو جائے تو اسے سخت معاشی مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ملک کیلئے براہ راست سرمایہ کاری کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ آئی۔ ایم۔ایف، ورلڈ بنک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بنک جیسے اہم عالمی ادارے اس ملک کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دنیا کے اہم ممالک کو اپنی مصنوعات برآمد کرنے میں بھی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان گزشتہ چار سالوں سے فاٹف کی گرے لسٹ سے جڑی معاشی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ اس ضمن ایک تحقیقاتی رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان (جو 2008 سے اب تک تین مرتبہ فاٹف کی گرے لسٹ میں شامل رہا) کو38 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اندازہ کیجئے کہ ہماری نازک معاشی حالت پر فاٹف کی گرے لسٹ نے کس قدر منفی اثرات مرتب کئے رکھے۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ فاٹف کے معاملے میں بھی بھارت نے متواتر پاکستان کا تعاقب کیا۔ اس کی کوشش رہی کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج نہ ہو سکے۔
ا ب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پاکستان کا نام دوبارہ گرے لسٹ میں شامل نہ ہو سکے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب اجتماعی بصیرت بروئے کار لائی جائے۔ لیکن یہاں تو ہمارے ارباب اختیار ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے قومی سیاست انتشار اور افراتفری کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ سیاسی اختلافات بڑھتے بڑھتے ذاتی اختلافات کا روپ دھار چکے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے کی دشمنی میں ہر حد پھلانگنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کو میڈیا پر رگیدنے اور عدالتوں میں گھسیٹنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایسے حالات میں اجتماعی بصیرت کیونکر بروئے کار آسکتی ہے؟ فی الحال تو یہ صورتحال ہے کہ پاکستان کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سامنے آجائے تو وہ سیاسی خبریں کے انبوہ کثیر میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ سیاسی تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم قومی سطح پر اجتماعی خو شی منانے اور غم بانٹنے کے قابل بھی نہیں رہے۔فاٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا قصہ ہو، سیلاب زدگان کی امدادکا معاملہ ہو یا کوئی اور قضیہ، اجتماعی خوشی یا غم منانے کا رواج تو جیسے ختم ہو کر رہ گیا ہے۔