کرسمس کیسے گزری
آغا شورش کاشمیری کی کتاب ‘بوئے گل نالۂ دل دُودِ چراغِ محفل‘ پڑھ کے گزری۔ پورا دن اُسے پڑھنے میں گزر گیا۔ کتاب ابھی ختم نہیں ہوئی، تیسرا دن ہے کہ پڑھ رہا ہوں لیکن ایک عجیب کیفیت اِس کی وجہ سے ذہن پہ طاری ہو گئی ہے۔
ایک تو آغا کی زبان ہے، کیا کمال کی دسترس اُنہیں حاصل تھی۔ پڑھنا شروع کیا تو کتاب نیچے رکھی نہیں جا رہی تھی۔ شام کی ٹھنڈ میں کوٹھے پہ تھوڑی سیر کی اور پھر نہا کے پیاسے ہونٹوں کو ذرا سا تَر کیا، پھر پڑھنے میں لگ گیا۔ زبان کے علاوہ جن حالات کا آغا نے نقشہ کھینچا ہے وہ ایسے محو کرنے والے ہیں… 1930ء کے واقعات جب ایامِ جوانی میں انہوں نے قدم رکھا۔ مسجد شہید گنج سے اُٹھنے والی تحریک اور اُس تحریک کا اثر جو نوجوان مسلمان ذہنوں پہ پڑا۔ جس طریقے سے انگریز سرکار نے اُس تحریک کو کچلا اور تحریک سے اُٹھنے والی تنظیم اتحادِ ملت‘ جس میں اُس زمانے کے بڑے بڑے پنجاب کے مسلمانوں کے نام تھے اور اِن ناموں کی ریشہ دوانیاں، جس طریقے سے تحریک شہید گنج کو اپنے چھوٹے مفادات اور اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا گیا۔ پھر یہ تحریک کیسے بے نیتجہ رہی۔
آغا جیل بھی گئے، اتنی بار گئے کہ یاد رکھنا مشکل پڑ جاتا ہے۔ اتحادِ ملت والوں سے جب اُن کا دل بھر گیا تو وہ مجلس احرار میں جا ملے۔ کتاب میں احرار کا ذکر تفصیل سے ہے۔ احرار کے لیڈروں کی تصویر کشی بھی خوب کی گئی ہے۔ خوبیاں بھی بیان کرتے ہیں اور کمزوریاں بھی۔ ساری کتاب میں آغا صاحب کی اپروچ معروضی ہے، یعنی وہ قصیدہ گوئی نہیں جو ہماری اکثر تاریخوں میں پائی جاتی ہے۔ اُس دور کی ساری ہنگامہ خیزی یوں بیان ہے کہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے جاگ اُٹھتے ہیں۔ یہ تحریر کا کمال ہے۔ لیکن بھرپور تذکرہ اِس کا بھی ہے کہ احرار جیسی اسلامی تحریک آخر کار کیوں ناکام رہی اور مسلمانوں کے جذبات کیونکر نہ حاصل کر سکی۔ اس سارے تذکرے سے جو چیز واضح طور پر اُبھرتی ہے وہ قائد اعظم کی شخصیت ہے۔ آغا زیادہ بیان تحریک احرار کو کر رہے ہیں اور لکھ اُس کے لیڈروں کے بارے میں رہے ہیںلیکن ساتھ ہی اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند کی دَبی آرزوؤں کو کسی نے زبان دی تو وہ قائد اعظم تھے۔ ذکر اُس زمانے کے واقعات کا ہو رہا ہے لیکن جیسے عرض کیا قائد اعظم کی شخصیت نمایاں ہوتی جاتی ہے۔ ہر جگہ اُن کی استقامت اور سوچ کا اعتراف ملتا ہے۔
1946ء کے انتخابات میں مسلمانوں کی تمام تر مذہبی جماعتیں جیسا کہ احرار، جمعیت علمائے ہند وغیرہ مسلم لیگ کے خلاف تھیں۔ طرح طرح کے ذاتی نوعیت کے حملے جناح صاحب کی ذات پہ کیے گئے لیکن ان جماعتوں کا کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہو سکا اور مسلمانانِ ہند نے بحیثیت مجموعی اپنا غیر متزلزل اعتماد قائد اعظم اور مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈالا۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ مذہبی فتووں کو مسلمان خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ اُن کی سوچ سیاسی تھی اور انتخابات میں اُن کا فیصلہ بھی سیاسی تھا۔ قائد اعظم تو صاحب قسم کے لوگ تھے‘ دیسی یا کھدر کپڑے پہننے کا کبھی ناٹک نہیں کیا۔ صرف آخری چند سالوں میں اُنہوں نے اچکن اور ٹوپی پہننا شروع کی۔ زیادہ عمر اچھے سے اچھے کپڑے پہنے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی جلسے سے بھی خطاب کرتے تو انگریزی میں۔ انگریزی آج کوئی بولے تو لوگ سمجھ نہ سکیں، تب تو حالات ہی اور تھے لیکن مسلمانوں کے ذہنوں میں اُن کی شخصیت ایسی بن چکی تھی کہ انگریزی میں بھی بولتے تو دلوں پہ اثر پڑ جاتا تھا۔ ہم میں سے بہتوں نے قائد اعظم کی آواز نہیں سُنی۔ چند آڈیو ریکارڈنگز ضرور ہیں لیکن اتنی عام نہیں۔ وہ سُنیں تو پھر آواز کا دبدبہ سامنے آتا ہے۔ اُس آواز میں فرانسیسی بھی بولتے تو فرق نہ پڑتا۔
میں تو کہوں گا کہ تحریک پاکستان کو سمجھنے کیلئے آغا شورش جیسی کتابوں کو پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سمجھ ہی نہیں آتی کہ اُس دور میں مسلمان ذہنوں کی کیفیت کیا تھی اور کیسے۔ 1940ء سے لے کر 1946ء تک مسلمان قوم میں وہ جذبہ پختہ ہوا جس سے پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی۔ خاص طور پہ یہ کتاب جو ہے میرے خیال میں ہر سیاسی طالب علم کو پڑھنی چاہیے۔ میرے جیسے لوگ وقتاً فوقتاً اوپر نیچے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں مولانا آزاد کا جامع مسجد دہلی میں خطاب یاد آتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ کیا بے مثال بات مولانا نے کی۔ آغا شورش بھی اُسی ذہن کے آدمی تھے۔ اُن کے خیالات مولانا آزاد وغیرہ سے ملتے جلتے تھے۔ لیکن جو واقعات بیان کرتے ہیں ایک طرفدار کی طرح نہیں بلکہ ایک غیر جانبدار آبزرور کی حیثیت سے۔ ان کی روداد سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ جو مسلمانوں کی عمومی سوچ تھی، جو دلوں میں ولولہ پیدا ہو چکا تھا، اُس سے مولانا آزاد اور اُن کی سوچ رکھنے والے لوگ بالکل غیر متعلق ہو چکے تھے۔ یہ مسلمانوں کا اپنا ایک اجتماعی تجربہ تھا جس سے ذہنوں میں ایک خاص سوچ بنی۔ قائد اعظم نے اُسی سوچ کو پکارا۔ اُسی نبض پہ ہاتھ رکھا۔ اسی لیے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ آغا شورش کی کتاب پڑھیں اور گو اُس کا کلیدی موضوع قائد اعظم کی ذات نہیں ہے لیکن پڑھ کے اوپر بیان کیا ہوا تاثر ہی اُبھرتا ہے۔
یہ پھر کسی بڑے المیے سے کم ہے کہ قائد اعظم کیا سوچ رکھتے تھے اور اُس سوچ کو پاکستان میں کیسے مسخ کیا گیا اور ایک اور ہی چادر اُس پہ چڑھانے کی کوشش کی گئی؟ قائد اعظم مسلمانانِ ہند کے بلا شرکت غیرے سیاسی لیڈر تھے۔ اُن کا ہم پلہ کوئی نہ تھا۔ لیکن یہ جو بعد کی کوششیں ہوئیں کہ تصورِ پاکستان کو ایک عجیب ہی رنگ دیا جائے اِس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کچھ لمبی ہوتی تو قرارداد مقاصد جیسی دستاویز آئین ساز اسمبلی میں منظور ہونا تو دور کی بات ہے کبھی پیش بھی نہ ہو سکتی۔ یہ قائد اعظم ہی تھے جو کہہ سکتے تھے کہ تم آزاد ہو جاؤ اپنے مندروں میں، جاؤ مسجدوں میں اِس کا تعلق امور ریاست سے کوئی نہیں۔ مذہب آپ کا اپنا اپنا ہے لیکن پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگ برابر کے شہری ہیں۔ بعد میں جن بحثوں میں ہم پڑ گئے‘ قائد اعظم کے ہوتے ہوئے وہ کبھی نہ سر اُٹھا سکتیں۔ آزادی کے بعد اُن کی ہر تقریر دیکھ لیں، قوم کو تلقین کر رہے ہیں کہ ترقی کیلئے تمہیں یہ کچھ کرنا ہے۔ ہمیشہ تعلیم پر زور دیا اور ہمیشہ کہا کہ قوم میں ڈسپلن ہونا چاہیے۔ ہمارا المیہ ہے کہ قائد اعظم کا ذکر آتا ہے تو تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں بغیر یہ کوشش کیے کہ اصل میں اُن کی شخصیت کیا تھی اور اُن کے سیاسی افکار کیا تھے۔
سچ تو یہ ہے اُس پائے کے لیڈر اُس وقت ایشیا میں کم ہی تھے۔ لیکن ہم نے جو حشر پھر قائد اعظم کی سوچ کے ساتھ کیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ہماری تاریخ میں دوسرا بڑا المیہ لیاقت علی خان کا قتل تھا۔ اُس سانحے کے پیچھے کون تھا ہم کہہ نہیں سکتے‘ لیکن اس واقعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ امور ریاست میں سیاستدان پیچھے ہو گئے اور افسر شاہی طاقتور پوزیشن میں آ گئی۔ سیاستدان بھی کیا تھے، زیادہ تر انگریزوں کے حاشیہ بردار اورکاسہ لیس۔ اس زاویے پہ بھی آغا شورش کی کتاب میں بھرپور تذکرہ ہے اور بہت ہی دماغ کو چکرا دینے والی گفتگو پنجاب کی اجتماعی ذہنیت کے بارے میں ہے۔ وہ اوراق جن میں پنجاب کا ذکر ہے پڑھنے کے قابل ہیں۔ اُنہیں پڑھ کے پاکستانی سیاست کی بہت ساری چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔
احرار سے بڑے خطیب کسی اور تنظیم نے پیدا نہیں کیے۔ عطا اللہ شاہ بخاری خطاب شروع کرتے تو نماز فجر تک مجمع انہماک سے بیٹھا رہتا۔ آغا شورش بھی بہت بڑے خطیب تھے۔ زمانہ طالب علمی میں ایک دفعہ لاہور YMCA میں اُنہیں سننے کا اتفاق ہوا۔ معاہدہ تاشقند کا قضیہ چل رہا تھا اور اُسی پہ آغا صاحب کی تقریر تھی۔ الفاظ یاد نہیں لیکن یہ احساس اب تک زندہ ہے کہ دل پہ اثر کیا رہا۔ بس اُنہیں پڑھنے میں بہت دیر کر دی۔ صرف یہ کتاب نہیں بلکہ اِن جیسی اور تحریروں کا مطالعہ ذرا پہلے کر لیتے تو کئی چیزوں کے بارے میں سوچ ذرا بہتر ہو جاتی۔