’ٹھیکیدار 35 لاکھ میں ڈیم بنائے گا تو یہ ٹوٹے گا ہی‘، بلوچستان میں 169 ڈیمز کیسے ٹوٹے؟
اس وقت رات کے نو یا دس بج رہے تھے۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ پانی کے تیز ریلے میں ایک ٹرالی پھنسی تھی جس میں ڈرائیور سمیت 13 افراد سوار تھے۔
پانی کا ریلا اتنا تیز تھا کہ کنارے پر کھڑے افراد کے لیے آگے بڑھ کر ٹرالی پر پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ناممکن تھا۔ وہ لوگ بس ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور کسی معجزے کی دعا مانگ رہے تھے۔
دوسری طرف ٹرالی پر پھنسے لوگ اپنی چیخ وپکار میں کنارے پر کھڑے ساتھیوں کی آوازیں تو سُن سکتے تھے مگر ان کی بات سمجھ سے باہر تھی۔ پانی کا شور تھا اور آواز سامنے بنی پہاڑی سے گونج کر واپس پلٹ رہی تھی۔
اتنے میں پانی اپنی پوری طاقت سے ٹرالی کو بہا کر لے گیا اور اس پر سوار درجن بھر لوگ تنکوں کی مانند اس کے ساتھ ہی بہے گئے۔
یہ قلعہ عبداللہ کا علاقہ تھا جہاں ٹرالی ڈوبنے کی یہ ویڈیو اس وقت وائرل ہوئی جب بلوچستان میں حالیہ سیلاب کا دوسرا سپیل شروع ہوا اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ ٹرالی پر سوار افراد میں سے تین ہلاک ہوئے جبکہ باقی کئی کلومیٹر تک بہنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔
قلعہ عبداللہ کے مرکزی بازار سے کچھ فاصلے پر مقامی طرز پر بنے کچے گھروں میں سے ایک میں دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی صف ماتم بچھی تھی۔ یہاں 16 سالہ معمر خان کی موت ہوئی تھی۔ معمر اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسی ٹرالی پر سوار تھے۔ وہ مقامی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کی فٹبال کھیلتے ہوئے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی رہیں۔
جب بلوچستان میں سیلاب کی دوسری لہر آئی تو یہاں ڈیمز ٹوٹنے کے چند واقعات رپورٹ ہوئے۔ انھی میں سے ایک معمر خان کے گھر کے قریب واقع تھا۔ ہم ان کے بڑے بھائی محمد عمر خان کے ہمراہ اس مقام پر پہنچے جہاں وہ ٹرالی پانی میں بہہ گئی۔
محمد عمر آبدیدہ تھے اور انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کے لیے اکثر خود کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ ’کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ٹرالی نہ چلاتا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کاش یہ ڈیم نہ ٹوٹا ہوتا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔ میں سمجھا تھوڑا سا پانی ہے، میں ٹریکٹر گزار لوں گا۔‘
’مگر پانی بہت تیز تھا۔ ڈیم کے ساتھ جو کچرا آیا وہ سب ٹریکٹر کے ٹائر میں پھنس رہا تھا۔ میرا دوسرا بھائی ٹائر پر کھڑا تھا اور کچرا نکال رہا تھا۔ معمر کی آخری بات مجھے یاد ہے۔ اس نے آواز دے کر کہا کہ ’بھائی پیچھے ٹرالی میں آ جاؤ۔ مگر اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘
محمد عمر دیگر علاقہ مکینوں کی طرح اس تباہی کا ذمہ دار اس ڈیم کو ٹھہراتے ہیں جس کے ٹوٹنے سے پانی کا ریلا اتنا شدید ہو گیا کہ وہ راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا لے گیا۔
یہیں ان کے انگوروں کے باغات تھے جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اور ان کا خاندان لاکھوں روپے کے قرض تلے دب چکا ہے۔
لیکن یہ واحد ڈیم ہے نہ ہی یہ واحد خاندان جو آج جانی اور مالی نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔
ڈیمز کی تباہی اور بی بی سی کی تحقیقات
بلوچستان ملک میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ یہاں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ لاکھوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں باغات تباہ ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق ان نقصانات کی ایک بڑی وجہ وہ چھوٹے ڈیمز ہیں جو سیلاب کے دوران ٹوٹ گئے۔
صوبے کے 23 اضلاع میں بنے یہ ڈیمز مکمل یا جزوی طور پر ٹوٹے اور ان سے نکلنے والے پانی کے تیز ریلے راستے میں آنے والی ہر شے بہا کر لے گئے۔
بی بی سی کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں 169 ڈیمز ٹوٹے جن میں کم از کم 40 ڈیم ایسے ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ دیگر ڈیمز میں مختلف نوعیت کے نقصانات ہوئے تاہم ان میں سے بیشتر مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے ہیں۔ ان میں کچھ ڈیمز ایسے بھی ہیں جو ابھی زیرتعمیر تھے یا ان پر کام مختلف وجوہات کی بنا پر تعمیراتی کام رُکا ہوا تھا۔
دستاویزات کے مطابق ڈیمز ٹوٹنے کے سب سے زیادہ واقعات قلعہ عبداللہ میں ہوئے جہاں 38 ڈیمز تباہ ہوئے۔ کوئٹہ میں 15 چھوٹے ڈیمز ٹوٹے یا ان میں شگاف پڑے جبکہ ضلع خضدار میں یہ تعداد 11 ہے۔
دستاویزات کے مطابق حب، ڈیرہ بگٹی اور بیلا میں نو، نو ڈیمز، کچھی میں سات، چاغی نوشکی، ہرنائی، ژوب اور موسی خیل میں پانچ، پانچ ڈیمز ٹوٹے۔ اسی طرح ضلع خاران واشک اور مستونگ میں چار، چار، کیچ میں تین، کوہلو اور قلات میں دو، دو جبکہ سراب اور ڈکی ڈسٹرکٹ میں سے ہر ایک میں ایک، ایک ڈیم غیر فعال ہوا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ان ڈیمز اور صوبے میں کینال سسٹم کی تعمیر و مرمت کے لیے اندازہ لگایا گیا ہے کہ صوبے کو 22 ارب روپے درکار ہوں گے اور ان ڈیمز کی دوبارہ تعمیر یا مرمت کا کام مختلف مراحل میں مسلسل جاری رہا تب بھی اس پر تین سے چار سال کی مدت لگ جائے گی۔ یہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ خشک سالی ہے۔
بلوچستان میں ڈیمز ٹوٹنے سے پھیلنے والی تباہی جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ پاکستان میں ڈیمز کی اقسام کون سی ہیں اور یہ ڈیمز کیسے ’فیل‘ یا غیر فعال ہو کر ٹوٹ سکتے ہیں۔
ڈیم کیا ہے اور یہ کیسے ٹوٹتا ہے؟
ماہرین کے مطابق پاکستان میں سائز اور گنجائش کے لحاظ سے ڈیمز کو بنیادی طور پر تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں کثیر الجہتی بڑے یا میگا ڈیمز جیسا کہ تربیلا اور منگلا ڈیم ہیں، اس کے بعد میڈیم اور چھوٹے سائز کے ڈیمز ہیں جو کہ عام طور پر صوبوں کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے حاصل فوائد بھی مقامی سطح پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد منی ڈیمز، چیک ڈیمز اور تالاب ہیں جو کہ عام طور پر فلاحی سکیموں کا حصہ ہوتے ہیں۔
ڈیم کی منصوبہ بندی کے وقت اس کے سائز کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ڈیم کا بنیادی مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے جو آبپاشی اور پینے کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ تفریحی مقاصد، گراونڈ واٹر ری چارج اور فلڈ مینجمنٹ کے لیے بھی بنائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد اگر اس کی سٹوریج سے زیادہ پانی آ جائے تو اس پانی کو نکالنے کے لیے ارینجمنٹ کیا جاتا ہے جسے سپیل وے کہا جاتاہے، یعنی سرپلس پانی کے لیے گزر گاہ۔
ڈیمز کی ان تمام اقسام کے لیے بین الاقوامی کوڈز ہیں جو تعین کرتے ہیں کہ کس سائز کے ڈیم کو کس معیار کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں کس قسم کے رسک فیکٹرز (خطرات) ہوں گے جن کا خیال رکھنا ضروری ہو گا۔
ڈیم کیوں ’فیل‘ ہوتا ہے یا ٹوٹ سکتا ہے؟
بی بی سی نے اس سے متعلق ڈیمز سے متعلق کام کرنے والے کنسلٹنٹ اور انجینیئر ظفر اقبال وٹو سے بات کی اور ان سے یہ پوچھا کہ ایک ڈیم کیسے ناکام ہو سکتا ہے، ان کے مطابق اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
- پہلی وجہ ڈیم کی تعمیر کے دوران ناقص منصوبہ بندی اور کنسٹرکشن ہے۔ اگر ایک ڈیم کا ڈیزائن ٹھیک نہیں یا اس میں مٹیریل درست معیار کا استعمال نہیں ہوا یا تعمیر کے دوران کوالٹی کنٹرول کا خیال نہیں رکھا گیا، یا اگر ڈیم درست طریقے سے بن تو گیا مگر اس کے آپریشن اور مرمت کا خیال نہیں رکھا گیا، اس پر ریگولر چیک نہیں رکھا گیا۔
- دوسری بڑی وجہ گنجائش سے زیادہ پانی آنا ہے۔ ایسی صورت میں اس فالتو پانی کو نکالنے کے لیے سپل وے سٹرکچر بنے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سپل ویز سٹینڈرڈ ڈیزائن کے مطابق نہ ہوں تو یہ ڈیم تباہ ہو سکتا ہے۔ ان سپل ویز کا سائز اور ان کی تعداد کا انحصار ڈیم کے سائز اور وہاں پانی کی گنجائش کے علاوہ پانی کی آمد پر ہے، جس کا ذریعہ بارش یا کچھ اور ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر سپل ویز انڈر ڈیزائن ہیں، یا جس علاقے میں ڈیم بنے وہاں بارشوں یا پانی کی آمد یا اس ڈیم کی تعمیر کے لیے علاقہ موزوں ہونے سے متعلق ڈیٹا ہی دستیاب نہیں تھا، مگر اس کے باوجود وہاں ڈیم بنا دیا گیا تو یہ بھی ڈیم تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ ڈیمز مگر نگراں ادارہ کوئی نہیں
پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیمز بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان فلڈ کمیشن کی 2020 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 1007 ڈیمز ہیں جن میں سے 710 بلوچستان میں ہیں، ان میں بھی 65 ایسے ہیں جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا جبکہ ڈیڑھ سو کے قریب بڑے ڈیمز ہیں۔ سندھ میں 127، پنجاب 67 جبکہ خیبر پختونخوا میں 65 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں۔
بلوچستان میں اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے۔ سالہا سال خشک سالی کا شکار رہنے والے صوبے میں پانی کی ضروریات بڑی حد تک انھی چھوٹے ڈیموں کی مدد سے پوری کی جاتی ہیں۔ ان میں عام طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جس کا بڑا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔
تاہم بی بی سی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صوبے کی اہم ترین ضرورت پوری کرنے کے لیے بنائے جانے والے ان ڈیموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور ان کی تعمیر میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عام ہے۔
صوبے میں ڈیمز کی تجویز اور پی سی ون (ابتدائی پلاننگ) کے وقت بارشوں سے متعلق پیشنگوئی کرنے کے لیے ریسرچ کی جاتی ہے نہ ہی ایسا کوئی نظام موجود ہے جبکہ دیگر صوبوں کے برعکس اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز ہونے کے باوجود یہاں ان کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
بلوچستان میں ڈیمز کیوں ٹوٹے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے بعد ہم بلوچستان کے محکمہ آبپاشی پہنچے۔
ڈیمز کی نگرانی کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ موجود نہیں اور یہ کام بھی صوبے کا محکمہ آبپاشی سرانجام دے رہا ہے جس کے کندھوں پر صوبے میں پانی سے جڑی ہر ذمہ داری ہے، چاہے وہ سیلاب ہو، ندی نالے ہوں، کینال سسٹم ہو یا پھر چھوٹے بڑے ڈیمز۔
یہاں ہماری ملاقات سیکرٹری اریگیشن ڈپارٹمنٹ محمد عبدالفتح سے ہوئی۔ ہم نے ان سے اس تباہی کے بارے میں پوچھا جو حالیہ سیلاب کے دوران ہوئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی تباہی نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق اس سال بارشیں کئی گنا زیادہ ہوئیں جن سے چھوٹے ڈیمز تباہ ہوئے۔ تاہم ’یہ تعداد ایک یا دو فیصد ہے، ہم نے بہت سے ڈیمز بچائے اور بہت سے علاقے ڈوبنے سے بھی بچائے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا ڈیمز کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل استعمال ہوا، دوران تعمیر انسپیکشن نہیں کی گئی اور ڈیزائن کے مطابق تعمیر نہیں ہوئی، سیکریٹری اریگیشن نے کہا کہ ’اس امکان کو، انسانی غلطی کو، نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت اس ضمن میں تحقیقات کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان حکومت نے گذشتہ دنوں اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں جس سے متعلق آنے والی سطروں میں بتایا جائے گا۔
’ڈیمز ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ ہے‘
محکمہ آبپاشی تو ڈیمز ٹوٹنے کا ذمہ دار گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ بارشوں کو ٹھہرا رہا تھا مگر ان ڈیمز کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار کچھ اور کہہ رہے ہیں۔
کوئٹہ میں ہم عبدالصبور کاکڑ نامی ٹھیکیدار سے ملے جو صوبے میں مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ڈیمز اور سڑکوں کے ٹھیکوں پر کام کرتے ہیں۔ وہ ان الزامات کو رد کرتے ہیں کہ ڈیمز ٹوٹنے کی وجہ ٹھیکیدار کی غلطی ہے۔ ’ٹھیکیدار کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہاں ٹھیکے بکتے ہیں۔ ایک اچھے ٹھیکیدار کو تو کام دیا جاتا ہے نہ ہی وقت پر رقم دی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر‘ ٹھیکے دیے جاتے ہیں جبکہ ٹھیکیداروں سے کل رقم کا 65 فیصد تک ’کمیشن اور رشوت ‘ کی صورت میں ’سیاستدان اور محکمہ آبپاشی کے اہلکار اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں۔‘
عبدالصبور کاکڑ کے مطابق ’رکن صوبائی اسمبلی حکم دیتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ایک کروڑ روپے کا ڈیم تعمیر کروایا جائے۔ اب اگر محکمے میں پی سی ون پر کام کرنے والا کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ ایک کروڑ میں ڈیم نہیں بن سکتا تو اس کا تبادلہ کرا دیا جائے گا۔‘
’یہاں اتنی مضبوط لابی ہے کہ ایک سیکریٹری تک کا تبادلہ کرا دیا جاتا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک کروڑ روپے میں پچاس فٹ کا ڈیم بن سکتا ہے؟ یہاں بنایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے منصوبے کا پی سی ون بنے اور پھر اس کے مطابق منصوبے کے لیے رقم مختص ہو۔ لیکن بلوچستان میں پہلے رقم مختص کی جاتی ہے۔ اس میں سے 65 فیصد مختلف لوگوں کو کمیشن میں چلا جاتا ہے۔ اب وہ ٹھیکیدار پینتیس لاکھ میں ڈیم بھی بنائے گا اور اپنا منافع بھی نکالے گا۔ پھر ڈیم تو ٹوٹے گا۔‘
عبدالصبور کاکڑ وہ واحد شخص نہیں جن سے میں نے ڈیمز کے ٹھیکوں میں کرپشن اور سیاسی اثرورسوخ کے الزامات سنے۔
سو ہم نے یہ سوال اریگیشن ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری کے سامنے رکھ دیے۔ لیکن ہمارے اصرار کے باوجود انھوں نے کہا کہ ’آپ کیمرہ بند کر دیں۔ یہ سوال کیمرے پر نہ پوچھیں۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ان الزامات کی تحقیق کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر دی ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس رپورٹ میں بھی ان تمام الزامات کی تصدیق کی گئی ہے۔
بلوچستان میں حکام صوبے میں ڈیمز کے ٹوٹنے سے ہونے والے نقصان کو ’معمولی‘ قرار دے رہے ہیں مگر جن کا مالی نقصان ہوا، انھیں یہ نقصان پورا کرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔
ڈیمز ٹوٹنے سے باغات اور زرعی اراضی کی تباہی
ہم سیلاب کے ایک ہفتے بعد بلوچستان میں ڈیمز ٹوٹنے کی وجہ سے زرعی زمین اور باغات میں نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے افغان سرحد کے قریبی علاقے توبہ کاکڑی پہنچے۔ یہ ضلع پشین کا سرحدی علاقہ ہے۔ ہم جس مقام پر پہنچے وہاں دور دور تک موجود سیبوں کے درخت جڑ سے ہی اکھڑ گئے تھے۔
ٹیوب ویل، کنویں اور انھیں چلانے والے سولر سسٹم بہہ گئے تھے۔ یہاں تک کہ بجلی کے کھمبے زمین سے اکھڑ کر ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ اور ان باغات کے مالکان اب قرض کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔
یہاں ہماری ملاقات محمد صالح سے ہوئی جو بچ جانے والے سیبوں کی پیکنگ میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’سیب کا ایک درخت بننے میں آٹھ سے دس سال لگ جاتے ہیں اور پھر یہ پھل اور منافع دینا شروع کرتا ہے۔ ہمارے باپ اور چچا نے آج سے بیس پچیس سال پہلے یہاں یہ باغ لگائے جو اب بالکل تباہ ہو گئے ہیں۔ ہمارے چھ، سات سو درخت تھے، اب تو سو یا ڈیڑھ سو بچے ہیں۔ سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا ہے۔‘
سیبوں کے یہ باغات تین ڈیمز میں گھرے ہیں جن سے ان باغات سمیت ضلع کے دیگر علاقوں میں آبپاشی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان میں دو مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ ایک کو جزوی نقصان پہنچا جو علاقہ مکینوں نے خود ہی ٹھیک کیا۔ اس ڈیم میں اب بھی اتنا پانی موجود ہے کہ عارضی مرمت کے بعد یہ ٹوٹ گیا تو یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔
محمد صالح نے بتایا کہ ان باغات میں ایسے لوگوں کا حصہ بھی تھا جن کے چالیس یا پچاس درخت تھے اور انہی کی کمائی پر ان کا چولہا جلتا تھا۔ وہ درخت ختم ہو گئے ہیں اور یہ خاندان اب علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں تاکہ شہروں میں مزدوری کر سکیں۔
محمد صالح سے جب یہ پوچھا کہ کیا ان ڈیمز کی تعمیر کے بعد یہاں اہلکار ڈیموں کا جائزہ لینے یا ان کی دیکھ بھال کے لیے آتے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی یہاں سرکاری اہلکاروں کو نہیں دیکھا۔
’ڈیمز بننے کے بعد یہاں کبھی کوئی نہیں آیا۔ بند ٹوٹنے سے پہلے جب ڈیم پانی سے بھر گئے تو ہم اہل علاقہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے، یہاں ایم این اے، ایم پی اے سے رابطے کیے اور انھیں بتایا کہ ڈیم کو خطرہ ہے، یہ بھر گیا ہے۔ پھر اس دن صبح ایک انجینیئر صاحب آئے اور ڈیم دیکھ کر بولے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی دن تین یا چار بجے ڈیم ٹوٹ گیا۔ پانی اپنے ساتھ باغات بھی بہا کر لے گیا اور لوگ بھی مارے گئے۔‘
یہ سرگئی غیژ ڈیم ہے جس کے ٹوٹنے سے اس علاقے میں نقصان ہوا۔ ہم اس ڈیم پر پہنچے جس کی اونچی دیوار میں بہت بڑا شگاف پڑا تھا۔ یہاں پانی تو نہیں بچا مگر زمین اب بھی نم ہے اور چلتے ہوئے کسی بھی وقت پاؤں کچی مٹی میں کُھب سکتا ہے۔ اس ڈیم کی تینوں جانب پہاڑ ہیں جہاں سے پانی آتا ہے اور یوں قدرتی طور پر اس مقام پر سٹور ہو جاتا ہے، جبکہ چوتھی جانب مٹی اور ریت کی کئی تہوں پر بنی دیوار ہے جو پانی کے اس بڑے ذخیرے کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دیوار کا آدھا حصہ اب ٹوٹ چکا ہے۔
ہم نے اس ڈیم کی تصاویر جب ٹھیکیدار عبدالصبور کاکڑ کو دکھائیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی دیوار میں انتہائی ناقص مٹیریل استعمال ہوا ہے جبکہ یہی تصاویر دیکھ کر انجینیئر ظفر اقبال نے کہا کہ اس ڈیم کی گنجائش سے زیادہ پانی آیا تو وہ اوور ٹاپ کر گیا، جس کے نتیجے میں ڈیم کی دیوار ٹوٹ گئی۔
’ہم اب ڈیمز نہیں بنانے دیں گے‘
ڈیمز ٹوٹنے سے نکلنے والا پانی انتہائی تیز رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا مقابلہ انسانی بس کا کام نہیں ہے۔ حکومت، ٹھیکیدار، انجینیئرز اور ماہرین ڈیمز ٹوٹنے کی کچھ بھی تاویلیں اور وجوہات بتاتے رہیں، ان میں سے کچھ بھی توبہ کاکڑی کے حاجی عبدالرحیم کا غم کم نہیں کر سکتیں۔
حاجی عبدالرحیم کے دو جواں سال بیٹے اسی غیژ ڈیم کے پانی میں بہہ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب ان کا کچا گھر ویران پڑا ہے اور انھیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اب کس سے انصاف مانگا جائے۔
’ہم اپنے باغ کی طرف بھاگے کہ جو سامان بچا ہے اس کو ایک طرف کر دیں۔ ہمیں یہ خبر نہیں تھی کہ غیژ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔ اتنے میں ایک بڑا ریلا آیا اور میرا ایک بیٹا ڈوب گیا۔ دوسرے بیٹے نے اسے بچانے کے لیے چھلانگ لگا دی، وہ بھی ڈوب گیا۔ کئی گھنٹے بعد ان کی لاشیں ملیں۔ میری تو دنیا اُجڑ گئی ہے۔ اور سب نقصان اس ڈیم کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ کچی مٹی سے ڈیم بناتے ہیں۔ وہاں افغان بارڈر تک سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ لوگوں کے تو صرف باغ اجڑے ہیں، میرا تو گھر برباد ہو گیا ہے۔‘
ان کا بیٹا اس کلی (گاؤں) میں ایک سو کے قریب بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ ایسے علاقے جہاں بچوں کے لیے سکول تک موجود نہیں ہیں، لوگ ڈیمز کو ایک بڑی سہولت سمجھتے تھے جن سے کم از کم انھیں باغات اُگانے اور کاروبار کرنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن اب حاجی عبدالرحیم ہوں، محمد صالح ہوں یا قلعہ عبداللہ کے محمد عمر، ان کا یہی کہنا ہے کہ اب وہ ڈیم نہیں بنانے دیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میں اکیلا نہیں کہتا، یہاں کا بچہ بچہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اگر ایسے ڈیمز بنانے ہیں تو ہمیں ان ڈیموں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں بنانے دیں گے۔‘
دوسری طرف ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان ڈیمز کی تعمیر اور دیکھ بھال میں کوتاہیوں سے خشک سالی کے شکار اس صوبے میں پانی اور آبپاشی کا بحران آئندہ برس بدتر ہو جائے گا، اور ایک بار پھر پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے میں عام شہری ان کوتاہیوں کی قیمت ادا کریں گے۔