Site icon DUNYA PAKISTAN

ایف اے ٹی ایف: پاکستان کو ’بلیک لسٹ‘ سے باہر رہنے کے لیے فروری 2020 تک کیا کرنا ہو گا؟

Share

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے چند روز قبل پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے جواب میں پاکستان کو 150 کے لگ بھگ تبصرے اور وضاحتیں بھیجی ہیں۔ زیادہ تر وضاحتیں کالعدم تنظیموں اور اُن سے وابسطہ افراد سے متعلق کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں ہیں۔

پاکستان نے چند ماہ قبل ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کو اس حوالے سے ہوئی پیش رفت کی رپورٹ دی تھی جس میں اُن اقدامات کی تفصیلات تھیں جو پاکستان نے دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے اور شدت پسند تنظیموں اور افراد کے خلاف کیے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی کوشش ہے کہ پاکستان منی لانڈرنگ کے انسداد اور دہشتگردی کی مالی معاونت روکنے سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کرے۔ ایف اے ٹی ایف نے اُن مقدمات کے دستاویزات کی کاپیاں بھی مانگی ہیں جو کالعدم تنظیموں اور اُن سے وابسطہ افراد پر قائم کیے گئے ہیں۔

اکتوبر 2019 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اگر فروری 2020 تک مطلوبہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے صدر ژیانگ من لیو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان فروری 2020 تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔ اس کے بعد جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان نے کیا عملی اقدامات کیے ہیں۔

اگر ایف اے ٹی ایف مطمئن ہو گیا تو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔

مندرجہ ذیل وہ شعبے ہیں جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔

ریاستی پالیسی اور تھانے دار

سکیورٹی امور کے متعدد ماہرین کے خیال میں ملک میں اعلی سطح پر بننے والی پالیسیوں پر عمل درآمد میں کسی بھی علاقے کے پولیس سٹیشن کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ لیکن نچلی سطح پر یعنی پولیس سٹیشن میں تعینات اہلکاروں کو کیا ایف اے ٹی ایف کی تجاویز اور ریاست کی پالیسیوں کی سمجھ ہے؟ کیا حکومت، مختلف اداروں اور محکموں کے اعلیٰ حکام کے دفاتر میں بننے والی پالیسیاں اور سوچ تھانے کی سطح تک پہنچ پاتی ہے؟

پنجاب پولیس کے سابق افسر اور انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے سابق چیف آف سٹاف اکبر ناصر سمجھتے ہیں کہ یہ بات تھانے دار تک نہیں پہنچتی کہ اُس کا کام کتنا ضروری ہے۔ تھانے کے افسر اور ضلع کے افسر کو جب تک یہ احساس نہیں ہوتا کہ پاکستان کے بین الاقوامی تشخص اور پاکستان کی اقتصادی خود مختاری اور اُن کے کام کے درمیان تعلق کیا ہے تب تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔

’جو کام پولیس کے کرنے کے ہیں وہ اُسے کرنے دیے جائیں اور ناکامی کی صورت میں اِن کا احتساب ہو۔ اِسی طرح ضلعی انتظامیہ کے کام اُن کو کرنے دیے جائیں۔ اگر ہم سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیں اور ایک ہی بندہ سب کچھ کرے گا تو کچھ نہیں ہو پائے گا کیونکہ کام اتنا بڑا ہے اور اتنا سپیشلائزڈ ہو چکا ہے کہ مینیجمنٹ کے ہمارے روایتی نظام کے تحت بہت مشکل ہو گا۔ ایک جگہ سے قیادت کے روایتی طریقہ کار جیسے ڈپٹی کمشنر یا ضلعی کمشنر کے ذریعے اہداف کا حصول۔ دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر کئی کام ایک ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں اور جہاں پر اشتراک کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سب اکھٹے بھی ہو جاتے ہیں۔‘

اکبر ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اندرونی لڑائی بہت ہے، ایک ٹیم بنانے کا فقدان ہے۔

’ہمارے لوگوں کا خیال ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا مطلب ہے ایک ٹیم بنا کر بیرونِ ملک جانا اور ایک اجلاس میں شرکت کرنا اور بس۔ عام لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں آنے کے بعد ترسیلِ زر میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور عام لوگوں کی معاشی زندگی اور ملک کی معیشت پر کیا فرق پڑے گا۔ بطور ایک قوم اِس صورتحال کا احساس بہت کم ہے۔‘

اکبر ناصر جو آج کل لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ جب تک ہر کوئی اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالے گا پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے یا بلیک لسٹ کے درمیان لٹکتا رہے گا۔ دوسرے ملکوں نے یہ کام کیا ہے مثلاً فلپائن، سری لنکا، ایتھوپیا وغیرہ۔ پاکستان کو چاہیے کہ اُن سے سیکھ لے کہ انھوں نے یہ کام کیسے کیا۔

مقدمات میں سزاؤں کی کم شرح

ایف اے ٹی ایف کو شکایت ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی مالی معاونت کے مقدمات بنتے ہی کم ہیں اور جو بنتے بھی ہیں اُن میں سزائیں بہت کم ہوتی ہیں۔

قانونی اور تفتیشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اگر استغاثہ کو تربیت دی جائے تو کئی ایسے کیسز ہیں جن میں فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔ اِن میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے کیسز ہیں، کرپشن اور منشیات کے کیسز ہیں۔ ماہرِ قانون احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ اِن مقدمات میں انسدادِ منی لانڈرنگ کے اضافی چارجز بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔

’یہ طے ہے کہ دہشتگری ہو ہی نہیں سکتی جب تک کے اُس کی مالی مدد نہ کی گئی ہو یا کسی نے اُس پر کچھ رقم نہ لگائی ہو۔ چاہے وہ مقامی لوگ ہوں، ملک سے باہر کے ہوں یا بین الصوبائی سطح پر کوئی گروہ کام کر رہا ہو۔ اب اِس کو ڈھونڈنا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ بعض مرتبہ تو وہ پراپرٹی مل بھی جاتی ہے لیکن اِس کی بابت چارج کو مختلف مد میں فریم کر دیا جاتا ہے جیسے چوری شدہ مال یا مالِ مسروقہ۔ درحقیقت وہ مال جو دستیاب ہوتا ہے جسے مالِ مقدمہ کہتے ہیں یہ وہ مال ہے جس پر آپ ایک ہی وقت میں دہشتگردی کے چارج بھی لگا سکتے ہیں۔‘

احمر بلال صوفی نے کہا کہ اگر آپ واقعی مختلف چالان اور کیسز دیکھیں تو پاکستان کی پولیس اور ادارے کافی کچھ کر رہے ہیں لیکن وہ بعض اوقات اپنا کیس عدالت کے سامنے صحیح طرح پیش نہیں کر پاتے۔

احمر بلال صوفی اِس سلسلے میں تربیت پر زور دیتے ہیں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو چار مہینے کا جو وقت دیا گیا ہے اِس میں پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اہلکاروں کو تربیت دے، اُن کی صلاحیت میں اضافہ کرے اور آگاہی بڑھانے پر توجہ دے۔ ایسا ہو بھی رہا ہے اور مزید کام کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بھی پاکستانی حکام کو تربیت اور تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے ڈرگز اینڈ کرائمز آفس (یو این او ڈی سی) جیسے ادارے کے ذریعے بھی تربیت کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کو اپنے اساتذہ، ٹرینرز اور تفتیش کار مہیا کر رہا ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس میں کچھ مشکل یہ ہے کہ یہ غیر ملکی اہلکار جن ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہاں استغاثہ تک جانے اور تحقیقات کرنے کے سٹائل مختلف ہیں۔ اِس کے باوجود پاکستان میں کئی ادارے متحرک ہو چکے ہیں حکومت نے اِن کی حوصلہ افزائی کی ہے تا کہ وہ استغاثہ اور ججوں کو بھی تربیت دیں۔ ججوں کے پاس بھی یہ صوابدیدی اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے تفتیش کاروں سے دوبارہ کہیں کہ وہ مزید تحقیقات کر کے ایڈیشنل چالان پیش کریں۔

بین الصوبائی تعاون کا فقدان

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جن معاملات پر اعتراض کیے گئے ہیں اُن میں بین الصوبائی تعاون بھی شامل ہے۔

سکیورٹی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ جب پورے پاکستان کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے خاص طور پر ایف اے ٹی ایف میں مختلف شعبوں کی مختلف ترجیحات کے تحت جب صوبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔

اکبر ناصر کہتے ہیں کہ صرف ایف اے ٹی ایف ہی کو نہیں پاکستانی حکام کو خود بھی اِس کا اندازہ ہے کہ مختلف صوبوں کی صلاحیت اور ترجیحات میں فرق ہے۔ مثلاً پنجاب کا انسدادِ دہشت گردی کا ادارہ بہت مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کے کام کی تعداد اور معیار باقی صوبوں سے کافی بہتر ہے۔

صوبوں کے درمیان تعاون کی کمی کا تاثر اِس لیے ابھرتا ہے کہ باقی صوبوں میں انسدادِ دہشتگردی کے سلسلے میں جو کام ہو رہا ہے اُس کی تعداد اور معیار کم ہے۔ اِس وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید صوبے آپس میں تعاون نہیں کر رہے۔ اکبر ناصر کے مطابق عملی طور پر ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی تفتیش کے ڈانڈے کسی دوسرے صوبے میں ملتے ہوں اور دو صوبے آپس میں تعاون نہ کریں۔

اکبر ناصر کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کے پولیس افسران کی کارکردگی بہتر رہی ہے اور وہاں پر گذشتہ کئی برسوں کے دوران ان ہی افسران کی وجہ سے اِن شعبوں پر توجہ دی گئی اور سرمایہ کاری ہوئی۔ اب جبکہ ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے دنیا پاکستان کی کارکردگی اور صلاحیت کی طرف دیکھ رہی ہے تو پنجاب دوسرے صوبے کی بانسبت آگے نظر آ رہا ہے کیونکہ وہاں پہلے سے انفراسٹرکچر، صلاحیت اور ساز و سامان پر توجہ دی گئی ہے۔

’نچلی سطح پر مؤثر کام کے لیے ہمیں اپنے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں جب کالعدم تنظیموں کو چندہ اکھٹا کرنے اور اپنا مواد چھاپنے سے روکنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کی سطح پر کام ہوتا تھا کیونکہ یہ مسئلہ بہت محدود حد تک پھیلا ہوا تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے اور اب پنجاب پولیس کو آرڈر 2002 کے تحت ایک علیحدہ محکمے کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ علیحدہ محکمے کے طور پر بھی کئی کاموں کی ضرورت ہے جیسے سیف سٹی ہے یا ادارہ انسدادِ دہشت گردی یا انٹیلیجنس ہے، یہ وہ بنیادی کام ہیں جو بڑی حد تک مہارت کے کام ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جو دفتری امور سے نہیں نمٹائے جا سکتے۔

یہ سب کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟

‘تعاون سے مراد یہ ہے کہ دوسرے صوبے کی پولیس، اُس کے متعلقہ افسران، اُس کے بینک افسران اور اُن کے کوئی اور تفتیش کار آپس میں معلومات کے تبادلے کو بہتر کر لیں، ایس او پیز بنا لیں اور گائیڈ لائنز طے کر لیں’

اکبر ناصر کے خیال میں رکاوٹ یہ ہے کہ کسی ایک ایجنسی کو، کسی ایک ادارے کو ذمہ دار بنایا جائے جو یہ کام خود کرتا ہو، جس کا کام صرف نگرانی نہ ہو۔ مثلاً پنجاب پولیس کو کہا جائے کہ ایف اے ٹی ایف کے جو اہداف آپ سے متعلق ہیں وہ آپ ہی نے پورے کرنے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اِس کام کے لیے اگر پنجاب پولیس کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے، اُن کو ایک محدود وقت کے لیے کوئی مینڈیٹ دینے کی ضرورت ہے تو دیا جائے اور اگر اُن کو ایسے افسران اور مہارت کی ضرورت ہے جو ملک میں نہیں ہے تو وہ باہر سے بھی لے سکیں اور اپنی ایسی استعداد بنا سکیں کہ جس کے ذریعے وہ اپنے اہداف پورے کر سکیں۔

’اگر ایک کام چار ایجنسیوں کو دیا جائے گا تو پھر تعاون کے مسائل سامنے آئیں گے۔ اِس لیے یہ بالکل واضح ہونا چاہیے کہ کن اہداف میں کس محکمے کا صفِ اول کا کردار ہے۔ تو پھر جب ٹارگٹ پورا ہو گا تو جس نے پورا کیا ہے اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘

نیکٹا کے ایک اور سینیئر اہلکار اختر لالیکا کا کہنا ہے کہ قانون پر عمل درآمد قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے اور اِس سلسلے میں صوبوں کے درمیان عموماً تعاون ہوتا ہے۔ لیکن بعض مرتبہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بلوچستان کا کچھ علاقہ قبائلی ہے یا خیبر پختونخوا کے بعض علاقے ہیں جہاں قوانین پر عمل کرنے میں مسئلہ ہو جاتا ہے۔ نئے قوانین جب بنتے ہیں تو ان پر عملدرآمد کے لیے نئے ایس او پیز کی حد تک کچھ چیزیں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

’اگر کوئی شخص رقم کے ذریعے دہشتگردی کی مدد کر رہا ہے اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں چلا جاتا ہے اور پنجاب کی سی ٹی ڈی کو وہ مطلوب تو وہ دوسرے صوبے کی سی ٹی ڈی کے ساتھ کوآرڈینشن شروع ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بعض مرتبہ مختلف ایجنسیوں کے درمیان کریڈٹ لینے کے معاملے پر ایک طرح کا مقابلہ سا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے تحقیقات میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اِس صورتحال کے لیے واقعی ایک ایس او پی اور ایک طریقہ کار کی ضرورت ہے۔

’اِس سلسلے میں میری تجویز یہ تھی کہ مثال کے طور پر ایک معاملہ میرے علم میں آ جاتا ہے، میرا ذریعہ مجھے بتا دیتا ہے اور میں اُس پر کام کر رہا ہوں تو میری پوری کوشش ہو گی کہ میں اِس کیس کو مکمل کروں اور اُس کا کریڈٹ لوں۔ اب کچھ چیزیں آپ اکیلے نہیں کر سکتے آپ کو دوسری کسی ایجنسی کی مدد درکار ہوتی ہے، دوسری ایجنسیاں بھی آپ ہی کے ٹارگٹ پر کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک اِس طرح کی کوآرڈینشن بننی چاہیے جس میں پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کسی سطح پر ایک مرکز بن جائے۔‘

اختر لالیکا نے کہا کہ اگر ایک کیس میں میں نے اپنا کام دس فیصد کیا ہے، دوسرے لوگوں نے اس کا بیس فیصد کیا ہے اور تیسرے بندے نے اُس کا تیس فیصد کام کیا ہے۔ جب یہ کیس مکمل ہو تو جس نے جتنا کام کیا اُس کو اتنا کریڈٹ ملنا چاہیے۔

’اب اس وقت ہو کیا رہا ہے کہ لوگ معلومات اپنے تک رکھتے ہیں، چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے اور کئی چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اِس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو معلومات کا تبادلہ رک جاتا ہے۔ اِسی تعاون کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اختر لالیکا کے مطابق پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت کام کرتی ہیں لیکن ایک وقت میں ایک ٹارگٹ کے پیچھے تین تین ادارے لگے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو نہیں بتا رہے ہوتے۔

’اچھے نتائج کے لیے اِس تعاون کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی پروفیشنل آدمی جانتا ہے کہ اِس سے بہت اچھے نتائج آئیں گے۔‘

اِن دنوں بعض حلقوں کی جانب سے اٹھارویں ترمیم کے کچھ پہلوؤں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کئی شعبے صوبوں کے پاس چلے جانے سے اتنے مؤثر نہیں رہے جتنے پہلے تھے۔ ان میں قومی سلامتی کا شعبہ بھی شامل ہے۔

اختر لالیکا کے مطابق اٹھارویں ترمیم سے بین الصوبائی تعاون متاثر نہیں ہوا ہے۔

’مرکز کے پاس بہت طاقت اور اختیار ہوتا ہے۔ اگر وہ کرنا چاہے تو ہر کام ہوتا ہے۔ پاکستان میں کون سا کام ہے جو مرکز نہیں کر رہا۔ نیب سندھ اسمبلی کے سپیکر کو اٹھا کر لے گیا تو صوبے نے کیا کر لیا۔ جبکہ نیب ایک وفاقی قانون ہے۔ تو بات صرف عزم کی ہے۔‘

ماہرِ قانون احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے بین الصوبائی تعاون اور بین الاقوامی تعاون پر پاکستان کو مزید پیش رفت کرنی پڑے گی اور پاکستان یہ کر سکتا ہے۔

’ہوتا یوں ہے کہ جو بھی دہشتگردی کی مالی مدد کرتا ہے ایسے کسی شخص یا گروہ کا تعلق ایک سے زیادہ صوبوں سے ہو سکتا ہے۔ تو سب سے پہلے تو ضرورت یہ ہوتی ہے کہ صوبوں کی پولیس اور اُن کے افسران کا آپس میں تعاون ہو۔ اگر سی ٹی ڈی کسی کیس پر کام کر رہی ہے یا کوئی اور محکمہ اِس کام پر نامزد ہے تو دوسرے صوبے میں اِن سے متعلق محکموں کے ساتھ تعاون بہتر ہونا چاہیے۔‘

عموعاً ایسا ہوتا ہے کہ جس تھانے میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے وہی پراسیکیوٹنگ ایجنسی دوسرے صوبے کی حدود میں اِس کیس کی تحقیقات کرتی ہے۔

’تعاون سے مراد یہ ہے کہ دوسرے صوبے کی پولیس، اُس کے متعلقہ افسران، اُس کے بینک افسران اور اُن کے کوئی اور تفتیش کار آپس میں معلومات کے تبادلے کو بہتر کر لیں، ایس او پیز بنا لیں اور گائیڈ لائنز طے کر لیں۔‘

حوالہ اور ہُنڈی

نیکٹا کے حکام کے مطابق مالیاتی اداروں کی حد تک تو دہشت گردوں کو ملنے والی رقوم کو روکنے میں کسی حد تک کامیابی ملی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں مشکلات درپیش ہیں جو دوسرے ممالک میں لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔

ایسے افراد وہاں سے پاکستان میں موجود اپنی ہم خیال شدت پسند تنظیموں کو ہُنڈی اور سمگلنگ کے ذریعے پیسے بھجواتے ہیں۔ حکام کے مطابق متعدد کالعدم تنظیموں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر سے بچنے کے لیے ایک نیا طریقہ نکالا ہے۔ عام طور پر یہ رقوم ایسے اشخاص کے ذریعے بھیجی اور منگوائی جاتی ہیں جن کا بظاہر شدت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ماہرِ قانون احمر بال صوفی کا اِس بارے میں کہنا ہے کہ اگر آپ کسی کمرے میں ہوا کی آمد و رفت بند کرنا چاہتے ہیں تو دونوں کھڑکیوں کو بند کرنا پڑتا ہے۔

’اگر پاکستان سے حوالہ کے ذریعے رقم دوسرے ملک جا رہی ہے تو اُس دوسرے ملک کے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون بھی ضروری ہے۔ جہاں رقم پہنچ رہی ہے یا جہاں سے رقم پاکستان آ رہی ہے اور دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو دونوں ممالک کی ایجنسیز نے آپس میں تعاون کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جب دونوں کی اکھٹی حکمتِ عملی ہو گی، خفیہ معلومات کا تبادلہ ہو گا اور ہر طرح کا تعاون بہتر ہو گا تو یہ معلوم کرنا آسان ہو جائے گا کہ یہ رقم جو حوالہ میں استعمال ہو رہی ہے کسی جرم کے ساتھ منسلک ہے۔ اِس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر ایک مربوط نظام کی تشکیل ایک بڑا چیلنچ ہے۔

’رقم منتقل کرنے کا یہ جو غیر رسمی چینل ہے یعنی حوالہ اِس کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے کہ آیا یہ منی لانڈرنگ ہے یا نہیں۔ منی لانڈرنگ کی جو تعریف ہے وہ تقریباً چالیس مختلف جرائم سے منسلک ہے۔ بہرحال اصولی مؤقف تو یہی ہے کہ حوالہ کو بند ہونا چاہیے۔‘

پاکستان نے حال ہی میں فارن ایکسچینج ریگولیشنز میں ترمیم کا بل منظور کیا ہے۔ اس بل کو منظور کرنے کا مقصد غیر ملکی زرِمبادلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھ کر منی لانڈرنگ پر سخت سزائیں تجویز کرنا ہے۔

تاہم ماہرین کے مطابق مختلف تنظیموں کو خیرات کے نام پر بیرون ممالک سے آنے والی امداد کو روکنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔

اختر لالیکا کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لیے بھیجی جانے والی رقوم کو روکنے کے سلسلے میں زیادہ تربیت کی ضرورت بہرحال ہے۔ ایسے جرائم کو روکنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ یہ رقوم کئی ذرائع سے ہوتی ہوئی اپنی منزل تک پہنچتی ہیں۔ ایسے کیسوں میں آپ سرے سے سرا پکڑتے ہیں اور آخری سرے سے پہلے سرے تک پہچتے ہیں۔

سٹیٹ بینک کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ

’بعض اوقات سٹیٹ بینک کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ ہر مشتبہ لین دین کو غیر ضروری طور پر تفتیش کے لیے بھیجنے کی کوشش کرتا ہے جو مسائل کا باعث بنتا ہے‘

احمر بلال صوفی کے مطابق یہ یونٹ بعض مرتبہ ہر مشتبہ لین دین یا مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ (ایس ٹی آر) کو غیر ضروری طور پر تفتیش کے لیے بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ ہر ایس ٹی آر کا تعلق دہشتگردی سے نہیں ہوتا۔

’اِس میں نقصان یہ ہے کہ جو اصل میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار ہیں یا وہ لوگ جنھوں نے اپنا پیسہ بینکوں میں رکھا ہوا ہے جب وہ کوئی لین دین کرتے ہیں تو انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اِس سے ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اکثر جب لوگ اپنے منافع کو ملک سے باہر بھیجتے ہیں تو ایسی لین دین بھی ایس ٹی آر کے دائرے میں آ جاتی ہیں اور جب رقوم زیادہ ہوتی ہیں یا لمیٹڈ کمپنی ہو اور جو ہولڈنگ کمپنی ہو اور وہ ملک سے باہر ہو تو بادی النظر میں یہ مشتبہ لگتا ہے۔

ان کے مطابق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد یا لاہور میں جو کمپنی رجسٹرڈ ہے وہ اِس کا مقامی آفس تھا۔ جب تک یہ چیزیں طے ہوتی ہیں سرمایہ کاروں میں فرسٹریشن بہت بڑھ جاتی ہے۔ اِس طرح کئی مرتبہ عام کاروباری لوگ جن کا کسی جرم سے کوئی تعلق نہیں انھیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرین کے مطابق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے تحت فنانشل انٹیلیجنس کا نظام بنایا گیا ہے اور یہ کافی متحرک ہے۔ یہاں بھی اگلے چار مہینوں میں تربیت پر مزید توجہ کی ضرورت ہے تا کہ یہ لوگ بڑے جرائم کی مدد کے لیے کیے جانے والے چھوٹے جرائم اور بینکوں کے ذریعے مشتبہ لین دین کا تعلق ثابت کر سکیں۔

مالیاتی جرائم کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں کسی مشتبہ بینک ٹرانزیکشن کو جانچنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام قومی بینکوں کے کمپلائنس ڈائریکٹوریٹ کافی بہتر ہوئے ہیں۔ انھیں کسی پر کوئی شبہ ہو تو اپنے ماہرین سے مشورہ کرتے ہیں کہ اِس شخص کا نام اقوامِ متحدہ یا کسی اور غیرملکی فہرست میں تو نہیں ہے۔ یہ ساری مثبت پیش رفت ہے۔

احمر بلال صوفی کا کہنا ہے ’اِس میں کمپلائنس کے جو مرحلے ہیں اور عدالتوں کا جو کام ہے، تفتیش کاروں اور استغاثہ کا جو کام ہے وہ اِن چار مہینوں میں بہت اہم ہے اور اگر یہ عدالتوں میں مزید چلان جمع کروا پاتے ہیں تو اگلے سال فروری میں جب ایف اے ٹی ایف پاکستان کا جائزہ لے گا تو پاکستان کی پوزیشن کافی بہتر ہو گی۔‘

تاثر کی جنگ

’ممبئی کیس میں ذکی الرحمن لکھوی اور دوسرے ملزمان کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں انھیں قانون کی زبان میں دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے‘

احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ پاکستان پرسیپشن (گمان) یا تاثر کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔

’جب آپ کوئی مقدمہ لڑتے ہیں تو اصل میں آپ جج کے پرسیپشن یا اُس کے ذہن میں جو تاثر ہو تا ہے اُس کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔‘

احمر بلال صوفی نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد انڈیا نے کامیابی سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر عام کیا کہ یہ ملک دہشتگردی کی پرورش کرتا ہے۔ پاکستان نے مخصوص اقدامات کر کے اس تاثر کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ اب تک پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں اُن سے کچھ حد تک تاثر بہتر ہوا ہے لیکن پاکستان کے بارے میں تاثر کا ایک پس منظر ہے جس کے تحت پاکستان سے بہت زیادہ سوالات اور توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔

’ممبئی کیس میں ذکی الرحمن لکھوی اور دوسرے ملزمان کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں انھیں قانون کی زبان میں دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان کے بارے میں تاثر بہتر ہو گا۔ پاکستان دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے جو قانونی اقدامات کر رہا ہے انھیں قانونی اصطلاحات اور زبان میں سمجھانا زیادہ ضروری ہے۔‘

احمر بلال صوفی کے مطابق پاکستان کو اِس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ پاکستان کی حکومت، اداروں، سیاسی جماعتوں سب کا یہ مؤقف ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

’سیاسی سطح پر یہ بات سمجھ آ چکی ہے اور یہ بہت اہم ہے اور پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ لیکن مسئلہ اِسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ہے۔ اِن سارے اقدامت اور کوششوں کے باوجود پاکستان کو ایسے پیش کیا جا رہا کہ اُس نے ابھی بھی کافی کام نہیں کیا ہے۔ لہذا پاکستان کو اپنی کامیابیاں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔‘

لیکن اختر لالیکا کہ مطابق پاکستانی اداروں میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ کسی حد تک سیاسی عزم کا ہو سکتا ہے۔

’ہم صلاحیت میں دنیا کے کسی بھی ادارے سے کم نہیں ہیں۔ ہم نے دنیا کی کئی فورسز کے ساتھ کام کیا ہے جن میں امریکہ کی ایف بی آئی اور چین کی ایجنسیاں شامل ہیں۔ ہم میں چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ باقی دنیا کی ایجنسیاں مشینوں کے ذریعے کام کرتی ہیں، آپ اگر ان کو مشینوں سے دور کر دیں تو وہ کسی کام کے نہیں۔ لیکن ہم لوگ مشینوں کے علاوہ اپنے تجربے کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ ہم نے کئی ایسے کیس کامیابی سے مکمل کیے جن میں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔‘

’اگر پچھلے آٹھ دس برسوں میں دیکھیں تو کون سا ایسا کیس ہے جو ہم نے حل نہیں کیا اور جو حل نہیں ہوا اس کی وجہ سیاسی عزم ہو سکتا ہے۔ تو میرے خیال میں صلاحیت ہے لیکن کہیں کہیں سیاسی عزم کی کمی ہو سکتی ہے۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو خود بھی اندازہ ہے کہ پاکستان کو جو چار مہینے دیے گئے ہیں وہ بہت کم وقت ہے۔

یہ کسی بھی ملک کے لیے مشکل ٹارگٹ ہے لیکن وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اِس عرصے میں کیا عملی اقدامات کرتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان میں قانون سازی پر تو اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مسئلہ قوانین پر عملدرآمد کا ہے اور اِس میں پاکستان کا سکور زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اِسی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔

Exit mobile version