روایتی اور سوشل میڈیا باہم مل کر جو ہیجان پھیلارہے ہیں اس کی بدولت ہماری توجہ محض چند چسکہ بھرے واقعات تک محدود رہتی ہے۔عمران خان صاحب کا لانگ مارچ کہاں تک پہنچا۔اس میں کتنے لوگ شریک ہیں۔یہ اسلا م آباد کب پہنچے گا۔ چند سوالات ہیں جو نام نہاد نیوز سائیکل پر چھائے ہوئے ہیں۔ان سوالات کی بنیاد پر اٹھائے شوروغوغا کی بدولت ہم اس امر پر غور ہی نہیں کر پائے کہ غریب ترین پاکستانی کو روزمرہّ زندگی سے نبردآزما ہونے کے لئے جن 51اشیاءکو ہر صورت خریدنا ہوتا ہے ان کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ ہورہا ہے۔قابو میں نہ آتے افراط زر کے مقابلے میں میرے اور آپ جیسے افراد کی آمدنی میں اضافے کی امید بھی نمودار نہیں ہورہی۔ عام آدمی اس کا سبب واجب بنیادوں پر حکومت میں بیٹھے افرادکی ”خودغرض“ پالیسیوں کو ٹھہراتا ہے۔ ان دنوں شہباز حکومت اقتدار میں ہے۔ عوام میں اُبلتے غضب کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔مذکورہ غضب کا عمران خان صاحب بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔اس سے نجات پانے اسلام آبادمیں یلغار کی صورت داخل ہونا چاہ رہے ہیں۔اس بحث میں نہیں اُلجھتے کہ ان کی تحریک ”جائز“ ہے یا نہیں۔فی الوقت یہ فرض کرلیتے ہیں کہ بالآخر وہ اپنے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس کے بعد کیا ہوگا؟۔
ہمارے تحریری آئین کو حقیقی معنوں میں لاگو ہوا تسلیم کرلیں تو وزیر اعظم شہباز شریف ہی کو نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے۔ اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر انہوں نے سیاسی حوالوں سے کچھ ”کمایا“نہیں اپنی جماعت کی ساکھ کو شدید تر نقصان پہنچایا ہے۔1985ءسے ہمارے عوام کی کماحقہ تعداد اس گماں میں مبتلا رہی کہ مسلم لیگ (نون) جب بھی برسراقتدار آئی اس میں شامل کاروباری لوگوں کی ”جبلی ذہانت“ معیشت کے میدان میں رونق لگاتی رہی۔ کئی دہائیوں سے قائم یہ تاثر مگر اب تیزی سے ہوا میں تحلیل ہورہا ہے۔ایسے حالات میں فوری انتخاب ہوئے تو مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر کھڑے کئی امیدوار اپنے ”گڑھ“ تصور ہوتے ہوئے پنجاب کے کئی حلقوں میں بھی بھرپور انتخابی مہم چلانہیں پائیں گے۔ انتخابی نتائج آنے سے قبل ہی ”ہارا ہوا لشکر“ نظر آئیں گے۔جو منظر میں بیان کررہا ہوں کہ اس کے عواقب کا مجھ سے کہیں زیادہ شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو علم ہوگا۔”رضا کارانہ“ طورپر لہٰذا وہ عمران خان صاحب کے روبرو ”ڈھیر“ ہوکر فوری انتخاب کی تاریخ دینے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔ وہ ”ڈٹے رہنے“ ہی کو ترجیح دیں گے۔ان کا ڈٹے رہنا عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مزید اشتعال دلائے گا۔سیاسی فریقین جب اپنے اپنے مو¿قف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوں تو معاملات ”شوڈاﺅن“ کی جانب بڑھتے ہیں۔ایسے حالات میں ”غیر سیاسی قوتیں“ مداخلت کو مجبور ہوجاتی ہیں۔ان کی مداخلت کو مگر ہر فریق ”غیر جانب دار“ تسلیم نہیں کرتا۔اسے مخالف کی حمایت میں جھکا ہوا ہی محسوس کرتا ہے۔
بہرحال” غیر سیاسی“ مداخلت ہو بھی گئی تو فوری انتخاب کروانے کے لئے نگہبان حکومت کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔ وہ زیادہ سے زیادہ نوے دنوں تک قائم رہ سکتی ہے۔”عبوری حکومت“ کے احکامات اسی باعث سنجیدگی سے نہیں لئے جاتے۔ وہ روزافزوں بڑھتی مہنگائی کے خلاف ٹھوس اور دیرپا اقدامات لے نہیں سکتی۔یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھیں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں موجود ”منتخب حکومتوں“ کے ہوتے ہوئے شہباز حکومت گیارہ سیاسی جماعتوں کی حمایت کے باوجود اسلام آباد کے 24کلومیٹر والے دائرے تک محدود ہوچکی ہے۔”عبوری حکومت“ صوبائی حکومتوں کو مزید تگڑا بنائے گی۔ان کے ہوتے ہوئے ”صاف شفاف“ انتخاب کی توقع رکھنا خام خیالی ہوگی۔
پاکستان کے وسائل محدود ہیں۔ہماری ریاست نے ”خسارے کے بجٹ“ بناتے ہوئے اسے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کی لت میں مبتلا کردیا۔غیر ملکی قرضوں کے علاوہ ”امداد“ نام کی بھی ایک شے ہوا کرتی تھی۔وہ مگر ہمیں 1950ءکی دہائی سے فقط اسی وقت میسر ہوئی جب پاکستان نے سردجنگ کے دنوں میں سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی کیمپ کا ساتھ دیا۔1980ءکی دہائی سے ”افغان جہاد“ اور بعدازاں اسی ملک میں ”دہشت گردی“ کے خلاف جنگ کا سیزن بھی لگ گیا۔ نام نہاد عالمی برادری مگر اب افغانستان سے ہاتھ دھوبیٹھی ہے۔
”امداد“ کے حوالے سے مذکورہ برادری کی لاتعلقی کا عالم اب یہ ہوچکا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان میں 96لاکھ بچوں کی دل دہلادینے والی تعداد پاکستان نہیں اقوام متحدہ دنیا کے روبرو لائی ہے۔ ان بچوں کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ ہی نے ”مدد“ کی فریاد کی۔ اس کی مچائی دہائی کے باوجود مطلوبہ رقم کا صرف 15فی صد میسر ہوپایا ہے۔ہمارے دل مگر اس کی بابت ہرگز دہل نہیں رہے۔ ”پہلوانوں کے شہر“ میں عمران خان صاحب کی جانب سے اٹھائے ”گرز“سے جی بہلارہے ہیں۔
عمران خان صاحب ”پہلوانوں کے شہر“ پہنچے تو روس کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ایک خبر جاری کردی۔پوٹن کے روس میں سرکار کے چلائے اخبارات اور نیوزایجنسیاں ہی ”نجی شعبے“ کا چلایا میڈیا بھی کوئی خبر شائع یا نشر کرنے سے قبل اسے سوچھلنیوں سے گزارتا ہے۔بہرحال جو خبر شائع ہوئی اس کے مطابق روس کے ایک سینیٹر نے الزام لگایا کہ یوکرین اپنے ملک میں درآئی پوٹن کی افواج کو شکست دینے کے لئے ”ڈرٹی بم“ استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ اصطلاح عموماََ ”سمارٹ بم“ کے لئے استعمال ہوتی ہے جو ”ایٹم بم“ کی ایک شکل ہے۔باور کیا جاتا ہے کہ اس کے چلانے سے تباہی محض ایک مخصوص علاقے تک محدود رہ سکتی ہے۔وہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسی تباہی نہیں پھیلاتا۔ ہوسکتا ہے کہ یوکرین روس کو شکست دینے کے لئے یہ بم استعمال کرنا چاہ رہا ہو۔روسی صدر بھی تاہم اپنی تقاریر میں اس کے خلاف ایسا بم چلانے کے امکانات کو رد نہیں کررہے۔ اس تناظر میں اٹھا قضیہ روس اور یوکرین کے مابین ہی محدود رہتا تو میں ہرگز فکر مند نہ ہوتا۔ روسی سینیٹر نے مگر انتہائی ڈھٹائی سے الزام لگایا ہے کہ یوکرین ایسے بم کے حصول کے لئے پاکستان سے رجوع کررہا ہے۔ہماری وزارت خارجہ نے اس الزام کی سرعت اور شدت سے تردید کی ہے۔پاکستان کو مگر ایک ایسے معاملے میں خواہ مخواہ رگیدلیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں مگر اس کے مضمرات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جارہا۔