منتخب تحریریں

بڑی مشکل میں ہوں

Share

میں ایک کالم نگار ہوں میری تنخواہ تو زیادہ نہیں تعلقات بہت زیادہ ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح پولیس کے محکمے میں تنخواہ کم ہے اور اختیارات زیادہ ہوتے ہیں مگر ان دِنوں بطور کالم نگار میں ایک بڑی الجھن کا شکار ہوں۔ دراصل میرا ڈومی سائل پنجاب کا ہے جہاں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت ہے جبکہ بہت سے کام مجھے مرکز سے بھی پڑتے ہیں جہاں پی ڈی ایم حکمراں ہے۔ اب میرے سامنے دو راستے کھلے ہیں جن میں سے مجھے ایک کا انتخاب کرنا ہے، پہلا راستہ یہ ہے کہ میں بیک وقت صوبائی حکومت اور مرکز کو خوش کرنے کی کوشش کروں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لوں اور ا س کا مکمل آلہ کار بن کر دوسرے کو تہس نہس کرکے رکھ دوں۔

پہلا راستہ اختیار کرنا اگرچہ بے حد مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہمارے صاحبان اقتدار بنیادی طور پر بہت معصوم لوگ ہیں مگر ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ نہ رکھا جائے تو چھوٹی موٹی تنقید کو وہ خوشدلی سے قبول کرلیتے ہیں بلکہ وہ اسے صحت مند تنقید کہتے ہیں۔ اسی طرح حکومت میں شامل کسی ایک فرد کی جی بھر کر تعریف کردی جائے تو وہ اپنی حکومت سے بالا بالا کالم نگار کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے بلکہ حکومت میں اس کی لابی بن جاتا ہے اور یوں ایک ہی وقت میں مرکز اور صوبے سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنا ممکن ہے، تاہم میرے نزدیک دوسری صورت زیادہ سود مند ہے یعنی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیا جائے اور اقتدار کی اس جنگ میں کالم کو نیام میں سے نکال کر کرپان کی طرح ہوا میں لہرایا جائے۔ ان دنوں کالم نگاروں کو اس ضمن میں ایک ایسی سہولت حاصل ہے جو ماضی میں حاصل نہیں تھی یعنی صوبائی حکومت بھی آئینی ہے اور مرکزی بھی۔اور یوں ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق بہرحال خوشامد یا مفاداتی سرگرمیوں کی ذیل میں نہیں آتا بلکہ اسے جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ان دِنوں متذکرہ دونوں صورتوں پر غور کررہا ہوں تاہم فی الحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا۔

آپ اگرسچ پوچھیں تو مجھے اِس قدر الجھن کا شکار ہونے کی وجہ خود بھی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ماضی میں ہر نئی حکومت کی آمد پر میرا لائحہ عمل پہلے سے تیار ہوتا تھا اور مجھے اُس پر عمل درآمد میں کبھی کسی ذہنی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مثلاً ایوب خان کے زمانے میں میرا تجزیہ یہ تھا کہ ٹھیک ہے، ملک میں آمریت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں لیکن اِس آمریت کی بھرپور سپورٹ وقت کا تقاضا ہے، اُس کے لئے میں نے ایوب خان کی متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کے تصور کو اپنے تھیسز کا مرکزی نقطہ بنایا کہ تیسری دنیا کے ممالک کو اِسی قسم کی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ایوب خان نے ملک بھر میں صنعتوں کا جو جال بچھایا، اُس کے حوالے سے میں نے ملکی معیشت کے استحکام کو بنیاد بنا کر ایوب خان کی حمایت میں متعدد کالم لکھے۔1965میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہوئی تو میں نے ایوب خان کے مجاہدانہ کردار کو بنیاد بنا کر اُنہیں فیلڈ مارشل اور تاحیات صدر بنانے کی تجویز پیش کی۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے عنانِ حکومت سنبھالی تو میں نے اُن کے فسطائی اقدامات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن کے اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر اُن کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنے دوستوں میں یہ تھیسز پیش کیا کہ رجعت پسندوں کے مقابلے میں بھٹو صاحب کو سپورٹ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اُن کے بعد ضیاء الحق آئے تو آمریت کا روڑا ایک دفعہ پھر درمیان میں تھا۔ اُس روڑے کو میں نے یہ کہہ کر درمیان سے ہٹایا کہ ضیاء الحق کھل کر اسلام کا نام لینے والا پہلا حکمراں ہے لہٰذا سرخوں اور لادینی قوتوں کو نیچا دکھانے کے لئے اُن کی بھرپور حمایت ضروری ہے۔ غرضیکہ ہر حکومت کے دور میں مجھے حکومت کی ہم نوائی کی سہولت بھی حاصل رہی اور میں نے اپنی نظریاتی پاک دامنی پر کبھی کوئی حرف بھی نہیں آنے دیا۔

میں نے اپنے ایک کالم نگار دوست سے اپنی متذکرہ الجھن بیان کی اور کہا یہ پہلا موقع ہے کہ نئی حکومت بلکہ حکومتوں کو وجود میں آئے نو ماہ گزر چکے ہیں مگر میں ابھی تک اپنا لائحہ عمل مرتب نہیں کر سکا ،جب کہ میرے دوستوں میں سے کوئی حکومت پنجاب کا وظیفہ خوار بن چکا ہے، کوئی مرکزی حکومت سے من کی مرادیں پوری کر رہا ہے اور کوئی ان دونوں کو بےوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے میں مشغول ہے۔ میں 1947میں قیامِ پاکستان کے وقت چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوٹ مار میں شریک نہ ہو سکا، جس کا مجھے اب تک افسوس ہے اوراب 2022میں اُس پیمانے کی لوٹ مار کا یہ دوسرا موقع ہے جو میں قوتِ فیصلہ میں کمی کی وجہ سے گنوا رہا ہوں۔ خدا کے لئے مجھے اِس قومی نقصان سے بچائو۔ مجھے علم نہیں تھا کہ میرا یہ دوست ذرا اور طرح کا کالم نگارہے۔ چنانچہ اُس نے مجھے کوئی کام کا مشورہ دینے کی بجائے کہا، ’’صرف کالم نگار ہی نہیں صحافت سے وابستہ تمام افراد قوم کی آنکھیں ہوتی ہیں اور آج کل یہ آنکھیں صرف مفاد تلاش کرنے میں مشغول ہیں، ہر کوئی لوٹ مار میں مشغول ہو گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ وہ اپنا ہی گھر لوٹ رہا ہے۔ چنانچہ اب لٹیروں کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں رہا، ہم سب لوگ اپنے دھڑے کے نوے فیصد جھوٹ سے صرفِ نظر کر کے اُس کے دس فیصد سچ کی حمایت میں مشغول ہیں۔ قیامت والے دن یہ سچ گرم کرکے ہماری پیشانیوں پر لگایا جائے گا اگر تمہارا خدا اور جزا پر ایمان ہے تو اپنی جھولیاں نیچے گرا دو کہ اِن جھولیوں میں تم سیم و زر نہیں دوزخ کی آگ اکٹھی کر رہے ہو‘‘۔میرے لئے دوست کی یہ تقریر بالکل غیرمتوقع تھی چنانچہ میں نے گھبرا کر اپنی پھیلی ہوئی جھولی نیچے گرا دی مگر دوسرے ہی لمحے میں نے غیرارادی طور پر اپنی دھوتی کا پلا اوپر اٹھایا اور اسے جھولی کی طرح پھیلا کر کھڑا ہو گیا یہ دیکھ کر ذرا اور طرح کے کالم نگار نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔