Site icon DUNYA PAKISTAN

آؤ صلح کریں

Share

کورونا کے دنوں کی بات ہے۔ ماسک پہننے پر شدید پابندی چل تھی۔ ایک دن گھر سے فون آیا کہ ملازم کے بھائی ارشادکو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ ارشاد سڑک کنارے پندرہ بیس تربوز سجا کر بیچ رہا تھا لیکن اس نے ماسک نہیں لگایا ہوا تھا لہٰذا پولیس اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ارشاد کی والدہ کا فون آیا۔ روتے ہوئے بولیں کہ میرے بیٹے کو موت سے بچا لیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیسی موت؟ گلوگیر آواز میں بولیں کہ تھانے والوں نے کہا ہے کہ چونکہ تمہارے بیٹے نے ماسک نہیں لگایا تھا لہٰذا شام تک اسے مقابلے میں پار کر دیا جائے گا۔ میں نے بمشکل ہنسی روکی اور تسلی دی کہ حوصلہ رکھیں وہ شام تک گھر آجائے گا۔ اور پھر یہی ہوا، شام کو ارشاد کپڑے جھاڑتا ہوا گھر پہنچ گیا۔تربوز البتہ اُس کے بحق سرکار ضبط ہوگئے۔

ایک روز گلی میں شور اٹھا، پتا چلا کہ گھر کے آگے گاڑی کھڑی کرنے پر دو گھروں میں لڑائی ہوگئی ہے۔ دونوں طرف کے فریقین نے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ مکے برسائے۔ گالم گلوچ ہوئی اور اسی اثناء میں ایک فریق نے ون فائیو پر کال کردی۔ پولیس آئی اور دونوں فریقین کو تھانے لے گئی۔ شام کو اِن گنہگار آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دونوں فریق گلے میں بانہیں ڈالے تھانے سے برآمد ہوئے اور تحریری یقین دہانی کرائی کہ آئندہ وہ ’اچھے بچے‘ بن کر رہیں گے۔

پولیس، تھانے، کچہری۔ بظاہر یہ انصاف کے ادارے ہیں لیکن انصاف کے حصول کے لئے یہاں کن کن مراحل سے گزرنا پڑتاہے، آپ سب جانتے ہیں۔ ہر انسان کبھی نہ کبھی آپے سے باہر ہوجاتاہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اس غلطی کا سب کو پچھتاوا ہوتا ہے، کچھ لوگ سوری بھی کرلیتے ہیں لیکن یہ سوری ایسی ہوتی ہے گویا ’’جائو تمہیں معاف کیا‘‘۔ سوری تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’’میں معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی، میں اپنی غلطی کو ٹھیک کروں گا۔‘‘ ہمارے ہاں عموماً سوری کہتے وقت دوسرے اور تیسرے پوائنٹ پر عمل کرنے کا رواج ہی نہیں، اسی لئے لڑائی دوبارہ ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ خونخوار ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی لڑائیاں، ہمسائیوں کی لڑائیاں، کرائے داروں کی لڑائیاں، بچوں کی لڑائیاں، لین دین کیلئےلڑائیاں، سڑک پر لڑائیاں، بہن بھائیوں کی لڑائیاں۔ ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی لڑائی چل رہی ہوتی ہے۔یہ وقتی غبار بعد میں اُتر جاتا ہے لیکن اَنا کی تسکین اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک لڑائی کو طول نہ دیا جائے۔ کورٹ کچہری میں آپ کو سینکڑوں لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے اپنا وقت اور پیسہ برباد کرکے بھی کچھ حاصل نہیں کیا۔ درحقیقت یہی لوگ عدالتوں پر بوجھ ہیں۔ جینوئن مقدمات ایسے ہی چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑوں کے کیسز کی وجہ سے التوا کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کے لئے برادرم قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے ایک محبت بھرا کام شروع کیا ہے۔ یہ ازدواجی تنازعات کے شکار لوگوں کو عدالتی معاملات میں الجھانے کی بجائے فریقین میں صلح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ یہ تمام کام بلامعاوضہ کیا جاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محترم انوار الحق صاحب نے قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ مل کر ’آئو صلح کریں‘ کے نام سے اس پروگرام کا آغاز کیا اور یہ کام اتنی خوبصورتی سے جاری ہے، جسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ انوارالحق صاحب جس طرح فریقین سے رابطہ کرتے ہیں اور انتہائی محبت سے انہیں بلوا کر صلح کرواتے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ آپ بھی بہت سے ایسے جوڑوں کو جانتے ہوں گے جو معمولی سی بات پر بگڑتے ہیں اور نوبت طلاق تک آن پہنچتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے جوڑوں میں محبت کی شادی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بعض کیسز میں تو ایسی شادی کی مدت ایک سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اب ہوتا کیا ہے، میاں بیوی میں لڑائی ہوتی ہے اور صلح کی خواہش رکھنے کے باوجود کوئی فریق نہیں چاہتا کہ وہ اس میں پہل کرے۔ ایک فریق بچے لے جاتا ہے، دوسرا فریق کیس کر دیتا ہے۔ عدالتوں کے چکر شروع ہوجاتے ہیں اور اس سارے چکر میں بچے پس کر رہ جاتے ہیں۔ وہ جوڑے جن کے گھروں میں تنگدستی کی وجہ سے نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچتی ہے وہ جب عدالت کا رُخ کرتے ہیں تو پتا نہیں ان کے پاس پیسہ کہاں سے آ جاتا ہے۔ جتنا پیسہ وہ اپنے کیسوں پر خرچ کرتے ہیں اتنا اپنی ازدواجی زندگی کو بچانے کے لئے لگادیتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جسٹس(ر) انوار الحق صاحب ’جوڑوں کے درد‘ کا علاج کرتے ہیں۔ یہ اُنہیں سمجھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کریں اور اپنے گھر اجڑنے سے بچائیں۔ جو جھگڑے گھر کی چاردیواری میں ہوتے ہیں اُنہیں اُسی کے اندر سلجھایا جاسکتا ہے۔ عموماً شوہر طیش میں ہوتو کہتا ہے’نکل جائو‘ اور بیوی کا دماغ گھوم جائے تو کہتی ہے’دو مجھے طلاق‘۔ یہ دونوں جملے صرف غصے کی شدت ظاہر کرنے کے لئے ہوتے ہیں لیکن جن گھروں میں اِنہیں حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے وہاں اِن پر فوراً عمل بھی ہو جاتا ہے اورکچھ دن بعد عدالتی نوٹس بھی موصول ہو جاتا ہے۔ طلاق کے اکثر معاملات کے پیچھے ’ماسک نہ پہننے‘ جیسی معمولی وجہ ہوتی ہے لیکن پریشانی یوں پال لی جاتی ہے گویا’پولیس مقابلہ‘ ہونے ہی والا ہے۔ اس مقابلے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صلح کریں، سوری کریں۔ لیکن یہ سوری ایسی نہ ہو کہ سوری کرنے کے بعد پھر سے خود کو بے قصور ثابت کیا جائے۔کام مشکل نہیں، تھوڑی سی ہمت اور سارے مسئلے حل۔ تو گزارش ہے کہ تین مرحلوں والی سوری کریں اور اپنا پیسہ اور وقت بچائیں۔

Exit mobile version