اس دن شمالی مقدونیہ (میسیڈونیا) کا یوم آزادی تھا۔ یہ بلقان کا ایسا ملک ہے جو یونان، البانیہ، بلغاریہ، سربیا اور کوسوو کے درمیان چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے۔
اس دن ملک میں جشن کا سماں تھا، ہر طرف جھنڈے لہرا رہے تھے، ترانے بجائے جا رہے تھے۔ لوگ 1991 میں یوگوسلاویہ سے آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا۔
یہ بالکل ایک اتفاق تھا کہ میرا دورہ اس دن ہوا۔ دراصل میری منزل ویوچانی تھی جو ایک غیر معروف لیکن دلکش گاؤں ہے۔ اس کی آزادی کی بھی ایک انوکھی تاریخ ہے۔
میں بس پر سوار ہوا اور تھوڑی ہی دیر بعد میں البانیہ کی سرحد کے ساتھ ساتھ پہاڑی راستے پر سفر کر رہا تھا۔ جب ہم ویوچانی گاؤں میں داخل ہوئے تو یہاں کسی قسم کے جشن کی کم ہی نشانیاں تھیں۔ شمالی مقدونیہ کا جھنڈا مقامی سرکاری انتظامیہ کی عمارت پر لہرا تو رہا تھا لیکن یہ تنہا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور جھنڈا تھا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
الیگزینڈرا ویلکوسکا ایک سابق ٹور گائیڈ ہیں جو اب ویوچانی میونسپیلٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ ریپبلک آف ویوچانی کا پرچم ہے۔ ’ہم آج جشن آزادی نہیں منا رہے۔ ویوچانی اپنی آزادی کا جشن منائے گا۔‘
2400 لوگوں کی آبادی پر مشتمل اس گاؤں نے گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران دو مختلف ممالک سے تین بار آزاد ہونے کی کوشش کی۔ انیس سو ستاسی میں پہلی بار یوگوسلاویہ سے علیحدگی، انیس سو اکیانوے میں شمالی مقدونیہ کی آزادی کے صرف گیارہ دن بعد ہی خود کو آزاد ریاست قرار دینے کا اعلان اور پھر دو ہزار دو میں مقامی افراد نے ایک مائیکو نیشن کے طور پر خود ہی قومی پرچم لہرا دیا اور اپنا پاسپورٹ اور کرنسی جاری کر دیے جس کا ایک مقصد سیاحوں کو راغب کرنا بھی تھا۔
ویوچانی کی آزاد پر مبنی روایت صدیوں پرانی ہے۔ اگرچہ یہ قریبی شہر سے صرف بیس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے تاہم یہاں کی پہاڑیوں کے دشوار گزار راستوں کی وجہ سے یہ گاؤں الگ تھلگ رہا اور اسی وجہ سے یہاں کے لوگ خودمختاری کے عادی ہو گئے۔
یہ گاؤں مختلف اوقات میں مقدونیہ، روم، باضنطین اور سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ اس کے بعد یہ سربیا کی بادشاہت کے تسلط میں آ گیا۔ کمیونسٹ یوگوسلاویہ کا حصہ رہنے کے بعد یہ شمالی مقدونیہ میں آ گیا۔ لیکن بس سٹاپ پر مجھے ملنے والی ویلکوسکا نے وضاحت کی کہ ویوچانی کو کبھی بھی فتح نہیں کیا جا سکا۔
ہم بہت روایتی لوگ ہیں۔ انھوں نے مجھے قریبی پہاڑی کی چوٹی سے آس پاس کے مناظر دکھاتے ہوئے بتایا کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہم نے اپنی ثقافت محفوظ رکھی اور اپنا مذہب بھی۔ ہمارے آس پاس کے سب دیہات مسلمانوں کے ہیں۔
چودہویں صدی سے انیس سو بارہ تک یہ پورا خطہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جس کا دارالحکومت استنبول تھا۔ شمالی مقدونیہ کی تینتیس فیصد آبادی مسلمان ہے۔ ان کی آبادی کا زیادہ تر حصہ شمال مغرب میں موجود ہے جو البانیہ اور کوسوو کی سرحد سے ملتا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ویوچانی مسلمان آبادی میں گھرا آرتھوڈوکس مسیحیوں کا ایک محصور علاقہ ہے۔
یہاں کی سینٹ نکولس چرچ اٹھارہ سو چوبیس میں بنی تھی اور اس چرچ کی دیواروں پر مختلف پینٹنگز ہیں۔ ویلکوسکا نے مجھے چرچ کے نگران لیمب شربنوسکی سے ملوایا جن کا کہنا تھا کہ ویوچانی کو دورِ عثمانیہ میں بھی مذہبی آزادی تھی۔ ویلکوسکا مجھے اس گاؤں لے گئیں اور بتایا کہ دورِ عثمانیہ کے قبضے میں ویوچانی کی ناموافقت نے ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد کمیونسٹ دور میں اس کی مزاحمت کو جنم دیا۔ اس دور میں چھ میں سے ایک علاقہ سوشلسٹ ریپبلک آف مقدونیہ کا حصہ بنا جبکہ باقی یوگوسلاویہ میں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کمیونسٹ دور میں حکومت نے ہماری روایات ختم کرنا چاہیں۔ وہ ہماری روایتی شادیاں یا بپتسمہ کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ تاہم ہماری مائیں اور دادئیاں خفیہ طور پر یہ روایات نبھاتی تھیں۔‘
مقامی افراد کی سلاوی بولی بھی خاص ہے جو ملک میں کہیں اور نہیں ہے۔ ہر جنوری کو گاؤں میں چودہ سو سال پرانی تقریب ہوتی ہے جس میں بلقان خطے سے ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں اور شرکا کی جانب سے مخصوص کپڑے اور ماسک پہنے جاتے ہیں۔
ویوچانی کے چشمے اس کی مخصوص مقامی روایات کا مرکز ہیں جہاں ویلکوسکا مجھے لے گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ثقافت اور تاریخ میں ان چشموں کی بہت اہمیت ہے۔‘ ہم ایک چھوٹے پُل اور دریا کے کنارے سے گزرے جو یہاں قدرتی چشمے کے پانی کا ذریعہ ہے۔
آبی ذرائع ایک تاریک غار میں چھپے ہوئے ہیں مگر اس کا داخلی راستہ سرسبز اور شاداب ہے جہاں سے چشمہ دریا کے کنارے سے ملتا ہے۔
’ہمارے تمام جشن اور روایات یہیں منائی جاتی ہیں۔ اسی لیے لوگ ناراض ہوئے جب یوگوسلاویہ کی حکومت نے ہمارا پانی چھیننے کی کوشش کی۔‘
مئی 1987 میں ویوچانی کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جب حکومت نے چشموں کے پانی کا رُخ موڑ کر ایک چھیل کے کنارے کمیونسٹ ایلیٹ کے لیے بنی نئی رہائشی عمارت تک لے جانے کی کوشش۔ اس کے جواب میں گاؤں والوں نے یہ گرمیاں رکاوٹیں بنانے میں گزار دیں، وہ احتجاج کرتے رہے اور ویوچانی کو آزاد ریاست بنانے کی دھمکیاں دینے لگے۔
اسے ویوچانی کی ایمرجنسی کہتے ہیں اور یہ تین ماہ تک جاری رہی۔ حکومت نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے مسلح پولیس بھیجی اور لاٹھی چارج کیے۔
اس کے باوجود حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا اور ویوچانی کی ایمرجنسی پہلے کامیاب واقعات میں سے ایک تھی جب یوگوسلاویہ کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت ظاہر کی گئی۔
ویوچانی کے کئی لوگ شاذ و نادر سکوپیہ اور بلغراد میں احتجاج کرتے رہے تاکہ لوگوں کو گرفتار اور زخمی کرنے پر حکام کا احتساب ہوسکے۔
مجھے اس برادری کی آزادی کی جدوجہد کے بارے میں مزید معلوم ہوا جب میں ایک ریستوران پر دوپہر کے کھانے کے لیے رکا۔ ریستوران کے مالک نے پوچھا ’کیا آپ کے پاس پاسپورٹ ہے؟‘ وہ میرے برطانوی پاسپورٹ کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے اور اس بات پر خوش تھے کہ میں نے ویوچانی کا سرخ پاسپورٹ خریدا ہے جس پر داخلے کی تاریخ درج ہے۔ میں سے اسے چشمے کے پاس ایک دکان سے خریدا تھا۔
ریستوران کے مالک بگوسکی نے بتایا کہ وہ سکوپیہ میں پولیس افسر کی تربیت حاصل کر رہے تھے جب ویوچانی کی ایمرجنسی ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس کے باوجود مظاہروں میں حصہ لیا اور ہمیشہ سے ویوچانی کی ریاست بننے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
انھوں نے دو ہزار کی دہائی میں پولیس سے ریٹائر ہو کر مقامی کھانوں کا ریستوران کھولا۔ ان مخصوص کھانوں کو مقامی شیف تیار کرتے ہیں اور سیاح یہاں آ کر بگوسکی سے اپنے ملک کی کہانیاں سنتے ہیں۔
بگوسکی نے بتایا کہ جب یوگوسلاویہ 1990 میں تقسیم ہونا شروع ہوا تو ’1991 میں ہر طرف سے آزادی کے لیے ریفرنڈم آ رہے تھے۔
’ویوچانی کے لوگوں نے بھی سوچا کہ وہ آزادی کا ریفرنڈم لینا چاہتے ہیں۔ ہم سیاسی طور پر متحرک تھے اور ویوچانی کی ایمرجنسی کے دوران جو ہوا اس پر ہم یوگوسلاویہ اور شمالی مقدونیہ سے آزادی چاہتے تھے۔‘
آٹھ ستمبر 1991 کو مقدونیہ نے یوگوسلاویہ سے آزادی حاصل کر لی اور سابقہ یوگوسلاو ریپبلک آف مقدونیہ قرار پایا۔ نئی حکومت سے ناخوش ہو کر 19 ستمبر کو گاؤں نے متفقہ طور پر خود کو آزاد ریاست قرار دیا جس میں صرف 2000 شہریوں میں سے 36 نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
مقدونیہ نے کبھی بھی ویوچانی کی آزادی کی پُرامن کوشش کو تسلیم نہیں کیا تاہم چونکہ حکومت آزاد ملک کے البانوی علاقوں میں مسلح علیحدہ پسندوں سے نمٹ رہی تھی اس لیے انھوں نے خودمختاری کے مطالبات مان لیے۔ سنہ 1994 میں اس نے ویوچانی کو ستروگا میونسپیلٹی سے علیحدہ کرنے کی اجازت دی اور ان کی اپنی آزاد میونسپیلٹی تشکیل دی جو آج بھی قائم ہے۔
بگوسکی کی بیٹی نکولینا نے بتایا کہ 2000 کی دہائی میں گاؤں میں بغاوت کا جنون پھر جاگا اور اس نے ویوچانی کی ایک مائیکرو نیشن (چھوٹے ملک) کے طور پر تشہیر شروع کر دی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے مقامی پاسپورٹ بنائے اور ویوچانی کی تشہیر کے لیے اپنی کرنسی پرنٹ کرائی ہے۔‘
’یہ کارگر ثابت ہوا۔ بلقان کے لوگ ہماری کہانی کے بارے میں اور جاننا چاہتے تھے، جیسے کہ ہمارا پرچم، پاسپورٹ اور پیسے۔ ہم نے گاؤں کی سرحد پر اپنے لیے ’کسٹم پوسٹ‘ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جہاں ہم پاسپورٹ پر مہر لگایا کریں گے۔‘
نکلولینا کے مطابق اگر ضروری ہوا تو ویوچانی کی بطور آزاد ملک جدوجہد مستقبل میں دوبارہ تیز ہوسکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت سیاسی گاؤں ہے۔ ہمارا گاؤں ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔ اگر مستقبل میں ہم نے ایک اور ریفرنڈم کرایا تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ممکن ہوگا کہ یہ گاؤں باقاعدہ آزاد ہوجائے اور ہم کامیاب ہوں۔‘
کھانے کے بعد ویلکوسکا مجھے ویوچانی کے نئے میوزیم لے گئیں جو ابھی کھلا نہیں تھا۔ اندر ویوچانی کی ایمرجنسی اور ریپبلک آف ویوچانی سے متعلق سیاسی نوعیت کے فنپارے رکھے گئے ہیں۔ اس میں ویوچانی کی صدیوں پرانے تقریب سے متعلق تصاویر بھی شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریب میں صدیوں پرانے طنزیہ فنپارے بھی شامل کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ گاؤں طنز و مزاح میں بہت آگے ہے۔ یعنی خود کو مائیکرو نیشن کا درجہ دینا ایک ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعے ویوچانی نے حکام پر طنز کیا۔
تقریب میں کئی طرح کے لباس اور ماسک جیسی چیزوں کے سیاسی مطلب ہوتے ہیں اور حکومت یا حالیہ سیاسی واقعات کا حوالہ دے کر اس کی نقل اتاری جاتی ہے۔
جھیل کے پاس واپسی کے لیے بس پر بیٹھنے سے قبل میں نے ویلکوسکا سے پوچھا کہ آیا ریپبلک آف ویوچانی کا خواب سنجیدہ ہے یا محض طنز۔
ان کا جواب تھا کہ ’ویوچانی کے حکومت سے اختلافات رہتے ہیں۔ لیکن ہم آزاد ملک بننے کے لیے بہت چھوٹے ہیں۔
’ہماری معیشت کمزور ہے۔ یہ اچھا خیال ہے لیکن ابھی یہ صرف مزاح کے لیے ہے۔‘