’سب لوگ بھاگ رہے تھے اور ہم پاپا کو اٹھا رہے تھے لیکن وہ اٹھ نہیں پا رہے تھے، پاپا نے عمران خان کو گولی مارنے والے کو پکڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے پاپا کو بھی گولی مار دی۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والے معظم گوندل کے دس برس کے بیٹے کا جو اس واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ جب بی بی سی نے اُن سے بات کی اس وقت وہ اپنے دادا کے ہمراہ موجود تھے اور ان کے ساتھ ان کا چھ برس کا چھوٹا بھائی بھی تھا۔ چھوٹا بھائی یعنی معظم کا چھوٹا بیٹا بھی اس وقت جائے وقوعہ پر موجود تھا جب ان کے والد نے دم توڑا۔
لانگ مارچ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والے معظم گوندل، جائے وقوعہ یعنی اللہ والا چوک سے لگ بھگ تین کلومیٹر دور واقع علاقے مصطفیٰ آباد کے رہائشی تھے۔
معظم کی ہلاکت کے بعد اُن کے گھر تعزیت کرنے کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے پورے محلے میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔
معظم نے سوگوران میں دو کمسن بیٹے اور ایک نوعمر بیٹی چھوڑی ہے۔ بڑے بیٹے کی عمر دس برس ہے اور وہ تعزیت کرنے کے لیے آنے والوں سے ملنے کے دوران اپنے آنسووں پر قابو نہیں رکھ پا رہے۔ چھوٹا بیٹا اتنا کم عمر ہے کہ وہ صرف سب لوگوں کو حیرانگی سے دیکھتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بچپن کے باعث اسے اس واقعے کی سنگینی کا ابھی اندازہ ہی نہیں ہے۔
معظم گوندل بسلسلہ روزگار کویت میں مقیم تھے اور ایک ہفتہ پہلے ہی چھٹی پر گھر آئے تھے۔ ایک ماہ اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد انھوں نے واپس کام پر کویت چلے جانا تھا۔
مقتول کے معمر والد محمد بشیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بیٹا اپنے دو کمسن بیٹوں کے ساتھ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے گیا تھا۔
’مجھے پتا ہوتا کہ وہاں فائرنگ ہونی ہے تو اپنے بیٹے کو روک لیتا اور اسے نہ جانے دیتا، میں نہیں جانتا کہ مجھے کیسے صبر آئے گا، وہاں ہزاروں لوگ موجود تھے میرا بیٹا ہی کیوں مارا گیا۔‘
معظم کا بڑا بیٹا کلاس چہارم جبکہ چھوٹا بیٹا پہلی کلاس کا طالبعلم ہے۔
بیٹے نے کیا دیکھا؟
معظم گوندل کے بڑے بیٹے نے آنکھوں دیکھا حال سنایا اور کہا کہ ’میں اپنے پاپا کے ساتھ لانگ مارچ میں گیا تھا، وہاں ایک بندہ عمران خان کو گولی مار رہا تھا۔‘
’میں نے دیکھا کہ پاپا جا کر اس سے گن چھین رہے تھے، جس سے گولی ان کو لگ گئی، پہلے میں نے پاپا کو اٹھایا پھر دوسرے لوگوں نے لیکن وہ حرکت بالکل نہیں کر رہے تھے۔‘
’پاپا مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو موٹر سائیکل پر ساتھ لے کر گئے تھے، آپی (بہن) نے کہا کہ میں نے بھی ساتھ جانا ہے لیکن پاپا نے انھیں روک دیا اور کہا کہ تم گھر پر ہی رہو، وہاں رش ہو گا۔‘
معظم گوندل کے چھوٹے بھائی کامران گوندل، جو ہنگامی طور پر کویت سے جمعے کی صبح ہی پہنچے ہیں، نے مطالبہ کیا ہے کہ قصور وار جس بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ ’قاتل نے ہمارا گھر اجاڑ دیا، میرا ہیرے جیسا بھائی بے دردی سے مار ڈالا۔‘
ایک محلہ دار محمد آصف نے بتایا کہ معظم گوندل بہت شریف انسان تھے۔
اُن کے مطابق معظم سکریپ کا کام بھی کرتے رہے تھے مگر پھر وہ کویت چلے گئے اور اب کئی برسوں سے وہاں کام کر رہے تھے، وہ پاکستان کے حالات سے پریشان تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ یہاں ہمارے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
اُن کے ایک دوست غلام رسول نے بتایا کہ ان کی معظم گوندل سے آخری بار بات چیت گذشتہ روز ہی ہوئی تھی۔
اُن کے مطابق ’معظم نے مجھے کہا تھا کہ عمران خان ہمارے شہر آ رہے ہیں، ان کی تقریر سننے چلتے ہیں، میں نے کہا کہ رہنے دو یار، کیا فائدہ ہے۔۔۔ سب سیاستدان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، میری اس بات پر معظم نے مجھے کوئی جواب تو نہ دیا لیکن مجھے لگا کہ جیسے انھوں نے میری بات کا بُرا منایا ہو۔‘
غلام رسول کے مطابق ’اگر مجھے پتہ ہوتا کہ انھوں نے یوں فائرنگ کا نشانہ بن جانا ہے تو میں انھیں کبھی نہ جانے دیتا، وہ میرے دوست تھے، میں انھیں جانتا ہوں کہ وہ اسلحہ چلانا تو نہیں جانتے لیکن بڑے نقصان سے سب کو بچانے کے لیے وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر حملہ اور کو پکڑنے کو دوڑے۔‘