عمران خان پر حملے کی تحقیقات: ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کن قانونی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے؟
وقت شام کے قریب کا ہے، مقام صوبہ پنجاب کے شہر وزیرآباد میں اللہ والا چوک اور پاکستان تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف چل رہا ہے۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان اپنے کنٹینر پر کھڑے ہیں۔
کنٹینر کے اردگرد لوگوں کا ہجوم موجود ہے۔ کچھ لوگ کنٹینر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور کچھ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں۔ کالے لباس میں ملبوس عمران خان ہاتھ ہلا کر لوگوں کو جواب دے رہے ہیں۔ اسی وقت گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے۔
دو جگہوں پر دو عمل ہوئے، ایک جہاں سے گولیاں چلیں اور دوسرا جس سمت میں چلیں۔ دونوں مقامات کی کئی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔
کنٹینر کے بائیں جانب لگ بھگ بیس فٹ کے فاصلے پر ایک شخص پستول نکالتا ہے اور کنٹینر کی طرف رُخ کر کے گولیاں چلاتا ہے۔ اس کے عقب میں کھڑا ایک شخص اس کو پیچھے سے دبوچ کر پستول چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران پھر ایک گولی چلتی ہے۔ مسلح شخص کے بالکل سامنے کھڑا ایک شخص نیچے گرتا ہے اور فوراً ساکت ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب کنٹینر پر موجود عمران خان اور ان کے ساتھ کھڑے ان کے ساتھی نیچے جھک جاتے ہیں۔ کچھ لوگ نیچے جھک کر پیچھے کی طرف بھاگتے ہیں۔ کنٹینر پر شور مچتا ہے کہ سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان کو گولی لگی ہے۔
چند لمحے بعد عمران خان کو کنٹینر سے ایک بلٹ پروف گاڑی میں منتقل کیا جاتا ہے۔ منتقلی کے دوران دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی دائیں ٹانگ کے نچلے حصے پر ایک سفید پٹی بندھی ہے۔ عمران خان کو لاہور کے شوکت خانم میموریل ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔
جہاں سے گولی چلائی گئی اس مقام پر مسلح شخص ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس شخص سے چھڑانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو اس کو دبوچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کشمکش میں دونوں زمین پر گرتے ہیں۔ مسلح شخص اٹھ کر بھاگتا ہے اور قریبی گلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
گجرات پولیس کے مطابق مسلح شخص کو وہاں موجود لوگوں کی مدد سے پولیس کے اہلکاروں نے وہاں سے حراست میں لیا۔ اس کا پستول بھی پولیس نے قبضے میں لیا اور اسے تھانے منتقل کر دیا گیا۔
اب پولیس کی حراست میں ایک مسلح شخص موجود ہے، اسے واقعے کے مقام سے گرفتار کیا گیا، اس نے جو اسلحہ استعمال کیا وہ برآمد کیا جا چکا ہے، اسے مرکزی ملزم تصور کیا جا رہا ہے اور عمران خان کے کنٹینر پر گولیوں کے نشانات موجود ہیں۔
حکام کے مطابق عمران خان کے علاوہ لگ بھگ تیرہ افراد زخمی ہوئے جنھیں مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے کم از کم چار کو گولیاں لگنے کی تصدیق کی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بھی طے ہے کہ اس مقام پر چلنے والی گولیوں سے چودہ لوگ زخمی اور ایک ہلاک ہوا ہے۔
عام حالات میں اس نوعیت کے واقعات میں پولیس کے پاس واقعے کی ایف آئی آر درج نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بچتا۔
تاہم وزیرآباد میں ہونے والے اس واقعے میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر جانے کے بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایف آئی آر میں ہر ایک گھنٹے کی تاخیر متاثرہ فریقین کے مقدمے کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
اب تک ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہو پائی؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعے کے روز ہسپتال سے ایک ویڈیو پیغام میں الزام عائد کیا کہ ’میرے خلاف ہونے والی اس قتل کی سازش میں تین افراد، وزیرِاعظم شہباز شریف، وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اور انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس شعبے کے سربراہ میجر جنرل فیصل شامل ہیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کروا رہی ہے تاہم ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ ’آپ کو پتا ہی ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے۔‘
یاد رہے کہ صوبہ پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے تاہم پنجاب کے وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے۔ ان کا تعلق پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے ہے۔
ق لیگ کی قیادت نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر اب تک کیوں نہیں ہو پائی۔ ق لیگ کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیرِ قانون راجہ بشارت نے شوکت خانم ہسپتال کے باہر اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ’سب ہو جائے گا، سب ٹھیک ہو جائے گا، ذرا صبر کریں۔‘
ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ کے مطابق گجرات پولیس کو تاحال پی ٹی آئی یا متاثرہ افراد کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست موصول نہیں ہوئی۔ ’اب معاملہ سی ٹی ڈی پنجاب کے پاس چلا گیا ہے تو ان کے اپنے بھی تھانہ جات ہیں، وہاں بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب بھی صوبائی حکومت فیصلہ کر لے گی اور پولیس کو درخواست موصول ہو جائے گی تو فوری طور پر ایف آئی آر کا اندراج کر دیا جائے گا۔
اس حوالے سے جاننے کے لیے بی بی سی نے پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری کو سوال بھیجا کہ کیا ان کی جماعت یا عمران خان نے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست دی ہے تاہم ان کا جواب نہیں آیا۔
ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
پولیس کے پاس فرسٹ انفارمیشن رپورٹ یا ایف آئی آر کسی بھی واقعے کی تحقیقات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کی روشنی میں پولیس تحقیقات کو آگے بڑھاتی ہے اور حقائق تک پہنچنے کے لیے شواہد اکٹھے کرتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج میں ایک گھنٹے کی تاخیر بھی متاثرہ فریق کے لیے عدالتی کارروائی کے دوران انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجداری نوعیت کے واقعات میں فوری طور پر ایف آئی آر کا اندراج ضروری ہوتا ہے۔
’ورنہ عدالت میں ملزم کا وکیل اس بات سے فائدہ اٹھاتا ہے اور عام طور پر اگر ایف آئی آر درج کروانے میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ کی تاخیر ہو تو ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اسد جمال کا کہنا تھا کہ ملزمان کا وکیل یہ موقف اپناتا ہے کہ ایف آئی آر اس لیے تاخیر سے کٹی کہ متاثرہ فریق نے دانستاً ملزمان کو محض پھنسانے کے لیے جھوٹے الزامات گھڑنے پر وقت لگایا۔
حملے کے بعد پولیس کی تحقیقات اور غلطیاں
گجرات پولیس کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر غضنفر علی شاہ کے مطابق پولیس نے واقعے کے مقام سے گولیوں کے گیارہ خول جمع کیے ہیں۔ ان میں نو خول پستول کے جبکہ دو خول اسالٹ رائفل کے ہیں۔
پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی کے اہلکاروں نے وہاں سے باقی شواہد جمع کیے ہیں جن میں خون کے نشانات کے نمونے، کنٹینر میں گولیوں کے سوراخوں کے حوالے سے معلومات اور دیگر ثبوت شامل ہیں۔
ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ کے مطابق ’ملزم کا موبائل فون بھی فرانزک سائنس اتھارٹی کے حوالے کیا گیا ہے جس کے معائنے کے بعد یہ پتا لگانے میں مدد ملے گی کہ ملزم کے رابطے کس سے تھے۔‘
وزیرآباد پولیس کے مطابق ملزم کی طرف سے ملنے والی معلومات کی مدد سے مزید دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد پر پولیس کو شبہ ہے کہ انھوں نے مرکزی ملزم، جس کا نام پولیس نے نوید بتایا ہے، کو پستول اور گولیاں حاصل کرنے میں معاونت فراہم کی۔
ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ کے مطابق ملزم نوید کو مزید تفتیش کے لیے کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ’پنجاب حکومت کے احکامات کے مطابق اب اس معاملے کی مزید تفتیش سی ٹی ڈی پنجاب کرے گا۔‘
پنجاب حکومت نے سی ٹی ڈی کے افسران پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے تاہم اس کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں۔
ملزم نوید کو حراست میں لینے کے کچھ ہی دیر بعد مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ملزم نوید کی پولیس کی حراست سے ایک اقبالی بیان کی ویڈیو سامنے آئی۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار ان سے سوال کر رہا ہے اور وہ جواب دے رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں وہ پولیس کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران کو قتل کرنے کی نیت سے ان پر فائرنگ کی، اس عمل میں مبینہ طور پر وہ اکیلا تھا اور اسے کسی نے ایسا کرنے کے لیے نہیں بھیجا۔
یہ ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی نے متعلقہ تھانے کا تمام عملہ معطل کر دیا اور ویڈیو لیک ہونے کی تحقیقات کا حکم دیا۔
ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ نے ایک مقامی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’یہ ویڈیو مقامی تھانے میں ریکارڈ کی گئی تاہم اس بات کی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ یہ کس نے بنائی اور کس نے لیک کی۔‘
وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال ک مطابق ’پولیس کی یہ ایک غلطی عدالت میں ملزم کے خلاف پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ سکتی ہے۔ قانونی طور پر پولیس اس قسم کا اقبالی بیان ریکارڈ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں قانونی طور پر اس نوعیت کے اقبالی بیان کی زیادہ وقعت نہیں ہے تاہم پولیس کے اس غیر قانونی عمل کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔ وزیرِاعلٰی کی طرف سے پورے تھانے کو معطل کرنے کے باوجود اگلے ہی دن ملزم نوید کی پولیس حراست سے مزید ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔
یہ دوسری ویڈیو کہاں اور کس نے ریکارڈ کی، گجرات پولیس کے مطابق انھیں اس کا علم نہیں ہے۔
عمران خان پر حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہے؟
سربراہ پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان فائرنگ ہونے اور ان کو ہسپتال میں منتقل کرنے کے کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اسد عمر کی جانب سے عمران خان کے حوالے سے ایک ویڈیو بیان جاری کیا گیا۔
اس بیان میں انھوں نے بتایا کہ ’عمران خان نے اپنے خلاف ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار تین افراد کو ٹھہرایا ہے۔‘ اس کے بعد انھوں نے ان ہی تین افراد کے نام لیے جن کے نام جمعے کو عمران خان نے پریس کانفرنس میں دہرائے۔
قانونی ماہر اور وکیل اسد جمال کے مطابق ’یہ بیان بھی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ متاثرہ فریق نے تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی بغیر ثبوت کے خود ہی ذمہ داران کا تعین کر دیا ہے۔ اب کون پولیس اہلکار ان تین افراد کے خلاف تحقیقات کرنے کی ہمت کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں بھی ملزمان اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پولیس کو کس بات کا کھوج لگانا ہے؟
گجرات پولیس اور قانونی ماہرین کے مطابق یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ فائرنگ کا ایک واقعہ ہوا ہے جس میں ایک شخص ہلاک اور سابق وزیرِاعظم عمران خان سمیت متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
گجرات پولیس کے مطابق مرکزی ملزم کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ اس کو مزید تفتیش اور تحقیقات کے لیے سی ٹی ڈی پنجاب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی پولیس برآمد کر چکی ہے۔
وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال کے مطابق ’اب پولیس کو یہ پتا لگانا ہے کہ آیا یہ ملزم کا انفرادی فعل تھا یا اس کے پیچھے کوئی اور بھی اس میں ملوث ہے۔‘
اسد جمال کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کیا ملزم نوید نے انفرادی حیثیت میں خود سے یہ کام کیا یا کسی نے اس سے یہ کام کروایا، یعنی آیا کسی نے اس کو ایسا کرنے کے لیے بھیجا۔
اس کے ساتھ ساتھ پولیس نے ملزم نوید کے خلاف عدالت میں جرم ثابت کرنے کیے شواہد اکٹھے کرنا ہیں۔ ’اس کے لیے ضروری ہے کہ کرائم سین کو اچھی طرح محفوظ کیا جائے۔ ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی تفصیل ضروری ہوتی ہے۔‘
اسد جمال کے مطابق پولیس کو اس بات کا تعین بھی کرنا ہو گا کہ گولی کس زاویے سے چلائی گئی، کیا یہ وہی گولی تھی جو عمران خان کو لگی، کیا یہ گولی اسی پستول سے فائر کی گئی جو ملزم کے پاس تھا۔
کیا پولیس نے یہ سب کچھ کیا ہے؟
ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ کے مطابق کرائم سین کو پولیس نے محفوظ کر لیا تھا جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے اہلکاروں نے وہاں سے تمام شواہد اکٹھے کیے ہیں جس کا سلسلہ جمعے کے روز بھی جاری رہا۔
پی ایف ایس اے اور سی ٹی ڈی پنجاب کے اہلکار جمعے کے روز بھی واقعے کے مقام سے شواہد جمع کرتے رہے۔ مذکورہ کنٹینر کو تاحال اس جگہ سے نہیں ہلایا گیا۔ اس کے اردگرد کئی فٹ کے مدار میں ٹیپیں لگا کر کرائم سین کو محفوظ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں ڈی پی او گجرات نے بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والے شخص معظم گوندل کا پورسٹ مارٹم بھی کروا لیا گیا ہے۔ ’اس میں ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہے کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا اس واقعے سے متعلق جتنی بھی ویڈیوز یا تصویری شواہد ہیں وہ سی ٹی ڈی پنجاب کے تحقیقات کرنے والے اہلکار ہی جمع کر رہے ہیں اور وہی ان کا جائزہ لیں گے۔
’کنٹینر کے سامنے سے فائرنگ کے شواہد نہیں ملے‘
جمعے کے روز اپنی پریس کانفرنس میں سربراہ پی ٹی آئی عمران خان نے دعوٰی کیا کہ ان پر فائرنگ کرنے والا ملزم نوید اکیلا نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نوید کی جانب سے ’ایک برسٹ فائر کیا گیا تو جب مجھے گولیاں لگیں اور میں گر گیا تو کنٹینر کے سامنے کی طرف سے بھی ایک برسٹ فائر کیا گیا۔ گولیاں میرے اوپر سے گزریں۔ جب میں نیچے گر گیا تو اس فائرنگ کرنے والے نے سمجھا ہو گا کہ میں مر گیا ہوں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملزم نوید کی طرف سے فائر کی گئی گولیوں سے وہ بچ گئے ’لیکن اگر میں کھڑا ہوتا تو سامنے سے آنے والی گولیوں سے میں کبھی نہیں بچ سکتا تھا۔‘
تاہم نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او گجرات کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد پولیس نے پورے علاقے میں مکانوں کی چھتوں کا جائزہ لیا تھا لیکن کہیں سے بھی انھیں اس بات کے شواہد نہیں ملے کے کنٹینر کے سامنے سے فائرنگ کی گئی ہے۔
’گولیوں کے تمام خول نیچے ہی سے ملے، کسی چھت سے ہمیں گولیوں کے خول نہیں ملے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہر زاویے سے مزید تحقیقات سی ٹی ڈی پنجاب کرے گا۔