Site icon DUNYA PAKISTAN

مشہور ہیئر کلپ ایجاد کرنے والا فرانسیسی جوڑا جس کو اپنی ’سخاوت کا انعام ملا‘

Share

1990 کی دہائی میں فیشن کی ضرورت سمجھا جانے والا بالوں کا کلپ کورونا کی وبا میں لاک ڈاون کے دوران ایک بار پھر مقبول ہوا جب سیلون جانا ممکن نہیں رہا تھا۔ تاہم بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ اس کلپ کی ابتدا فرانس کی ایک ورکشاپ سے ہوئی اور اس کو میرے والد نے ایجاد کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہ بات کہتے تھے کہ آپ دنیا میں کہیں بھی جائیں تو آپ کو کوکا کولا، مائیکل جیکسن کا پوسٹ اور ہمارا ہیئر کلپ ضرور ملے گا۔ ‘

میری پرورش فرانس میں دو خاندانوں نے کی۔ میری والدہ، ماریا، مغربی افریقی ساحل کے قریب کیپ ورڈے سے تعلق رکھتی تھیں۔ جب وہ 24 سال کی عمر میں حاملہ ہوئیں تو انھوں نے ایک بہتر زندگی کے لیے یورپ کا رخ کیا۔

یہ کوئی آسان سفر نہیں تھا۔ رات کے اندھیرے میں ان کو گنی بساؤ کی پرواز پکڑنی تھی جس کے بعد پرتگال اور پھر فرانس پہنچنے میں ان کو متعدد ماہ لگے۔ میری پیدائش دسمبر 1976 میں فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی۔ ہم سخت سردی میں بھی گلیوں میں سوتے تھے۔ پھر ان کو ایک خالی شیڈ مل گیا۔ اسی لیے ان کی صحت کبھی بھی اچھی نہیں رہی۔

،تصویر کا کیپشنمیں اپنی والدہ کے ساتھ

ایک جوان جوڑے، کرسچیئن پوٹٹ اور ان کی اہلیہ سلویئن، کو ہماری مشکل کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے ایک رات کے لیے مجھے اپنے پاس رکھنے کی پیشکش کی اور میری ماں کو گھر تلاش کرنے میں بھی مدد دی۔ پھر انھوں نے مجھے گود لے لیا۔ میری والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ اس خاندان کو سخاوت کا انعام ضرور ملے گا۔ وہ ٹھیک کہتی تھیں۔ اب 1980کی دہائی میں چلتے ہیں۔ یہ بڑے فون، بڑے بالوں اور بڑے خوابوں کا وقت تھا۔

کرسچیئن نے 14 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔ ان کے پاس کوئی ڈگری تو نہیں تھی لیکن چیزیں بنانے کا شوق تھا۔ 27 سال کی عمر میں انھوں نے ایک چھوٹی سی ورکشاپ قائم کی۔

کاروبار آہستہ آہستہ پھیلتا گیا اور 1986 میں انھوں نے اپنی کمپنی سی ایس پی ڈفیوژن کی پہلی فیکٹری کھولی جس میں پلاسٹک کی اشیا بنائی جاتی تھیں جیسا کہ ہیئر بینڈ اور کنگھیاں۔ پھر ایک دن وہ لمحہ آیا جس نے ہم سب کی قسمت بدل دی۔ کرسچیئن کہتے ہیں کہ ’ایک دن مجھے اچانک خیال آیا کہ میں کنگھیاں اور کلپ بناتا ہوں، کیوں کہ ان دونوں کا ایک ملاپ تیار کیا جائے؟ ‘

اور اسی خیال سے مشہور ہیئر کلپ نے جنم لیا۔

وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ ہر قسم کے بالوں کے لیے موزوں تھا، لمبے، چھوٹے، باریک، گھنے۔

لیکن میں نے ان سے سوال کیا کہ ’کیا ایک افریقی بچی، یعنی مجھے، گود لینے کی وجہ سے ان کو یہ خیال آیا کہ کوئی ایسا ڈیزائن تیار کیا جائے جو ہر قسم کے بالوں کے لیے مناسب ہو؟‘ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ یہ فیشن کے عروج کا دور تھا جس میں کلا ہیئر کلپ سستا بھی تھا اور کسی قدر جمہوری بھی جسے امیر اور ادنی دونوں قسم کے لوگ پسند کرتے تھے۔

ایل اوریئل برانڈ ایمبیسیڈر الیکس روسو کا کہنا ہے کہ ’یہ کلپ مجھے اپنے بچپن کی یاد دلاتا ہے جب میری والدہ روزانہ اپنے صارفین کے لیے اس کا استعمال کرتی تھین۔ اس کلپ نے ہر نسل کی خواتین کی زندگی بدل دی تھی خصوصا ان کے لیے جن کے بال لمبے ہوتے تھے۔ ‘

ایک وقت آیا جب یہ کلپ ہر جگہ موجود تھا۔ مشہور ٹی وی شو فرینڈز میں جینیفر اینسٹن نے بھی یہ کلپ لگایا۔

لیکن مجھے اس کی شہرت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب میری سہیلیوں نے مجھ سے زیادہ سے زیادہ کلپس کی فرمائش نہیں کی۔

1990 کی دہائی میں ہماری خاندانی کمپنی ماہانہ لاکھوں کلپ دنیا بھر میں فروخت کر رہی تھی۔ مانگ بڑھی تو کام کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑا۔

سکول کی چھٹیوں کے دوران میں کرسچیئن اور سلویئن کی بچوں کے ساتھ ورکشاپ میں بیٹھ کر ہر کلپ کو چیک کرتی تھی۔ ہم ان کو صاف کرتے اور اضافی پلاسٹک ہٹا دیتے جس کے بعد ان کو پیک کر دیا جاتا۔

پگھلتے ہوئے پلاسٹک کی بو ہمیشہ مجھے یاد رہی۔ یہ شاید عجیب لگے لیکن یہ بو مجھے بچپن کی یاد دلاتی ہے۔ اتنی چھوٹی سی چیز کو تیار کرنے میں بہت محنت ہوتی تھی۔

کرسچیئن کہتے ہیں ’سب سے پہلے خاکہ بنتا تھا۔ پھر ہم ایک ماڈل تیار کرتے تھے، پلاسٹر کی مدد سے، اور لوہے کو پگھلا کر حتمی سانچہ تیار کرتے تھے۔ پھر اس سانچے کو ایک پریس مشین پر نصب کر دیا جاتا تھا جس میں ابلتا ہوا مائع ایسیٹیٹ انڈیلا جاتا تھا۔ جیسے جیسے یہ ٹھنڈا ہوتا، کلپ کی شکل نکل آتی۔ ‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے ایک سانچہ بنانے میں دو سو گھنٹے لگتے تھے۔‘

،تصویر کا کیپشنکرسچیئن

اس وقت امریکہ اور جاپان سب سے بڑی منڈیاں تھیں لیکن یورپی ممالک جیسا کہ یونان میں بھی کلپ کی کافی مانگ تھی۔ ایتھنز کی رہائشی فینی لیپیس چند پہلی کلائنٹس میں سے ایک تھیں جو ایک وقت میں ایک لاکھ تک کلپس کا آرڈر کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہترین ایجاد تھی۔

اس زمانے میں فیشن کی ضرورریات کو سامنے رکھتے ہوئَے اس کلپ کی مختلف اشکال سامنے آئیں جن میں رنگوں اور زیورات کی آمیزش کی گئی۔

سلویئن نے مجھے بتایا کہ ’ہماری ایک کلائنٹ سویڈن کے شاہی خاندان کو سامان سپلائی کرتی تھیں۔ ان کی دکان بہت شاندار تھی جس میں ہمارے کلپس کی قطاریں ہوا کرتی تھیں جن میں سب سے بیش قیمت کلپس بھی ہوتے تھے۔ اور وہ سب فروخت ہو جاتے تھے۔ ‘ برطانیہ کے کلائنٹ پال کرسکیولو نے مجھے بتایا کہ ’جب کرسچیئن ہمارے لندن آفس آیا تو میں نے دیکھتے ہی جان لیا تھا کہ یہ کلپ بہت بکے گا۔‘

جیسے جیسے کاروبار بڑھتا گیا، کرسچیئن اور سلویئن کا اپنے اصولوں پر ایمان بھی پختہ ہوتا چلا گیا۔ اعتماد سب سے برتر تھا۔ سلویئن کہتی ہیں کہ ’ہم نے بہت کلپ بیچے لیکن ہم نے بہت سے دوست بھی بنائے۔‘

کامیابی کے ساتھ سفر کے مواقع ملے۔ کرسچیئن کہتے ہیں کہ ’میں کبھی فرانس میں اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلا تھا لیکن اس کلپ کی ایجاد کے بعد میں کبھی ٹوکیو میں ہوتا تو کبھی ٹورنٹو یا مراکش میں۔‘

اس وقت تک میں بھی بڑی ہو چکی تھی اور تھوڑی بہت انگریزی بول سکتی تھی جس کی وجہ سے بیرون ملک کاروباری دوروں کے دوران مجھے ایک اہم جزو بنا لیا گیا۔

پہلی بار میں نے نیویارک دیکھا تو میں دنگ رہ گئی تھی۔ ہم شہر کے ایک بہترین ہوٹل میں رکے تھے اور مجھے یاد ہے کہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں بھی اپنے خواب پورے کروں گی۔

یہ محنت طلب کام تھا جس میں ناکامیاں بھی بہت ہوئیں۔ ایک بار نیو یارک کے ایک اہم کلائنٹ سے ملاقات کرنے سے پہلے میں نے سینکڑوں غلط کلپ اکھٹا کر لیے تھے۔

لیکن میں نے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا۔ اب میں ہر کام سے پہلے دو سے تین بار جائزہ لیتی ہوں۔

میری والدہ کہتی ہیں کہ ان کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی ایک دن ان کو فخر کرنے کا موقع دے گی۔

مجھے گود لینے والے والدین نے اپنے گھر میں ہی نہیں، بلکہ اپنے دل میں بھی مجھے جگہ دی۔ اس سے بھی بڑھ کر انھوں نے مجھے بڑے خواب دیکھنے کی ہمت دی اور مجھے برطانیہ آنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔

ان کے بغیر میں آج اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ آج میں بی بی سی کے افریقہ پروگرام کی پروڈیوسر اور میزبان ہوں۔ حال ہی میں مجھے سو بااثر ترین افریقی خواتین میں شمار کیا گیا۔

30 سال بعد اپنے والد کی ایجاد کو دوبارہ مقبول ہوتے دیکھنا کتنا دلچسپ ہے۔

ایل اوریئل کے روسو کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ فیشن اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ جس طرح پونی ٹیل کی واپسی ہوئی، اسی طرح ہیئر کلپ بھی دوبارہ مقبول ہوا۔‘

لیکن اس قدر کامیابی کے بعد کیا کرسچیئن اور سلویئن کو کبھی کسی بات پر افسوس ہوا؟

کرسچیئن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اس کا پیٹنٹ کروانا چاہیے تھا۔ ہماری ایجاد کو فرانس میں تو حفاظت ملی لیکن بیرون ملک نہیں۔ پوری دنیا میں اس کی کاپیاں بنیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھی چیز کی ہی کاپی کی جاتی ہے۔‘ مجھے معلوم ہے کہ ایک بات جس کا ان کو کبھی افسوس نہیں ہوا، وہ مجھے گود لینا ہے۔

کرسچیئن نے مجھے بتایا کہ ’لوگوں نے ہمیں پاگل کہا کہ ہم ایک افریقی کو گود لے رہے ہیں جبکہ اس وقت ہمارے معاشی حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ لیکن جب میں نے تمھیں پہلی بار گود میں لیا تو پہلی نظر میں ہی پیار ہو گیا تھا۔ ‘

Exit mobile version