جمالیاتہفتہ بھر کی مقبول ترین

فلم ’تالی‘ میں سشمیتا سین کے خواجہ سرا بننے پر خواجہ سراؤں کو اعتراض کیوں؟

Share

ایک ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا پر بننے والی بالی وڈ فلم ’تالی‘ میں مرکزی کردار غیر ٹرانس اداکارہ سشمیتا سین ادا کر رہی ہیں۔ سشمیتا سین معروف اداکارہ ہیں اور وہ سابق مس یونیورس رہ چکی ہیں۔

اس فیصلے نے انڈیا کی ٹرانس یعنی خواجہ سرا برادری کی رائے کو منقسم کر دیا ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کردار کے لیے بہت سی ٹرانس اداکاراؤں میں سے کسی ایک کے پاس جانا چاہیے تھا جو ایسی بڑی شروعات کا انتظار کر رہی تھیں۔

نوویہ سنگھ اس فلم کے مرکزی کردار کی سہیلی کے کردار کے لیے تیار تھیں۔ انھوں نے اپنا مکالمہ پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا تھا اور اس میں کوئی تکبر بھی نہیں تھا۔ وہ قدرے سیکسی انداز میں دوستانہ ہو رہی تھیں، لیکن توجہ حاصل کرنے کے لیے اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ سب سے اہم بات تھی کہ انھیں اپنا مکالمہ یاد تھا۔

پھر بھی جب وہ آڈیشن سے فارغ ہوئیں تو کمرے میں دیر تک خاموشی چھائی رہی جو کہ بہت اطمینان بخش نہیں تھی۔

آخر میں، کاسٹنگ ڈائریکٹرز میں سے ایک نے خاموشی توڑی۔

انھوں نے نوویہ سے پوچھا: ‘لیکن تم ہو کون؟ عورت یا مرد؟’

نوویہ کہتی ہیں: ’میں نے محسوس کیا کہ میرا دل ڈوب رہا ہے۔ یہ اس قسم کا ایک بیہودہ تبصرہ تھا جس کی میں بالی وڈ میں ایک اداکارہ کے طور پر عادی ہو گئی تھی۔ لیکن یہ کبھی آسان نہیں رہا۔‘

18 سال کی عمر میں نوویہ انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے دیہی علاقے سے ہندی فلم انڈسٹری یا بالی وڈ کے مرکز ممبئی منتقل ہوگئی تھیں، جہاں وہ ایک ٹرانس وومن (خاتون خواجہ سرا) کے طور پر سامنے آئیں۔

وہاں پہنچنے کے بعد انھوں نے ایل جی بی ٹی رقاصوں اور ماڈلز، ڈیزائنرز اور اداکاروں کے ساتھ گھلنا ملنا شروع کر دیا۔ کچھ تو ملک کی سب سے مشہور فلمی اور اشتہاری مہمات میں شامل معروف گھریلو نام تھے، لیکن دیگر بطور خاص کمیونٹی کے ٹرانس ممبران جدوجہد کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ جن کو وہ جانتی تھیں زندہ رہنے کے لیے فلم، رقص اور ماڈلنگ کے کرداروں کے ساتھ ساتھ جنسی کام کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بالی وڈ میں ٹرانس لوگوں کے لیے کام بہت کم ہے۔ آپ فیشن شوز یا فلموں کے لیے آڈیشن دیتے ہیں لیکن شاذ و نادر ہی آپ کو بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم جنس پرست فیشن ڈیزائنرز یا پروڈیوسرز بھی ہمارے لیے دروازے نہیں کھولتے۔‘

اگرچہ اس دوران انھیں کچھ کام ملا ہے۔ نوویہ نے فیشن شوز کے لیے کیٹ واک کی اور گرازیہ میگزین کے لیے ماڈلنگ کی ہے۔ وہ ملک میں ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے سب سے بڑا مقابلہ حسن ’مس ٹرانس کوئین انڈیا‘ کی فائنلسٹ اور برانڈ ایمبیسیڈر بھی بنیں۔

اور ممبئی منتقل ہونے کے سات سال بعد ناویہ کو ڈرامائی جرائم کی سیریز، ’ساودھان انڈیا‘ میں ایک ٹرانس وومن کے طور پر بار بار رولز ملے۔ انسٹاگرام پر جلد ہی ان کے فالوورز کی تعداد 100,000 سے زیادہ ہو گئی۔

پہلی قسط نشر ہونے کے بعد انھیں ان کے والدین کا فون آیا۔ بہار چھوڑنے کے بعد سے انھوں نے نوویہ سے بات نہیں کی تھی۔

انھوں نے کہا ’ہمیں بہت افسوس ہے، ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ خواجہ سرا ہونے کا کیا مطلب ہے لیکن ٹی وی پر دیکھ کر اب ہم سمجھتے ہیں۔ تم ہماری اولاد ہو۔‘

نوویہ نے خوشی سے ان کا اپنی زندگی میں خیرمقدم کیا۔ چیزیں بہتر نظر آرہی تھیں۔ 

نویا سنگھ
،تصویر کا کیپشننویا سنگھ

گوری ساونت کی زندگی پر مبنی سیریز

پھر سنہ 2022 کے اوائل میں ممبئی کی ایل جی بی ٹی برادری میں آنے والی ٹی وی سیریز کی خبروں کی گونج تھی۔

’تالی‘ ممبئی کی ایک ٹرانس جینڈر کارکن گوری ساونت کی زندگی پر مبنی سیریز تھی جنھوں نے ایک سیکس ورکر کی بیٹی کو گود لیا تھا جس کی ایڈز سے موت ہو گئی تھی۔ سنہ 2014 میں ساونت پہلی ٹرانس جینڈر شخصیت بنیں جنھوں انڈیا کی سپریم کورٹ سے بچے کو گود لینے کے حق کے لیے درخواست کی اور ایک مختلف قسم کا خاندان بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر ان کی تعریف و توصیف ہوئی۔

نوویہ کہتی ہیں ’جب ہم نے پہلی بار تالی کے بارے میں سنا تو ہم بہت پرجوش تھے، کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ ایک ٹرانس جینڈر شخص کے بارے میں ایک اہم اور مضبوط کردار تھا۔ یہ اس کمیونٹی کے لیے ایک بہت بڑی جیت تھی۔ اور یہ ایک ایسا کردار تھا جسے ہم سب سمجھتے تھے، یہ ہماری کمیونٹی کے کسی فرد کے بارے میں تھا۔‘

لیکن اکتوبر میں یہ اعلان کیا گیا کہ اداکارہ سشمیتا سین گوری ساونت کا کردار ادا کریں گی۔

نوویہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ سُن کر بہت دکھ ہوا کہ گوری کا کردار ایک غیر ٹرانس اداکارہ کے پاس چلا گیا ہے، اور (ایسا سوچنے والی) میں اکیلی نہیں تھی۔‘

سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اس انتخاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

نویا سنگھ

ایک ٹویٹ میں لکھا گیا کہ ’ایک سٹریٹ عورت ٹرانس کردار کیوں ادا کر رہی ہے؟ یہ کون سا سال ہے؟ 1995؟ ٹرانس رولز کے لیے ٹرانس اداکار لیں!‘

ایک دوسرے ٹویٹر صارف نے تبصرہ کیا: ’میں حقیقی طور پر ٹرانس جینڈر اداکاروں کی ایک لمبی فہرست پیش کر سکتا ہوں جنھوں نے مثالی کام کیا ہے۔ لیکن ہاں، بالی وڈ سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟‘

ٹرانس جینڈر اداکارہ کالکی سبرامنیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے اتنے متنوع، پیچیدہ کردار نہیں ہیں جیسا کہ یہ ہے۔‘

’ہمیں جو کردار پیش کیے جاتے ہیں وہ دقیانوسی تصورات ہیں: سیکس ورکر، پس منظر کا کردار جو شادیوں میں دعائيں دیتا ہے، بلند آواز سے لعنت بھیجنے والا۔‘

’یہ انڈین سنیما کے کچھ حصوں میں بدل رہا ہے، جیسا کہ جنوبی ہند کی فلم انڈسٹری۔ لیکن بالی وڈ میں نہیں۔‘

انڈیا کی سب سے مشہور ٹرانس جینڈر اداکارہ انجلی امیر ہیں، جنھوں نے ناقدوں میں  سراہی جانے والی تمل زبان کی فلم ’پیرانبو‘ میں کام کیا ہے۔ جس میں انھوں نے سٹار اداکار مموتی کی (ٹرانس) محبت کا کردار ادا کیا ہے۔ انجلی پہلی ٹرانس جینڈر خاتون ہیں جنھوں نے انڈین سنیما میں ایک اہم خاتون کا کردار ادا کیا ہے۔

ناقدین نے ایل جی بی ٹی سنیما کے دقیانوسی تصورات کو توڑنے کے لیے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ انجلی کا کردار بنیادی طور پر معروف آدمی اور اس کی معذور بیٹی کو الگ تھلگ زندگی سے ‘بچاتا’ ہے اور وہ تینوں ایک پیار کرنے والا خاندان بناتے ہیں۔

لیکن انجلی امیر نے گوری ساونت کے کردار میں سشمیتا سین کو کاسٹ کرنے کی مکمل حمایت کی۔

انجلی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سشمیتا سین جیسی مشہور شخصیت کی یہ کاسٹنگ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے اچھی چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری کہانیاں مرکزی دھارے میں شامل ہو رہی ہیں۔ جب ہماری کہانیاں زیادہ گھروں میں داخل ہوں گی اور لوگ ہمیں انسان کے طور پر دیکھ سکیں گے، تو ہمارے لیے مزید رولز آئیں گے۔‘

انجلی کا کہنا ہے کہ اب انھیں جنوبی ہند کی فلموں میں غیر ٹرانس وومن کے کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں ٹرانس لوگ متاثرہ یا سیکس ورکر ہیں وہاں ان کے لیے زیادہ کردار لکھے جاتے ہیں۔ میں اس سے دور رہنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں صرف اچھے کردار ادا کرنا چاہتی ہوں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ سشمیتا سین بھی ایسا ہی کر رہی ہیں۔ اداکار ایسا ہی کرتے ہیں۔‘

یہ وہ ایسا نظریہ ہے جس کی حمایت خود گوری ساونت نے بھی  کی ہے، جو نئی ٹی وی سیریز کا موضوع ہیں۔ انھوں نے آن لائن پوسٹ کیا کہ یہ ’میری برادری کے لیے بہت بڑا اعزاز‘ ہے کہ بالی وڈ کی لیجنڈ سشمیتا سین نے ان کا کردار ادا کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

سشمیتا نے جواب دیا، ’چلیے یہ کر کے دیکھتے ہیں!‘

حال ہی میں ناویہ کو تالی میں ایک چھوٹا کردار ادا کرنے کے لیے بلایا گیا لیکن سیٹ پر ایک دن انتظار کرنے کے بعد ان سے گھر جانے کو کہہ دیا گیا کہ ان مزید ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس فیصلے نے انھیں دل شکستہ کرکے رکھ دیا۔

گوری ساونت
،تصویر کا کیپشنگوری ساونت کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ سشمیتا سنگھ نے یہ کردار ادا کیا ہے

وہ کہتی ہیں کہ ’فلم سیٹس پر پروڈکشن کے نظام الاوقات میں تبدیلی ہونا اور لوگوں کی مزید ضرورت نہیں رہنا عام بات ہے۔ لیکن جب آپ بالی وڈ میں ٹرانس وومن ہوں، تو آپ کے ساتھ ایسا اکثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے وقت کی قدر نہیں کی جاتی اور آپ کے چہرے کی انھیں ضرورت نہیں ہے۔ آپ ایک پس منظر والے کردار ہیں جو مرکزی دھارے کے سامعین کی خدمت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔‘

کرایہ ادا کرنے کے لیے ناویہ نائٹ کلبوں میں رقص کرتی ہیں، جبکہ ماڈلنگ اور فلمی کرداروں کے لیے آڈیشن دیتی ہیں۔ وہ ایسے کردار ملنے کا خواب دیکھتی ہیں جو پیچیدہ اور مضبوط، خوبصورت اور مطلوبہ ہوں لیکن وہ جانتی ہیں کہ کم از کم بالی وڈ کی ہندی فلم انڈسٹری میں ٹرانس اداکاراؤں کے لیے ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تالی اور گوری ساونت کے کردار سے انھیں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’گوری کا ہمارے اور ہماری کمیونٹی کے لیے بہت مطلب ہے۔ ذرا تصور کریں کہ یہ کتنا طاقتور پیغام ہوتا اگر ایک ٹرانس اداکارہ اسے ادا کر سکتی۔ اس سے اس کا کریئر بدل جاتا۔ وہ مرکزی دھارے میں شامل ہو جاتی۔‘